چشمِ فلک نے مخمل میں ٹاٹ کا پیوند لگا نہیں دیکھا مگر صدیق اکبرؓ کو ٹاٹ کا لباس پہنے ضروردیکھا۔ سیدالملائکہ بھی وہی لباس تن کیے، تشریف لائے۔آقاﷺ سے عرض کی !اللہ تعالیٰ کہتا ہے: صدیقؓ سے پوچھیں مجھ سے راضی تو ہے۔ زمانہ بدلا، اس تیزی سے بدلا کہ لوگ ادراک نہ کر سکے مگر غارِ ثور کے پتھروں پر آج بھی صدیق اکبرؓ کے پائوں کا لمس باقی۔غار کے پتھر آج بھی بچھو کے ڈنگ مارنے کے گواہ۔غار ثور صدیق اکبر ؓ کے آنسو نبوت کے چہرے پر گرنے کاشاہد۔مکڑی کے جالے ،کبوتری کے انڈوں اور سراقہ کے گھوڑے کے زمین میں دھنسنے کی بھی۔ غارثورتیرہ ہزار فٹ بلند۔ کمل تاریک۔ا بجاسنگریزے۔اوپر جانے کاسنگلاخ راستہ۔ات کا اندھیرا،ننگے پائوںاور کندھوں پر کائنات کی سب سے معزز ہستی،دشمن کو مات دیکر منزل تک رسائی،سوائے ابوبکر صدیقؓ کے کسی کے بس میںنہیں۔ مدینے کے درودیوار نے حسنین کریمینؓ کو آقاﷺ کے کندھوں پر بیٹھے دیکھا مگر آقاﷺ کو کسی کے کندھوں پر بیٹھے نہیں دیکھا،سوائے صدیق اکبرؓ کے۔ سرکاردوعالم ﷺپر لاکھوں دورود سلام۔مہر علم و عمل پر صدہا درود،امام رْسل کی آمد سے گمراہوں اور لاعلموں کو راہِ اللہ ملی۔صلہ رحمی کا درس ملا۔ علوم مطہرہ سے آگاہی ہوئی ،سالہاسال سے عدوگلے ملے۔حسد گمراہی ،دھوکہ دہی ،حرام کاری ،لوٹ مارکے عادی۔صلہ رحم ہوئے۔مکہ کی وادی سے طلوع ِمہر ہوا،سیدنا صدیق اکبر ؓ جس کے ساتھ ہو لیے،ایسا ساتھ کہ آج بھی گنبد ِخضرا میں سینے کے قریب سر رکھے سو رہے ۔ 14 سو سال سے مسلمان ہزاروں کلومیٹر پیدل اور فضائی سفر کرکے گنبد خضرا کی زیارت کے لئے جاتے ہیں اور اپنی آرزئوں اور تمنائوں کی پوٹلیاں کھول کر آقائے نامدار ﷺکی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں۔ کبھی میرے ذہن پر بھی ساون کی گھٹائیں چھا جاتی ہیں اور سرشام ہی گہرا اندھیرا ہو جاتا ہے اور میرے اندر سے رات بھر سردیوں کی بارش پیہم برستی رہتی ہے اور دل کی چھت سے بوندوں کی طرح ٹپ ٹپ کی آواز آتی ہے۔کاش میں بھی گنبد خضرا کے سامنے آدب بجا لاتے ہوئے ۔سلام بجا لاتا۔ سقیفہ بنی سعدہ میں سیدنا صدیق اکبر ؓ،سیدنا عمر فاروقؓ اور سیدنا ابو عبیدہ بن جراحؓ کے ہمراہ پہنچے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓنے گفتگو کا آغاز فرماتے ہوئے ،انصار اور اہل مدینہ کی خدمات کا بھرپور اعتراف کیا۔اس کے ساتھ ہی عرب میں قریش کے تفوق اور برتری۔۔۔ اور نبی کریم ﷺ کے احکام کی روشنی میں۔ ۔ واضح فرمایا ہے:اِنَّ الْعَرْبَ لَا تَعْرِفُ ھَذَا لْاَمْرِ اِ لَّالِھَذَا الْحَی مِنْ قُرِیْشٍ (بخاری۔ کتاب المحاربین) اہل عرب قبیلہ قریش کے علاوہ کسی دوسرے کی خلافت تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہو سکتے۔ قریش سے کسی کو امیر بنانے کی تجویز، ان الفاظ میں پیش کی: یہاں پر حضرت عمر فاروق ؓاور حضرت ابوعبیدہ بن جراح ؓموجود ہیں، ان میں سے کسی ایک کے ہاتھ پر بیعت کرلو، جس پر انہوں نے کہا : آپؓ کی موجودگی میں اس منصب اور ذمہ داری کا کوئی اوراہل نہیں ہوسکتا، چنانچہ سب سے پہلے، حضرت عمر فاروقؓ نے، حضرت ابوبکر صدیق ؓکی بیعت کی اور پھر اس کے بعد سارا مجمع بیعت کے لیے آگے بڑھا، اس کی اطلاع پاتے ہی لوگ سقیفہ بنی ساعدہ کی جانب بڑھے اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کی بیعتِ خلافت کے لیے ہجوم ہوگیا۔ یہی بیعتِ خلافت ،ریاست اور نظام کے استحکام۔۔۔ اور ’’خلافت علی منھاج النبوبۃ‘‘میں کلیدی اور بنیادی حیثیت اختیار کر گئی، اگر اس موقع پر تساہل یا تامل ہوجاتا تو ملک و ملّت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جاتا۔ جس طرح گلاب کی خوشبو کو سونگھا تو جا سکتا ہے لیکن اس کی پوری کیفیت کو الفاظ میں ڈھالنا ممکن نہیں۔ اسی طرح حضرات خلفا اربعہ کے مزاج کوان کے واقعات سے سمجھا جا سکتا ہے مگر اس کی منطقی تعبیر ناممکن ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے اپنے ملفوظات میں فرمایا :کہ میں نے اسی واقعہ کو بطور دلیل لیکر مولانا قاری طیبؒ کو دارالعلوم دیوبند کا مہتمم بنا نے کی حمایت کی تھی ،کیونکہ جب مہتمم کا بیٹا اس مسند پر بیٹھے گا ،تو متعلقین شیخ کی نسبت سے اسے دل وجان سے قبول کر لیں گے ،بصورت دیگر فتنے کا خطرہ باقی۔البتہ جمہوری جماعتوں معاملہ الگ ۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے ۔نبی کریم ﷺزیادہ بیمار ہو ئے تو بلال رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کو نماز کی خبر دینے آئے۔ آپ ؐنے فرمایا : ابوبکرؓ سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ میں نے کہا :یا رسول اللہ! ابوبکر ؓایک نرم دل آدمی ہیں اور جب بھی وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے لوگوں کو ( شدت گریہ کی وجہ سے ) آواز نہیں سنا سکیں گے۔ اس لیے اگر عمر رضی اللہ عنہ سے کہتے تو بہتر تھا۔ آپ ﷺنے فرمایا : ابوبکر ؓسے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ پھر میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم کہو کہ ابوبکر نرم دل آدمی ہیں اور اگر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو لوگوں کو اپنی آواز نہیں سنا سکیں گے۔اس لیے اگر عمرؓ سے کہیں تو بہتر ہو گا۔ اس پر آپؐنے فرمایا کہ تم لوگ صواحب یوسف سے کم نہیں ہو۔ ابوبکرؓ سے کہو کہ نماز پڑھائیں۔ جب ابوبکر ؓ نماز پڑھانے لگے تو نبی کریم ﷺنے اپنے مرض میں کچھ ہلکا پن محسوس فرمایا اور دو آدمیوں کا سہارا لے کر کھڑے ہو گئے۔آپ ﷺکے پاؤں زمین پر نشان کر رہے تھے۔ اس طرح چل کر آپ ﷺمسجد میں داخل ہوئے۔ جب ابوبکر ؓنے آپؐ کی آہٹ پائی تو پیچھے ہٹنے لگے، اس لیے رسول اللہﷺنے اشارہ سے روکا پھر نبی کریمﷺ ابوبکرؓ کے بائیں طرف بیٹھ گئے تو ابوبکرؓ کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے۔ اور رسول اللہﷺ بیٹھ کر۔ ابوبکرؓ رسول اللہﷺ کی اقتداء کر رہے تھے اور لوگ ابوبکرؓ کی اقتدائ۔ اس سے معلوم ہوا،حیاتِ طیبہ میں مصلاّئِ رسول ﷺپر کسی کو کھڑا ہونے کی اجازت نہ تھی،سوائے صدیق اکبرؓ کے۔آقاﷺنے فرمایا:میں نے ہر کسی کے احسان کا بدلہ چکا دیا‘ سوائے صدیق اکبرؓکے۔ آپ ﷺنے جس عہد ، ماحول اور حالات میں مکہ سے مدینہ کی جانب رسالتِ مآب کی ہمسفری کی، وہ زمانہ آج سے یکسر مختلف۔ جگہ جگہ دشمن کے جاسوس، پھر انعام کا لالچ ‘نظامِ حکومت نہ ہونے کے باعث راستہ خطرات سے لیس۔چار سو جہالت کے ڈیرے مگر فرزند ابو قحافہ تب رفیق بنے۔ آج تک محبوب ﷺکے ساتھ۔ایک دفعہ صدیق اکبرؓ اپنے محبوبﷺ کے دائیں اور ابن خطاب بائیں جانب تھے۔ آپ ﷺنے دونوں کے ہاتھ فضا میں بلند کر کے اعلان فرمایا:ھکذا یوم نبعث یوم القیامہ۔ قیامت کے دن ہم ایسے ہی اٹھیں گے۔ مکہ کی گرم لُوسے بھری گلیوں میں غیظ و غضب سے بپھرے ،قریش سرداروں کے درمیان، جن لوگوں نے اسلام قبول کیا، کون ان کے مرتبے کا ادراک کر سکتا ہے؟قید و بند کے اذیت ناک مہ وسال گزرے مگر جھکنے سے انکار کیا۔