لیجئے فرزندان اسلام کیلئے ایک اور مسجد تیار ہو گئی ہے، جہاں و ہ اپنے رب کے حضور سر بسجود ہو سکیں گے۔ ترکی کے افسانوی شہر استنبول کے وسط میں تاریخی عمارت آیا صوفیہ 85 برسوں بعد عبادت کے لیے کھولی جا رہی ہے، جبکہ اس کے بغل ہی میں آسمانی رنگ کی 17ویں صدی کی تعمیر شدہ خوبصورت اوروسیع و عریض سلطان احمد جامع واقع ہے، جہاں کے میناروں سے دن میں پانچ وقت تکبیریں گونجتی رہتی ہیں اور اسکی صفیں نمازیوں سے پر ہونے کا انتظار ہی کرتی رہتی ہیں۔برسوں کی عدالتی کارروائی کے بعد اسی ماہ ترکی کی عدالت عظمیٰ یعنی کونسل آف اسٹیٹ نے وزارت سیاحت کی ملکیت کے دعوے کو خارج کرکے اس تاریخی عمارت آیا صوفیہ کو فاتح سلطان مہمت (محمد)ٹرسٹ کے حوالے کردیا۔ اس طرح اسنے ترکی کی کابینہ کے 24 نومبر 1934ء کے فیصلہ کو رد کر دیا، جس کی رو سے اس عمارت کو وزارت سیاحت کے حوالے کرکے میوزیم میں تبدیل کردیا گیا تھا۔چونکہ برسوں تک دہلی میں اپنے صحافتی کیریئر کے دوران میں نے بابری مسجد کی عدالتی کارروائی کا بغور مشاہدہ کیا ہے اور مسجد کو مسمار کرنے اور رام مندر بنانے کی مہم کو کور کیا ہے، اسلئے آیا صوفیہ کا ایودھیا میں بابری مسجد کے قضیہ کے ساتھ موازنہ کرنا بیجا نہ تھا۔ ترکی کی عدالت عظمیٰ یعنی دانستے کی پانچ شاخیں ہیں، جن میں آئینی عدالت، دائرہ اختیار طے کرنے والی عدالت، عام مقدموں کی شنوائی کرنے والی عدالت، کونسل آف اسٹیٹ یا انتظامی مقدموں کی شنوائی کرنے والی عدالت اور فوجی معاملات کی شنوائی کرنے والی عدالت شامل ہے۔ یہ مقدمہ کونسل آف اسٹیٹ کے زیر غور تھا۔ چونکہ یہ فیصلہ اورمنسلک دستاویزات زبان ترکی میں تھے ’ زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم‘ کے مصداق اس پر کوئی فوری تجزیہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ بس نیور رپورٹرز کی ذریعے ہی اس فیصلہ کے مندرجات تک رسائی حاصل تھی۔ پچھلے ایک ہفتہ سے کچھ ترک ساتھیوں کی وساطت سے عدالتی فیصلہ اور کارروائی کی تفصیل اور اس سے منسلک دستاویزات پڑھ کر یہ ادراک ہوا کہ جج حضرات اس کے علاوہ اور کوئی فیصلہ دے ہی نہیں سکتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ وہ فیصلہ دینے میں تاخیر کر سکتے تھے۔ عدالت جب کسی کیس کو شنوائی کیلئے منظوری دیتی ہے تو اسی وقت Questions of Lawیعنی قانونی نکات یا سوالات بھی طے کرتی ہے، جن پر فریقین بحث کرتے ہیں اور ان ہی نکات پر عدالت فیصلہ دینے کی مجاز ہوتی ہے۔ بابری مسجد کے قضیہ کی طرح عدالت نے جو نکات طے کئے ہوئے تھے، وہ یہ تھے کہ اس متنازعہ عمارت کا ٹائیٹل یعنی مالکانہ حقوق کس کے پاس ہیں؟ بھارت کی عدالت یا ترکی کی عدلیہ کے پاس یہ کیس سرے سے ہی نہیں تھا ، کہ عمارت مندر، مسجد یا کلیسا تھی۔ بھارت میں تو بعد میں عدالت نے بھگوان رام یا رام للا کو فریق تسلیم کرکے مقدمہ کی نوعیت بد ل دی ، مگر ترکی میں چلے اس مقدمہ کی کارروائی کے دوران گریک آرتھوڈوکس چرچ نے کبھی فریق بننے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ لہٰذا یہ مقدمہ صرف وزارت سیاحت اور ایک نجی ٹرسٹ کے درمیان تھا اور دونوں آیا صوفیہ کی عمارت اور زمین کی ملکیت کا دعویٰ کررہے تھے۔ اگرآرتھو ڈوکس چرچ نے اس دوران کوئی پیٹیشن دائر کی ہوتی تو شاید مقدمہ کی نوعیت بدل جاتی۔ بابری مسجد کا کیس بھی ایک سیدھا سادا سا ملکیتی معاملہ تھا۔ 1949ء کو جب مسجد کے منبر پر مورتی رکھی گئی اور مقامی انتظامیہ نے تالہ لگا کر مسلمانوںکی عبادت پر پابندی لگائی تو مقامی وقف بورڈ اور ایک شخص ہاشم انصاری نے اس کے خلاف کورٹ میں فریاد کی کہ اس جگہ کی ملکیت طے کی جائے۔ جج صاحبان نے برسوں کی عرق ریزی کے بعد قانون اور آئین کی پروا کیے بغیر ہندوئوں کی استھا یعنی عقیدہ کو اپنے فیصلے کی بنیادبنا دیا۔ عدالت کا کہنا ہے کہ ہندوئوں کا عقیدہ ہے کہ بھگوان رام کا جنم ’گربھ گرہ ‘ یعنی مسجد کے مرکزی گنبد کے نیچے ،عین محراب و ممبر کے پاس ہوا تھا ۔’’ایک بار اگر آستھا قائم ہوجائے تو عدالت کو معاملے سے دور رہنا چاہئے اور عدالت کو عقیدت مندوں کی آستھا اور عقیدے کے معاملے میں مداخلت سے پرہیز کرنا چاہئے۔ تاریخی دستاویزات کے مطابق قسطنطنیہ یا استنبول میں پہلا آیا صوفیہ یا کلیسا چوتھی صدی میں رومی بادشاہ قسطنطین نے بنایا تھا جو روم کا پہلا عیسائی بادشاہ تھا اور جس کے نام پر اس شہر کا نام بیزنطیہ سے قسطنطنیہ رکھا گیا تھا۔لیکن آج جو عمارت ایستادہ ہے ، اسکو شہنشاہ جسٹینین نے چھٹی صدی میں تعمیر کرایا۔ یہ عظیم الشان عمارت دس ہزار کاریگروں اور مزدورںنے صرف پانچ سالوں میں مکمل کی۔آیا صوفیہ میں ہر پتھر کی اپنی کہانی ہے۔اس کو بنانے کیلئے شہر افسس میں ہیکل آف آرٹیمس ، مصر میں سورج کے مندر ، لبنان میں بعلبک کے ہیکل سے استون لائے گئے۔آخر یہ دیو ہیکل استون اتنی دور سے کیسے منتقل کئے گئے ہنوز ایک راز ہے۔ اس کا گنبد گول کے بجائے چپٹا ہے اور یہ اب ترکی کے فن تعمیر کا لازمی جز ہے۔ سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں فتح قسطنطنیہ تک یہ عمارت مسیحیوں کا دوسرا بڑا مذہبی مرکز بناتھا۔ تقریباً پانچویں صدی عیسوی سے مسیحی دنیا دو بڑی سلطنتوں میں تقسیم ہو گئی تھی، ایک سلطنت مشرق میں تھی جس کا پایہ تخت قسطنطنیہ یا استنبول تھا، اور اس میں بلقان، یونان، ترکی، شام، مصر اور افریقہ وغیرہ کے علاقے شامل تھے، اور وہاں کا سب سے بڑا مذہبی پیشوا بطریق (Patriarch) آرتھو ڈوکس کلیسا فرقہ کا مذہبی پیشوا تھا۔جس کا ہیڈ کوارٹر آیا صوفیہ تھا۔ دوسری بڑی سلطنت مغرب میں تھی جس کا مرکز روم (اٹلی) تھا۔ یورپ کا بیشتر علاقہ اسی کے زیر نگیں تھا، اور یہاں کا مذہبی پیشوا پوپ رومن کیتھولک کلیسیاکا مذہبی پیشوا تھا، جس کا پایہ تخت اب ویٹیکن میں ہے۔ آیا صوفیہ 900 سالوںتک دنیا کا سب سے بڑا گرجا گھررہا ۔ عمارت کا ایک اور دلکش پہلو موزیک یعنی رنگ برنگی پچ کاری ہے۔ پتھر کے ٹکڑوں کو چاندی ، رنگین گلاس ، ٹیراکوٹا اور رنگین ماربل سے لیس کرکے یہ پچ کاری بنائی گئی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ اس میںکئی ٹن سونا بھی استعمال ہواہے۔ محراب کے بالکل اوپر سیدھ میں پچی کاری کے بیچ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تصویر ہے۔ ان کے دائیں طرف حضرت مریمؑ اور بائیں طرف حضرت جبرائیلؑ کی تصاویر ہیں۔ موزیک میں ایک اور شخصیت دکھائی دیتی ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا ہے۔ یہ شخص بازنطینی شہنشاہ لیونور ششم ہے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں میں انجیل ہے، جس کے سروورق پر قدیمی رومن میں ’’ سلام ہو ، میں کائنات کا نور ہوں‘‘ لکھا ہوا ہے۔ موزیک کی سب سے اہم اور حیرت انگیز خصوصیت یہ ہے کہ عیسیٰ کے دائیں اور بائیں حصوں پر چہرے کے تاثرات مختلف ہیں۔ چاروں کونوں پر ڈھالوں میں ہر ترک مسجد کی طرز پر پر اللہ، محمد، ابو بکر، عمر، عثمان اور علی نہایت خوشخط لکھ کر لگایا ہوا ہے۔ (جاری ہے)