افغانستان سے مکمل امریکی فوجی انخلا تو اب نوشتہ دیوار ہے‘ 4جولائی کو نہیں تو 11ستمبر کو آخری فوجی بھی سپر پاور کے قبرستان سے زندہ سلامت مگر بصد سامان رسوائی رخصت ہو گا‘ دریائے آمو پار کرتے ہوئے سوویت یونین کے آخری فوجی نے اپنی قوم کو یہ پیغام دیا تھا کہ ’’ آئندہ کوئی روسی حکمران افغانستان کا رخ کرے نہ مداخلت کا سوچے کہ یہاں غیر ملکی آتے اپنی مرضی سے ہیں مگر جا ‘وہ افغانوں کی اجازت سے پاتے ہیں‘‘۔ آمدن بہ ارادت‘ رفتن بہ اجازت‘ امریکہ کی خواہش تھی کہ اس کی واپسی کو شکست اور پسپائی کا نام دیا جائے نہ دوران واپسی اس کے فوجی دستوں پر حملہ ہو‘ افغان طالبان نے پاکستان کی درخواست پر اپنے بن بلائے مہمانوں کی باعزت اور محفوظ واپسی کا بندوبست کیا مگر اشرف غنی حکومت کی خواہش یہ نظر آتی ہے کہ امریکہ جاتے جاتے طالبان اور پاکستان کے مابین تعلقات میں رخنہ اندازی کی تدبیر اور کٹھ پتلی حکمرانوں کی محفوظ موجودگی کا اہتمام کرتاجائے ‘اسی باعث اشرف غنی حکومت طالبان کے قیدی رہا کر رہی ہے نہ طالبان رہنمائوں کے نام ممنوعہ فہرست سے نکالے جا رہے ہیں‘ پاکستان نے گزشتہ بیس سال کے دوران دہشت گردی کا عذاب سہا‘ افغان کٹھ پتلی حکمرانوں ‘ خطے میں امریکہ کے سٹریٹجک پارٹنر بھارت کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کیا اور امریکی حکمرانوں کی طرف سے دوغلے پن کے طعنے سہے مگر اپنے اس موقف پر ڈٹا رہا کہ مسئلہ افغانستان کا کوئی فوجی حل ممکن ہے نہ کٹھ پتلی حکمرانوں کے ذریعے قیام امن اور نہ بھارت کے گماشتہ عناصر کی موجودگی میں خطے میں استحکام کی کوئی امید۔عالمی طاقت اور اس کے حلیفوں کو بالآخر یہ بات ماننا پڑی اور فوجی انخلا پر اتفاق ہوا مگر 1990ء کے عشرے کی طرح امریکہ ایک بار پھر افغانستان کو حالات کے رحم و کرم پر اور کٹھ پتلی حکومت کے حوالے کر کے رخصت ہونا چاہتا ہے۔ مقصد یہی نظر آتا ہے کہ جس طرح سوویت یونین کے انخلا کے بعد خانہ جنگی نے حریت پسندوں کے خلاف عوامی جذبات بھڑکائے ‘اب بھی افغان عوام امریکی پسپائی کو طالبان کی غلطی قرار دیں اور امریکی گماشتہ خوشی سے بغلیں بجائیں کہ چکھو جہاد کا مزہ اور بھگتو آزادی کے نتائج۔ افغانستان میں خانہ جنگی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے اور پاکستان میں خانہ جنگی کے مضمرات کے علاوہ تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان سے ہمدردی رکھنے والے جہادی عناصر کے تقویت پکڑنے‘ دہشت گردی کی نئی لہر آنے کے خدشات سے حکمرانوں اور عوام کو ڈرایا جا رہا ہے۔ یہ کوئی سوچنے کے لئے تیار نہیں کہ افغانستان میں طالبان نے برہان الدین ربانی‘ عبدالرشید دوستم‘ گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کے مابین‘ جنگ اقتدار کا خاتمہ کیا اور پاکستان کی مغربی سرحد کئی سال تک فتنہ و فساد سے محفوظ رہی‘ افغانستان جیسے قبائلی معاشرے میں حکومتوں کا قیام ہمیشہ طاقت کے اُصول کے تحت عمل میں آیا‘ طاقتور حکومت قائم کرتے ہیں خواہ وہ اندرونی ہوں یا بیرونی عناصر اور طاقتور ہی انہیں اکھاڑ پھینکتے ہیں‘ ووٹ کے ذریعے حکومتوں کے قیام کا تجربہ پاکستان میں تاحال‘کامیاب نہیں اور ہر سیاسی جماعت کو طاقت کی اشیر باد درکار ہوتی ہے حالانکہ برصغیر میں یہ عمل 1930ء کے عشرے سے جاری ہے ۔