وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی زیر صدارت اجلاس میں محکمہ محنت کی کارکردگی اور صنعتی کارکنوں کی فلاح و بہبود کے لئے کئے جانے والے اقدامات کا جائزہ لیتے ہوئے صنعتی کارکنوں کی تنخواہ ساڑھے 16ہزار اور لیبر کارڈ جاری کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ صنعتی ورکرز ہماری معیشت کا بنیادی کردار ہیں لیکن ہر دور میں ان ورکرز کا استحصال کیا گیا ہے‘ ان سے 12سے 16گھنٹے ڈیوٹی لی جاتی ہے لیکن معاوضہ انتہائی کم دیا جاتا ہے حکومت نے 2018ء میں پندرہ ہزار تنخواہ مقرر کی تھی لیکن اکثر فیکٹریوں اور ملز میں ورکرز کو اعلان کردہ تنخواہیں بھی نہیں مل رہیں۔ در حقیقت چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم نہ ہونے سے تاجر من پسند تنخواہیں مقرر کر کے غریبوں کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ حکومت نے ساڑھے 16ہزار تنخواہ مقررکرنے کا اعلان کر دیا ہے لیکن ماضی کی طرح اگر چیک ایڈ بیلنس نہیں ہو گا تو اس اعلان کی حیثیت بھی محض اخبار کی حد تک ایک بیان سے زیادہ نہیں ہو گی۔ حکومت سوشل سکیورٹی افسران کو فیلڈ میں تعینات کرے جو فیکٹریوں اور ملوں کے سرپرائز دورے کر کے ورکر کو تنخواہ کی فراہمی یقینی بنائیں۔ لیبر کارڈ جاری کرنے کے لئے تمام فیکٹریوں‘ کارخانوں‘ ملوں اور بڑے سٹورز کو باقاعدہ رجسٹرڈ کیا جائے انڈسٹریل ایریا کے علاوہ کئی علاقوں میں غیر قانونی فیکٹریاں اور کارخانے قائم ہیں انہیں رجسٹرڈ کر کے ٹیکس بھی اکٹھا کیا جائے تاکہ سبھی مزدوروں کو لیبر کارڈ مل سکیں۔