پاکستان کے سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کافی دنوں سے سندھ کا دورہ کر رہے ہیں۔ اپنے دورہ سندھ کے دوران انہوں نے عوامی اجتماعات سے خطاب کرنے سے گریز کیا ہے۔ ان کو معلوم ہے کہ سندھ کے لوگ ان سے کتنی محبت کرتے ہیں؟سکیورٹی کے خدشات اپنی جگہ مگر ان کو یہ بھی خوف ہے کہ کہیں عوامی جلسوں میں ان کے خلاف نعرے نہ لگ جائیں۔ کیوں کے ان کے اقتدار کو سندھ میں دس برس مکمل ہوچکے ہیں مگراب تک سندھ کی حالت تاریخ سندھ کی طرح ٹوٹی پھوٹی ہے۔ دوسرے شہروں کی تو بات ہی کیا جب بھٹوز کے خاندانی شہر اور پیپلز پارٹی کے قلعے کی حالت پست ہے اور خود آصف زرداری کا نواب شاہ بنیادی ضروریات کو ترستا ہے تو سندھ کے عوام کا غصہ کبھی بھی اور کسی بھی وقت چھلک سکتا ہے۔سندھ کے لوگوں کو نیب کی طرح زرداری حکومت کی کرپشن کی تفصیل نہیں معلوم مگر وہ صرف ان افراد کو دیکھتے ہیں جن کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ کسی کو عوامی ہوٹل پر چائے کی پیشکش کریں۔ وہ افراد جب زرداری کے قریب پہنچے تو ان کے پاس پراڈو آگئی اور ان کے بنگلے کراچی اور اسلام آباد کے مہنگے علاقوں میں بنائے جانے لگے۔ سندھ عملی طور پر سیاست میں وہ کردار ادا نہیں کر رہا جو اس نے تحریک برائے بحالی جمہوریت یعنی ایم آر ڈی میں کیا تھا مگر علمی طور پرسندھ اتنا سادہ بھی نہیں کہ وہ نہ سمجھ پائے کہ زرداری اور ان کے حلقہ احباب کے پاس جتنی بھی دولت ہے وہ دراصل ان کی ہے۔ اگر سندھ میں اس قدر کرپشن نہ ہوتی تو نہ زرداری اس قدر امیر ہوتے اور نہ سندھ اس قدر غریب ہوتا۔ سندھ کے عوام کی خاموشی میں کوئی سیاسی طوفان بھلے نہ پل رہا ہو مگر زرداری کو خوف ہے کہ کہیں سندھ سیاسی آتش فشاں کی طرح پھٹ نہ پڑے۔ آصف علی زرادری کبھی تو مکمل طور پر گمنام تھے مگر جب سے وہ بینظیر بھٹو کی وجہ سے پہچانے جانے لگے تو ان پر پہلی تہمت یہ عائد ہوئی تھی کہ وہ ’’یاروں کے یار‘‘ ہیں۔ اس وقت آصف زرداری کے پاس وہ دوست نہیں جن کی وجہ سے ان پر ’’دوست پروری‘‘ کا الزام لگا تھا۔ کیوں کہ اب نواب شاہ میں وہ کیریو ان سے دور ہے جو آصف زرداری کی وجہ سے شہرکا امیر آدمی بن گیا تھا اور نہ ان کے قریب وہ ذوالفقار مرزا ہے جو زرداری سے ناراض ہونے سے قبل بڑے فخر سے بتاتے تھے کہ ’’یہ گھڑی جو میرے ہاتھ میں ہے وہ آصف زرداری کی ہے اور جو کپڑے میرے تن بدن پر ہیں وہ بھی آصف زرداری کے ہیں۔ میں آج جو کچھ ہوں اپنے محسن دوست آصف زرداری کی وجہ سے ہوں‘‘ مگر اب ڈاکٹر مرزا جب بھی بولتے ہیں ان کے زبان کی کمان سے زرداری کی سمت الزامات کے تیر چلتے ہیں۔ آصف زرداری اپنے قریبی حلقوں میں یہ بات اکثر دہراتے رہتے ہیں کہ انہوں نے دوستی میں اس قدر دھوکے کھائیں کہ وہ اب ’’دوست‘‘ لفظ ان کے لیے بے معنی بن چکا ہے۔ جس طرح سانپ کاڈسا رسی سے ڈرتا ہے وہ بھی دوستی سے ڈر جاتے ہیں۔ وہ اب پولو نہیں کھیلتے مگر ان کے پاس آج بھی اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ اس طرح وہ دوستی لفظ پر یقین نہ رکھنے کے دعوے کرتے ہیں مگر آج بھی ان کے دوست ان کی آخری پناہ گاہ ہیں۔ جب سے ان کے لیے احتساب کے ادارے زنجیر چھنکا رہے ہیں، تب سے وہ پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے عوام میں جانے کے بجائے اپنے دوستوں سے اس طرح مل رہے ہیں جس طرح ان سے الوداعی ملاقاتیں کر رہے ہوں۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب زرداری کے چیلے ان کو اس یقین کی بوتل میں اتارچکے تھے کہ پاکستان میں ایسی کوئی حکومت نہیں جو آپ پر ہاتھ ڈال سکے اور ایسا کوئی ادارہ نہیں جو آپ پر مقدمہ قائم کرے اور ایسا کوئی افسر نہیں جو آپ کو گرفتار کرنے آئے۔ اس لیے وہ اعتماد سے کہا کرتے تھے کہ ’’چیئرمین نیب کی یہ مجال نہیں ہوسکتی کہ وہ مجھ پر مقدمہ قائم کرے ‘‘ مگر جب نہ صرف ان پر بلکہ ان کی ہمشیرہ اور سندھ کی اقتداری سیاست کی سب سے طاقتور خاتون فریال تالپور پر بھی مقدمہ قائم ہوا اور وہ انور مجید جو سندھ کے پروفیشنل آئی جی اے ڈی خواجہ کے ساتھ فون پر ایسی گفتگو کرتے تھے جیسی مالک اپنے ملازم سے کرتا ہے، نے کبھی سوچا تک نہیں تھا کہ کبھی وہ بھی جیل کے قیدی ہوسکتے ہیں۔ آج جب وہ جیل میں ہے تب آصف زرداری کو بھی یہ احساس ہوگیا ہے کہ کبھی بھی کچھ بھی ممکن ہے۔ جس آصف زرداری کو چند ماہ قبل یقین تھا کہ وہ گرفتار نہیں ہوسکتا وہ آصف زرداری ہر آہٹ پر گھبرا جاتے ہیں کہ کہیں قانون کے رکھوالے اس کو لینے کے لیے تو نہیں آئے؟جب سے انور مجید جیل میں ہیں اور حسین لوائی کے بارے میں ان کو پکی اطلاع مل چکی ہیں کہ وہ قید میں ٹوٹ چکے ہیں اور انہوں نے سارے راز اگل دیے ہیں اس وقت سے آصف زرداری جیل جانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ جیل جانے سے قبل وہ نواب شاہ؛ خیرپور اور ٹنڈواللہ یار میں اپنے ان دوستوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں جو صرف ان کے دوست نہیں بلکہ وہ ان کے کاروبار کی نگہبانی اپنے نام سے کرتے ہیں۔ گزشتہ روز وہ اپنے اس دوست کے ساتھ تھے جو کچھ عرصہ قبل لاڑکانہ سے حیدرآباد آتے ہوئے جامشورو کے مقام پر قانون کے ہاتھ چڑھ گئے تھے اور آصف زرداری نے اس وقت بھی کہا تھا کہ’’ غلام قادر مری کا اصل قصور یہ ہے کہ وہ میرا دوست ہے‘‘ غلام قادر مری کی آزادی کے لیے اس وقت بھی پیپلز پارٹی متحرک نہیں ہو پائی تھی۔ ان کی آزادی کے لیے صرف ان کے خاندان کے چند افراد سڑکوں پر نعرے لگاتے سنے اور دیکھے گئے تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آصف زرداری کے کسی دوست کی حمایت میں پیپلز پارٹی نے کوئی کردارا دا نہیں کیا۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے کبھی آصف زرداری کی گرفتاری کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کیا۔ جب وہ جیل میں ہوتے تھے تب ان کے ذاتی دوست ان کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے تھے اور اقتدار میں آنے کے بعدآصف زداری نے جن کو بھی نوازا وہ سب وہ لوگ تھے جنہوں نے جیل کے دوران آصف زرداری کی کسی نہ کسی صورت میں کوئی نہ کوئی مدد کی۔ جس وقت آصف زرداری جیل میں تھے اور ان کے لیے پیپلز پارٹی کا کوئی عملی کردار نہیں تھا اس وقت آصف زرداری پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے لیے اچھی رائے نہیں رکھتے تھے۔ مرحوم مخدوم فہیم سے لیکر ناہید خان تک پیپلز پارٹی کے سارے رہنما آصف زرداری کے عتاب کا نشانہ بنے مگر وہ دور اور تھا۔ اس دور میں پیپلز پارٹی کی قیادت بینظیر بھٹو کے پاس تھی اور آج پیپلز پارٹی کے قائد وہ خود ہیں مگر ان کو آج بھی اس پارٹی پر کوئی بھروسہ نہیں کہ وہ اس کی آزادی کے لیے کوئی موثر کردارا دا کرے گی۔انہیں آج بھی پارٹی سے زیادہ اپنے پرسنل دوستوں یاروں پر یقین ہے کہ وہ ان کے کام آئیں گے۔ اس لیے وہ جن افراد سے مل رہے ہیں ان میں دیگر پارٹیوں کے رہنما نہیں ہیں۔ ان میں بڑے صحافی اور دانشور نہیں ہیں۔ ان میں پیپلز پارٹی کے پرانے جیالے نہیں ہیں۔ ان میں وہ کارکنان بھی نہیں ہیں جو پیپلز پارٹی کی اصل طاقت سمجھے جاتے ہیں۔ آصف زرداری اس بار جیل جانے سے قبل ان افراد سے ملاقاتیں کر رہے ہیں جن پر انہیں اعتماد ہیں۔ سندھ کی میڈیا میں تو ان افراد کے نام جانے پہچانے ہیں مگر قومی میڈیا کو کیا معلوم کہ غلام قادر مری کون ہیں؟ وہ پہلے کیا تھے؟ اور اب کیا ہیں؟ سیاسی اور صحافتی حلقے ان کے لیے کچھ بھی کہیں مگر آصف زرداری کے لیے وہ وفادار یار ہیں۔ وہ آصف زرداری کے لیے قابل اعتبار ہیں۔ ان یاروں سے الوداعی ملاقاتوں کے دوراں آصف زرداری صرف رسم دوستی ادا نہیں کر رہے مگر وہ حوصلہ بھی حاصل کر رہے ہیں جو اس عمر میں جیل جانے کے لیے ضروری ہے۔