مستحکم حکومتیں یہاں ہمیشہ ووٹ کے بجائے طاقت کی بنا پر وجود رکھتی ہیں‘ موجودہ حکمران‘ دفتر خارجہ کے مدارالمہام اور داخلی و خارجی پالیسیوں کی تشکیل میں فیصلہ کن اہمیت کے حامل افراد کو اگر یہ خوش فہمی لاحق ہے کہ ان کی غیر جانبداری سے امریکی مطمئن اور چالیس برس سے پاکستان کو افغانستان میں جاری کشت و خون کا ذمہ دار قرار دینے والے عناصر شاد ہوں گے تو یہ اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ سٹریٹجک ڈیپتھ کی ایک نیو کلیر ریاست کو ضرورت ہو نہ ہو‘ اپنے عقب میں دوست ریاست اور حکومت کی موجودگی کی خواہش فطری ہے کہ افغانستان بھارتی ایجنٹوں کا گڑھ رہے نہ پاکستان دشمن عناصر کی آماجگاہ‘ سردار دائود سے لے کر نور محمد ترکئی‘ حفیظ اللہ امین ببرک کارمل‘ حامد کرزئی اور اشرف غنی دور حکومت تک افغانستان بلوچ اور پشتون دہشت گردوں‘ علیحدگی پسندوں اور ملا فضل اللہ جیسے باغیوں کی پناہ گاہ رہا اور اب بھی پاکستان میں کارروائیاں کرنے والوں کی تربیت گاہیں افغانستان میں موجود ہیں۔ کوئی بھی آزاد‘ خود مختار اور عقل و دانش کی حامل ریاست اپنے عقب میں ایک ایسی حکومت پسند نہیں کرتی جو اس کے خلاف سازشوں کا اڈہ اور تخریب کاروں کی پشت پناہ ہو‘ پاکستان کے فیصلہ ساز مگر تسلسل سے یہ یقین دہانیاں کرا رہے ہیں کہ عبدالرشید دوستم‘ حامد کرزئی‘ اشرف غنی ‘ عبداللہ عبداللہ اور طالبان قیادت میں سے کوئی ہمارا لاڈلا ہے نہ دشمن‘ جو بھی کابل پر قابض ہو ‘ ہم اس کے دوست اور بہی خواہ ہوں گے‘ سوال یہ ہے کہ کیا فریق مخالف کا بھی نقطہ نظر یہی ہے ؟کیا شمالی اتحاد اور اس کے حلیف بھی پاکستان کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں اور ماضی کی تلخیاں بھول کر پاکستان کو گلے لگائیں گے؟ یہ ہنڈرڈ ملین کا سوال ہے۔ پاکستان کے لئے بہترین لائحہ عمل یہ ہے کہ وہ پچھلے دس سال سے جاری حکمت عملی کو جاری رکھے‘ اپنے دوستوں کو دوست اور کھلے و چھپے دشمنوں کو دشمن سمجھے‘ طالبان کے برسر اقتدار آنے سے یہاں جہادی عناصر کو حوصلہ ملے نہ ملے مگر اشرف غنی ٹائپ افراد کو تقویت ملی تو یہاں کے امریکہ و بھارت نواز عناصر کی ریشہ دوانیاں بڑھ جائیں گی‘ علیحدگی پسندوں اور باغیوں کو سٹریٹجک ڈیپتھ دستیاب ہو گی اور بھارت کی سرمایہ کاری بڑھ جائے گی۔ افغان طالبان سے اصل پریشانی پاکستان سے زیادہ بھارت کو ہونی چاہیے کہ کشمیریوں کے حوصلے بلند ہوں گے اور حریت پسند عناصر کو محض جذبہ ایمانی کے ساتھ عسکری قوت کا مردانہ وار مقابلہ کی ترغیب ملے گی‘ کمزور بھی طاقتور کو شکست دے سکتا ہے یہ وہ سبق ہے جو برطانیہ اور سوویت یونین کی طرح امریکی انخلا سے دنیا بھر کے حریت پسندوں کو ملا مگر ہمارے ہاں اب بھی یہ بحث جاری ہے کہ امریکی پسپائی کے بعد افغانستان کے اقتدار میں غیر ملکی گماشتوں اور ابن الوقت سیاستدانوں کو غالب حصہ نہ ملا تو پاکستان میں مہاجرین کا سیلاب آئے گا‘ دہشت گردی کا عفریت سر اٹھائے گا اورہم نئے قسم کے مسائل سے دوچار ہوں گے‘ اگر یہ بات تھی تو پھر امریکہ اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے بجائے ہم امریکی خواہش کے مطابق افغانستان میں جنگ آزادی کے مجاہدین کا سرکچلنے کا کارنامہ انجام دیتے‘ اشرف غنی حکومت کو ہر ممکن مدد فراہم کرتے اور ڈالروں سے شکم کی آگ بجھاتے ع بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست کیا 1979ء سے اب تک پاکستان کی قربانیوں کا ثمر افغانستان میں ایک ایسی حکومت کا قیام ہو سکتا ہے جس میں امریکی گماشتوں ‘ بھارتی ایجنٹوں اور محب اللہ محب ٹائپ پاکستان سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والوں کی اکثریت ہو اور ہمارے عقب میں عدم استحکام‘ بدامنی کا بھوت ناچے؟ امریکہ کو پسپا کرنے والوں سے بیگانگی عقل و دانش کا تقاضا ہے یا شکست خوردہ عناصر اور اس کی باقیات سے دوستی ‘ قومی مفاد؟ فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم