آج موضوعات کا ہجوم ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک موضوع اہم اور فوری نوعیت کا حامل ہے آج بروز منگل اسلام آباد ہائی کورٹ اس درخواست کی سماعت کرے گا جو سابق صدر پرویز مشرف اور حکومت نے باہمی ہم آہنگی کے ساتھ دائر کی ہے اس درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ 28نومبر کو سپیشل کورٹ کی جانب سے غداری کیس کا آنے والا فیصلہ روک دیا جائے۔ ادھر الیکشن کمشن روزانہ کی بنیاد پر پی ٹی آئی فارنگ فنڈنگ کیس کی سماعت شروع کر رہا ہے جس کیس کو پی ٹی ائی مختلف قانونی موشگافیوں اور تاخیری حیلوں بہانوں سے گزشتہ پانچ برس سے ٹالتی آئی ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب میں آنے والی تبدیلیاں کیا صرف انتظامی ہوں گی یا سیاسی بھی نئے فرمان کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب وزیر اعظم آفس کو اسلام آباد میں مطلع کرنے کا پابند ہو گا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں پہلے بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ پنجاب میں پتاّ بھی بنی گالہ کے اذن شاہی کے بغیر نہیں ہلتا پنجاب کا ذکر خیر بھی کافی دلچسپ ہو سکتا ہے مگر یہ بھی ہمارا آج کا موضوع نہیں ہے۔ میں اس شش و پنج میں تھا کہ بوسٹن امریکہ سے آنے والی ایک ٹیلی فون کال نے میری مشکل آسان کر دی ۔ پنجابی کے ایک گیس کے مطابق: سانوں نوا ںپواڑا پا جان گے میرے نہایت بے تکلف دوست قاضی خالد جو ان دنوں بوسٹن میں مقیم ہیں، ان کا تعلق سیہون شریف سندھ سے ہے۔ قاضی صاحب بڑے سچے پاکستانی اور بڑے پکے سندھی ہیں۔ فون اٹینڈ کرتے ہی قاضی صاحب نے کہا حضور آپ پنجابیوں نے یہ دہرا معیار کیوں بنا رکھا ہے۔ نواز شریف کے لئے ایک معیار اور آصف علی زرداری کے لئے دوسرا معیار۔ قاضی صاحب نہایت جذباتی انداز میں اپنا نقطہ نظر روانی سے بیان کر رہے تھے۔ میں نے تقریباً ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا قاضی صاحب آپ تو بڑے سچے اور کھرے پاکستانی ہیں، آج آپ صوبائی تعصب کی باتیں کیوں کر رہے ہیں۔ قاضی صاحب کہنے لگے کہ وہ آصف علی زرداری بھی تو بڑے سچے اور پکے پاکستانی ہیں اور ہر موقع پر انہوں نے سندھ کو پیچھے رکھا اور وفاق کی بات پہلے کی اور یوں بھی پیپلز پارٹی روز اول سے ہی صوبائیت و لسانیت کو رد کر کے وفاق اور پاکستان کی بات کرتی ہے تبھی تو پیپلز پارٹی کا بڑا محبوب نعرہ تھا کہ ؎ وفاق کی زنجیر بے نظیر بے نظیر یوں تو مجھے بہت سے سیاست دانوں کے ساتھ ہماری دو چار ہی انفرادی ملاقاتیں ہوئی ہوں گی، ان ملاقاتوں میں جناب آصف علی زرداری کے انسانی رویوں سے میں بہت متاثر ہوا تھا۔ یہ غالباً2009ء کا سال تھا محترمہ بے نظیر بھٹو کی اندوہناک موت کے بعد جناب آصف علی زرداری صدر منتخب ہو چکے تھے ا ن دنوں میں سعودی عرب میں دو دہائیاں گزار کر اسلام آباد کی ایک بڑی بین الاقوامی سرکاری یونیورسٹی میں استاد تھا۔ میں پاکستان کی یونیورسٹیوں میں داخلی سیاست اور’’ باس از آل ویز رائٹ‘‘ کے ورکنگ کلچر سے زیادہ آشنا نہ تھا۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نہ جانے کیوں مجھ پر اتنے مہربان ہوئے کہ انہوں نے تدریسی فرائض کے علاوہ تقریباً ہر اہم ذمہ داری کی کیپ مجھے پہنا دی۔ میں طلبہ امور کا نگران بھی تھا۔ چھ سات ہوسٹلز کا پرووسٹ بھی تھا۔ یونیورسٹی میگزین کا ایڈیٹر بھی تھا اور نہ جانے کیا کیا تھا۔ پھر اچانک ایک روز میری اسلام آباد عدم موجودگی میں کچھ طلبہ نے ٹیچنگ بلاک میں اپنا لٹریچر تقسیم کیا ۔مجھ سے ناخوش بعض پروفیسروں نے جا کر وی سی صاحب کے کان بھرے۔ وی سی صاحب نے مجھے ناراضگی کا فون کیا اور اگلے روز میری واپسی تک انہوں نے مجھے اکثر ذمہ داریوں سے معزول اور بعض سے معطل کر دیا۔ جناب آصف علی زرداری یونیورسٹی کے چانسلر تھے ان کے نوٹس میں معاملہ آیا تو انہوں نے نہایت ہمدردانہ اور منصفانہ فیصلہ کیا۔ تاہم فیصلے کی تنفیذ میں زرداری صاحب کا پرنسپل سیکرٹری کے جو وی سی صاحب کا دوست تھا نت نئی رکاوٹیں کھڑی کرتا رہتا تھا۔ انہی دنوں ایوان صدر میں کالم نگاروں اور اینکروں کی ایک افطار پارٹی میں زرداری صاحب سے ملاقات ہوئی تو وہ میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر اپنے ایک اور سیکرٹری کے پاس لے گئے اور مجھے کہا کہ اب کام بلاتاخیر ہو گا اور ایسا ہی ہوا۔ اس لحاظ سے زرداری صاحب میرے محسن ہیں۔ اس لئے جب کبھی ان کے خلاف ذہن آمادہ تحریر ہوتا ہے تو ایک بار میرے قلم میں تھرتھراہٹ ضرور پیدا ہوتی ہے جب معاملہ انسانی ہمدردی کا ہو تو بھلائی کا جواب بھلائی سے ہی ہونا چاہیے۔ عمومی تاثر یہی ہے کہ میاں نواز شریف بھی پنجابی، حکومت بھی پنجابی ہسپتال بھی پنجابی اور بڑے مراتب بھی پنجابی۔ اس لئے میاں صاحب کو تو انسانی بنیادوں پرریلیف مل گیا مگر آصف علی زرداری بھی کم و بیش ویسی ہی بیماریوں کا شکار ہیں مگر انہیں ریلیف کیوں نہیں دیا جا رہا۔جناب آصف علی زرداری ہمیشہ وفاق کی بات کرتے ہیں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے موقع پر سندھ کے جذبات میں بڑی شدت اور حدت تھی۔ اس موقع پر ذرا سی بھی چوک بہت بڑے نقصان کا باعث ہو سکتی تھی مگر زرداری صاحب نے اس موقع پر نہایت پرجوش انداز میں پاکستان کھپے پاکستان کھپے کا نعرہ بلند کیا تھا۔ آصف علی زرداری پکے پاکستانی ہیں تاہم ان کی جیب میں سندھ عصبیت کا کارڈ رہتا ہے جسے وہ حسب ضرورت لہرا بھی دیتے ہیں مگر بات ہمیشہ پاکستان کی کرتے یں اور وحدت پر یقین رکھتے ہیں پاکستان میں کرپشن کے خلاف حکومت کی طرف سے یک رخا اور یک طرفہ شور و غوغا ہے اس سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ ایسے نقار خانے میں کوئی طوطی کی آواز کیونکر سنے گا۔ آج ہی سندھ کے وزیر اطلاعات جناب سعید غنی کا ایک تلخ بیان اخبارات کی زینت بنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انصاف کے انوکھے معیار پیپلزپارٹی کے لئے کیوں؟ ہم زرداری صاحب کے علاج کا حق مانگ رہے ہیں۔ کوئی احسان نہیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ کس قانون میں لکھا ہے کہ جرم کا تعلق کراچی سے ہو اور ٹرائل راولپنڈی میں ۔ اس طرح کی آوازیں سندھ کے سیاست دانوں سندھ کے اخباروں اور دانشوروں کی طرف سے بلند ہونے لگی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سیاست دانوں کے حوالے سے ماضی بھی خاصا تلخ ہے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا بھی راولپنڈی میں دی گئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو پر قاتلانہ حملہ بھی لیاقت باغ راولپنڈی میں ہوا اور اب آصف علی زرداری بھی راولپنڈی اسلام آباد میں ہی زیر حراست ہیں۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ زرداری صاحب کی صحت بھی انتہائی تشویشناک ہے اگر خدانخواستہ انہیں یہاں کچھ ہو جاتا ہے تو یہ صدمہ جہاں سندھ کے لئے ناقابل برداشت ہو گا وہاں وفاق کے لئے بھی خطرات کا باعث ہو گا۔ غالباً اسی نازک صورت حال کا اندازہ لگاتے ہوئے وزیر داخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے کہا ہے کہ زرداری کی بیماری کے پیش نظر انہیں بھی ریلیف ملنا چاہیے۔ ہمارے حکمران اپنے اوپر رحم کریں اپنی پارٹی پر رحم کریں اور پاکستان پر رحم کریں۔ سیاست و انسانیت کے موازنے میں ہمیشہ انسانیت کو ترجیح دی جاتی ہے جناب عمران خان آج تصوف کی دنیا کے بھی قریب ہیں اور وہ ذکر و اذکار کرتے اگرچہ سنائی تو نہیں دیتے مگر دکھائی ضرور دیتے ہیں اہل تصوف کا پہلا سبق نفی ذات اور اناشکنی ہے۔ مگر خان صاحب کی ہر تقریر ’’نہیں چھوڑوں گا‘‘کی انا پرستی ہوتی ہے جس میں وہ ’’میں‘‘ کا صیغہ استعمال کرتے ہیں جو صوفیا کے ہاں سخت ناپسند کیا جاتا ہے۔ قدیم عرب حکمرانی کو دو چیزوں کا مجموعہ گردانتے تھے ایک عفو و درگزر اور دوسری فیاضی۔ آج کے دور میں فیاضی سے مراد گڈ گورننس ہے تاکہ خلق خدا خوش رہے اور حاکم وقت کو دعائیں دیں۔ عمران خان عفو و درگزر سے کام نہ لیں اور این آر او نہ دیں مگر اسلامی رواداری اور انسانی ہمدردی سے تو کام لیں۔ جناب آصف علی زرداری کے لئے اسی ہمدردی کی ضرورت ہے۔