’’میں ابلاغیات کا طالب علم ہوں لکھنے کا شوق مجھے رہنمائی کی ضرورت ہے‘‘ ابلاغیات میں ایم اے کیا ہوا ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ مجھے کالم لکھنے کا شوق ہے کبھی کسی سے رہنمائی نہیں کی۔مجھے بھی کالم لکھنے کا شوق ہے کچھ کالم مقامی اخبارات میں چھپے بھی ہیں۔ قومی روزنامے میں کالم لکھنا چاہتا ہوں رہنمائی کریں۔ آپ کو اپنے کالم بھیج رہا ہوں۔ پڑھ کر رائے دیں۔ آپ کو اپنے کالم بھیجے ہیں اپنی اخبار میں جگہ دے کر ممنوں فرمائیں‘‘ اس سے ملتے جلتے مضامین کی ای میل اور دیگر برقی پیغامات کے ذرائع سے۔ پیغامات کم و بیش تمام کالم نگاروں کو موصول ہوتے ہوں گے۔ اسی طرح مجھے بھی اکثر ایسی برقی خطوط سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ کبھی وقت ہو تو دو لائنیں جواب میں لکھ دیتی ہوں۔ ورنہ ٹائپنگ کے معاملے میں ہمیشہ سے سستی کا مظاہرہ کرتی ہوں۔ یوں بھی ایسے سوالات کے جواب دو لائنوں میں دینا ممکن نہیں ہوتا۔ آج سوچا کہ اسی موضوع پر کچھ لکھا جائے۔ لیکن یہاں ایک سوال میرے ذہن میں آتا ہے کہ ایسا کیا ہے کالم نگاری میں کہ ہر شخص کالم نگار بننا چاہتا ہے۔ میں نے اس خواہش میں ایسے ایسے لوگوں کو مبتلا دیکھا ہے جن کا دور کا واسطہ بھی علم و ادب سے نہیں ہو گا مگر وہ اخبار میں کالم لکھنا چاہتے ہیں۔ ایک صاحب ہیں بڑے کاروباری۔ گارمنٹس کا کاروبار کرتے ہیں۔ پیسہ جیب میں ہے سو اس پیسے کا خوب استعمال کرتے ہیں۔ بیک وقت ملک کے اردو اور انگریزی قومی روزناموں میں معیشت‘ سماجیات اور سیاسیات کسی تقریب میں جائیںتو اپنا کیمرہ مین ہمراہ لے کر جاتے ہیں وہاں جتنی صحافتی اور ادبی اور سیاسی شخصیات آتی ہوں ان کے ساتھ بالکل میکانکی انداز میں کھڑے ہو کر مسکراتے ہیں، ان کی وہ تصاویر اتارتا جاتا ہے۔ کہیں کہیں تو موصوف ان اہم شخصیات کے کاندھے پر بھی بے تکلفی سے ہاتھ رکھ کر انتہائی دوستانہ مراسم کا تاثر دیتے ہیں۔ پھر ان تمام تصاویر کو بڑے اہتمام کے ساتھ سوشل میڈیا کے دوش پر دوستی کے ہر پلیٹ فارم پر پہنچا دیتے ہیں یوں اپنے عظیم لکھاری ‘ کالم نگار اور اثرورسوخ والے صحافی ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ اپنے ذاتی کیمرہ مین کے ساتھ ہر مشہور شخصیت کے ساتھ تصاویر بنوانے کا مظاہرہ ایک بار تو خود میں نے اپنی گناہگار آنکھوں سے دیکھا پھر اپنی ذاتی جیب کا استعمال کرتے ہوئے شہر کے چھوٹے موٹے اخباروں میں بھی اپنی سماجی مصروفیات کی رنگین تصاویر چھپواتے ہیں۔ ایسے چھوٹے موٹے اخباروں کا دال دلیہ بھی ایسی ہی شخصیات کے دم سے چل رہا ہوتا ہے جو قیمتاً مشہور ہونا افورڈ کرتے ہیں۔ ان اخباروں میں اس قسم کے شوقین افراد کے کیلنڈر سائز رنگین تصاویر کے ساتھ انٹرویو بھی باقاعدگی سے چھپتے ہیں۔ دونوں کا بھلا ہو جاتا ہے۔ اخبار کا بھی اور ان کا بھی۔ خیر بات کہا ں سے شروع ہوئی اور کدھر کو نکل گئی۔ لیکن محض ’’شوق‘‘ کی بنا پر صحافی اور کالم نگار بننے کی بات چل ہی نکلی ہے تو ایک اور دلچسپ واقعہ گوش گزار کرتی ہوں۔ میں ان دنوںریڈیو پاکستان پر کرنٹ آفیئرز کالائیو شو کرتی تھی۔ کبھی کبھار کسی اور پروگرام کی میزبانی بھی کر لیتی۔ ایسے ہی ایک روز خواتین کا کوئی پروگرام تھا اور جو مہمان مدعو تھیں انہوں نے ایک روز پہلے معذرت کر لی۔ پھر پروڈیوسر نے شاید انتہائی عجلت میں ایک خاتون مہمان کا بندوبست کیا۔ لیکن کیا مہمان شخصیت تھیں کہ میں آج تک ان کی گفتگو سے محظوظ ہوتی ہوں۔ وہ ایک نوجوان لڑکی تھی 25سے 30کے درمیان عمر ہو گی تعارف ان کا یہ تھا کہ صحافی ہیں۔ میں نے سوال کیا کہ آپ اخبار میں کیا کرتی ہیں ان کا جواب آیا کہ میں سب کچھ کرتی ہوں‘ جواب سن کر میں ایک دم سے گڑ بڑا سی گئی۔ سب کچھ کرتی ہیں ،میرا مطلب ہے رپورٹر ہیں، میگزین میں یا پھر نیوز روم میں کام کرتی ہیں۔ وہ محترمہ پھر گویا ہوئیں جی میں نے آپ کو بتایا ہے نا کہ میں سب کچھ کرتی ہوں۔ اب ایسے مبہم جواب سے یہی سوال نکل سکتا تھا کہ آپ نے صحافت میں ماسٹرز کہاں سے کیا۔ بولیں پنجابی اور فزیکل ایجوکیشن میں پرائیویٹ بی اے کیا ہے۔ صحافت میں کیسے آئیں۔ جواب دیا اپنی ایک سہیلی کے ساتھ آئی تھی۔ انٹرویو دیا تو جاب ہو گئی کیونکہ مجھے صحافی بننے کا شوق ہے۔ خیر جیسے تیسے کر کے پروگرام ختم ہوا تو پروڈیوسر الگ پریشان اور شرمندہ انہیں خود آج کے عجلت میں بلوائی گئیں مہمان صاحبہ کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا اندازہ تھا ہمارا جو احتجاج تھا وہ الگ کہانی ہے۔ ایسی ہی ایک اور کالم نگار صحافی شاعرہ اور ہر فن مولا قسم کی خاتون سے ملاقات ہوئی کہنے لگیں میں بھی کالم نگار ہوں ۔پہلے میں فلاں اخبار(ایک قومی روزنامہ) میں کالم لکھتی تھی اب فلاں اخبار(گم نام سا لوکل اخبار) میں لکھتی ہوں۔ وہیں معروف شاعر ناصر زیدی بھی تشریف رکھتے تھے بے ساختہ بولے محترمہ کیا معکوس ترقی کی ہے آپ نے۔ ویسے کالم میں نے شروع کیا تھا کہ کالم نگاری کے حوالے سے رہنمائی مانگنے والوں سے کچھ اپنے تجربات اور مشاہدات شیئر کروں مگر بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ کالم اختتامی مرحلے میں ہے۔ چند گزارشات ابھی عرض کئے دیتی ہوں۔ باقی انشاء اللہ پھر کسی نشست میں۔ لکھنے کے شوقین طلبہ و طالبات سے پہلی گزارش یہ ہے کہ اگر آپ لکھنا چاہتے تو پہلے مطالعے کی عادت اپنائیں پڑھیں۔ اور مزید پڑھیں۔اردو اور انگریزی دونوں زبانوں زیادہ سے زیادہ مطالعہ کریں۔ لکھنا ایک فن ہے اس طرف رغبت انہی لوگوں کی ہوتی ہے جنہیں یہ فن فطرت کی طرف سے ودیعت ہوا ہو۔ ان کا اس طرف فطری رجحان ہو لیکن اس کو سنوارنے اور نکھارنے کے لئے مطالعہ بہت ضروری ہے۔ نیز فیس بک اورسوشل میڈیا کی پوسٹیں پڑھنا میں مطالعے میں شمار نہیں کرتی۔ کتاب پڑھنا کتاب کے ساتھ ایک تعلق پیدا کر کے اس کا مطالعہ کرنا اور اسے اپنے اندر جذب کرنا ضروری ہے۔ آپ اپنی پسند کے مطابق فکشن اور نان فکشن پڑھ سکتے ہیں لیکن اگر آپ کالم نگاری کرنا چاہتے ہیں اس مطالعے کا دائرہ لامحدود ہی سمجھیں۔ سیاسیات، سماجیات، ادب۔ معاشرت فیشن شوبز، روحانیات، عمرانیات، ماحولیات اور نہ جانے کیا کیا پڑھیں سب کچھ، لیکن کچھ موضوعات منتخب کر کے اس میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اردو اور انگریزی کے اچھے مصنفین کو پڑھیں۔ اردو اور انگریزی کے اچھے کالم نگاروں کو روز پڑھیں۔ اخبار کا روزانہ مطالعہ ضروری ہے۔ انٹرنیٹ پر دنیا بھر کے انگریزی اخبارات موجود ہیں چند ایک اخبارات کا مطالعہ کرنا اپنی عادت بنائی۔اچھا پڑھے بغیر اچھا لکھنا ناممکن ہے۔ آج کے لئے اتنا ہی باقی باتیں اگلی نشست میں ہوں گی۔