حضرت نظام الدین اولیاء کے دو خلفاء مشہور شاعر تھے۔ امیر خسرو دہلوی اور امیر حسن علاسجزی دہلوی! امیر خسرو کو اہل ِایران نے قبول ہی نہیں پسند بھی کیا ہے۔ حسن سجزی کا کلام، البتہ زیادہ شہرت نہیں پا سکا۔ ہاں! ایک شرف حسن سجزی کو ایسا حاصل ہوا کہ خسرو حسرت کرتے تھے کہ شاعری کے بدلے، کاش صرف یہ سعادت، ان کے حصے میں آئی ہوتی۔ خسرو کا اشارہ نظام الدین اولیائؒ کے ملفوظات کے مجموعے فوائد الفواد کی طرف ہے۔ انہی حسن سجزی کا شعر ہے۔ اے حسن توبہ آن زمان کردی کہ ترا طاقت ِگناہ نہ ماند یعنی توبہ اس وقت کی، جب گناہ کی سکت ہی نہ رہی! یا یوں کِہ لیجیے کہ ع ہاے کم بخت کو، کِس وقت خْدا یاد آیا یہ شعر، شریف برادران کے متوقع این آر او کی خبر سْن کر بہت یاد آیا۔ خدا جانے اس میں حقیقت ہے یا نہیں۔ مگر جب بھی یہ مشکل میں پڑتے ہیں، ہر طرح ہاتھ پائوں مارا کرتے ہیں۔ دوسروں کی مخالفت میں، البتہ رنگ کچھ اَور نظر آتا ہے۔ قومی رازوں کے یہ کتنے امانت دار ہیں، اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ پہلی دفعہ جب یہ وزارت ِعظمٰی سے نکالے گئے ، تو اس وقت کی وزیر ِاعظم کو مشکلات میں پھنسانے کے لیے, بھارتی صحافی کلدیپ نائر کو دیے گئے انٹرویو میں اعتراف کر لیا کہ ہاں! ہمارے پاس ایٹم بم ہے۔ ان کا ماضی ڈھکا چھپا نہیں، لیکن اربوں ڈالرز کے عوض، اگر انہیں رہا بھی کرنا پڑے، تو سودا مہنگا نہیں! اس کے دو فائدے تو ظاہر ہی ہیں۔ پہلا یہ کہ قوم پر ان کی اصلیت، پوری طرح کھْل جائے گی۔ دوسرا یہ کہ ان کا بْرا ہڈرا دیکھ کر، زرداری صاحب اور دوسروں کی بھی ہمت ٹوٹ جائے گی۔ دس پانچ کو پکڑ کر، شکنجے میں کَس لیا جائے تو ممکن ہے کہ ڈیم فنڈ انہی سے بھر جائے! مثل مشہور ہے کہ ہاتھی لاکھ لَٹے گا، پھر بھی لاکھ ٹکے کا۔ یہ ہاتھی بھی سترے بہترے ہو چکے۔ ان کے "ملبے" بیچ کر، ڈیم تعمیر کرنے میں، کوئی برائی نہیں۔ آخر یہ پیسہ، قوم ہی کا تو ہے۔ فلپائن کے بدنام اور بدعنوان سابق صدر مارکوس نے، وطن واپسی کے لیے "این آر او" کرنا چاہا، تو اس وقت کے صدر اکینو نے بھی، شرط یہ رکھی تھی کہ لْوٹی ہوئی دولت کا نصف، واپس کر دو۔ ہمارے ملک کے مجموعی قرضوں میں سے، آدھے اْتر جائیں گے! زرداری صاحب کو بہرحال یہ کریڈٹ دینا پڑتا ہے کہ وہ جیسے ہیں، اسے صرف عوام سے چھپاتے ہیں۔ خواص کے سامنے، وہ کھْل کر اعتراف کر لیتے ہیں۔ شریف برادران البتہ جوتوں سمیت آنکھوں میں گھْس آتے ہیں! کرپشن کی بدولت ملکی خزانے کی حالت اس جیب کی سی ہے، جس میں سوراخ ہو۔ ایسی جیب کو، جتنا بھی بھرا جائے، بھرے گی نہیں! عاصم حسین، شرجیل میمن، رائو انوار، عابد باکسر، فواد حسن، احد چیمہ۔ ایسے ہی بہت سے نام گنائے جا سکتے ہیں۔ قوم کی نظریں اسی طرف لگی ہوئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کب تک؟ امیدوار ِوعدۂ دیدار، مَر چلے آتے ہی آتے یارو، قیامت کو کیا ہوا؟ ٭٭٭٭٭ آج کا شاعر دوسری زبانوں کی طرح، اردو میں بھی دو طرح کی شاعری ملتی ہے۔ ایک وہ، جسے شاعری برائے شاعری یا شاعری برائے ادب کہا جا سکتا ہے۔ دوسری وہ، جو برائے زندگی ہے! پہلی قسم سے حَظ اٹھایا جا سکتا ہے، خوش وقت ہوا جا سکتا ہے، لیکن زندگی میں کوئی رہنمائی، کوئی مدد، اس سے نہیں ملتی! اسے ہوائی شاعری کہہ لیجیے یا نِری شاعری، ہے یہ ایسی ہی! دوسری قسم کی ادنیٰ کوششیں بھی، لائق ِتحسین ہیں۔ اس لیے کہ مقصد اولیٰ نہیںہے! اس خاکسار کی نپی تْلی رائے ہے کہ اردو شاعری کی نصف سے زیادہ فصاحت میر کے ہاں، اور کم از کم اتنی ہی بلاغت کلام ِاکبر میں ملتی ہے۔ نصف کی قید اس لیے لگائی گئی کہ باقیوں کا ساری کلام مل کر بھی ان کے برابر نہیں پہنچتا! علامہ اقبال کی مثال استثنائی ہے۔ ملا واحدی کا فقرہ مستعار لے کر، کہا جا سکتا ہے کہ یہ کلام، اقبال نے عرش کا پایہ پکڑ کر اْتارا ہے! اس شاعری کا اسلوب اور زبان، پیدا بھی اسی کلام کے لیے ہوئے تھے! میر کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ان کا تتبع کرنے والے ع تھک تھک کے ہر مقام پر، دو چار رِہ گئے! یا بقول ِذوق ع نہ ہوا، پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب دراصل یہ انداز نہیں، دنیا کو دیکھنے کا، بالکل الگ زاویہ تھا! میر کو یہ، ودیعت ہوا تھا۔ ہزار کوششوں سے بھی، یہ پیدا نہیں ہو سکتا! اکبر الٰہ آبادی کی شاعری، زندگی کی شاعری ہے۔ وہ پہلے شاعر تھے، جنہوں نے زندگی کے ہر اہم پہلو پر کچھ کہا! میر کے بعد، ایک مدت تک، شاعر سطحی مضامین میں الجھے رہے۔ غالب کی مْہملیت اور مومن کی معمہ گوئی بھی، آسمان سے گرا، کھجور میں اٹکا کے برابر ہے۔ اکبر نے شاعری کا مزاج اور رْخ، دونوں بدل ڈالے۔ یہ "نری شاعری" نہیں تھی، بلکہ ایسے ایسے نْکتے اکبر نے پیش کیے ہیں کہ کوئی دوسرا ان کی گرد کو نہیں چھْو سکا! ایسے شعروں کا ذکر ان سطور میں ہوتا رہتا ہے۔ لیکن یہی ایک خدمت کیا کم تھی کہ اپنے ہم وطنوں کو قابضین کی اندھی تقلید سے بچاتے رہے! اسی مقصد کے تحت، انگریزوں کے ساتھ تو یہ چھیڑ کہ ڈارون صاحب، حقیقت سے نہایت دْور تھے میں نہ مانوں گا کہ مْورث آپ کے لنگْور تھے اور اپنے ہم وطنوں کو چوٹ کے پردے میں سبق کہ بْوزنے کو رقص پر، کِس بات کی میں داد دوں؟ ہاں! یہ جائز ہے، مداری کو مبارک باد دوں! سرسید کی بعض خدمات سے، انکار ممکن نہیں۔ لیکن وہ دس ہزار ہارس پاور کا ایسا انجن تھے، جو بلڈوزر کی طرح، سب کچھ ملیامیٹ کرنے چلا تھا۔ اس وقت اکبر، اگر آڑے نہ آتے، تو بوزنہ یا بندر بننے کا عمل، کبھی کا پورا ہو چکا ہوتا! اکبر کی بدولت، مغربی یلغار، ہم پر پوری طرح حاوی نہیں ہو سکی۔ کتنی بجا ہے یہ شکایت کہ نئی روشنی یا نئی تعلیم، انسانیت کیوں نہیں سکھاتی؟ مغربی دنیا مصر ہے کہ ہم مہذب ہیں، ترقی یافتہ ہیں۔ لیکن جو نکتہ اکبر نے ایک صدی پہلے اٹھایا تھا، کیا وہ آج بھی، اتنا ہی اہم اور صحیح نہیں؟ جس روشنی میں لْوٹ ہی کی آپ کو سوجھے تہذیب کی میں اس کو تجلی نہ کہوں گا