پنجاب کے 22 کھرب 40 ارب روپے کے بجٹ میں پیش کر دیا گیا ہے ۔ البتہ اس بار یہ ضرور ہوا ہے کہ وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت اپنی تقریر میں جنوبی پنجاب کیلئے فنڈز کے اعلان کے ساتھ یہ بھی کہتے سنے گئے کہ مختص رقم وسیب پر ہی خرچ ہوگی ۔ یہ طفلِ تسلی در اصل میاں شہباز شریف کے دور سے شروع ہوئی کہ وسیب کی محرومی و پسماندگی کے چرچے ہر جگہ ہونے لگے تو ایک ترکیب نکالی گئی کہ بجٹ کے موقع پر اعلان کر دیا جاتا کہ35 فیصد بجٹ جنوبی پنجاب پر خرچ ہوگا ، پھر پورا سال وسیب پر بجٹ خرچ ہونے کی نوبت ہی نہ آتی ۔ سردار محمد عثمان خان بر سر اقتدار آئے ہیں تو اسی پریکٹس کو دہرایا جا رہا ہے ۔ جیسا کہ گزشتہ بجٹ میں سب سول سیکرٹریٹ کیلئے تین ارب روپے مختص اور یکم جولائی کو سب سول سیکرٹریٹ فنکشنل ہونے کا اعلان ہوا ، مگر پورا سال گزر گیا ، ایک روپیہ بھی خرچ نہ ہوا اور سب سول سیکرٹریٹ بھی فنکشنل نہ ہوا ، اس مرتبہ ترقی معکوس یہ ہوئی کہ سب سول سیکرٹریٹ کیلئے رقم نصف یعنی ایک ارب پچاس کروڑ روپے کر دی گئی اور یکم جولائی کو سب سول سیکرٹریٹ فنکشنل ہونے کا اعلان ایک بار ’’پھر سے ‘‘کر دیا گیا ، سب سول سیکرٹریٹ کی عمارتیں کہاں بنیں گی؟ اس کا کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ 16 با اختیار محکمے جنوبی پنجاب میں کام کریں گے اور سیکرٹریز وہاں بیٹھیں گے ، محکمے کونسے ہونگے ؟ کیا ان کے رولز آف بزنس تیار ہو چکے ہیں ؟ اس بارے تفصیل بتانے والا کوئی نہیں ، حکمران وسیب کے لوگوں کو ہمیشہ سے نادان سمجھتے آ رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ نادان لوگ ہی دوسروں کو بیوقوف سمجھتے ہیں ،اس بجٹ میں نشتر ٹو ، ڈی جی خان کارڈیالوجی ، بہاولپور انڈسٹریل اسٹیٹ ، 7 نئی یونیورسٹیوں ، ملتان وہاڑی روڈ ، ملتان کارڈیالوجی فیز 2 کے اعلانات ہوئے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اعلان دوبارہ دے دہرا دیئے گئے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ پچھلے بجٹ میں ان منصوبوں کیلئے جو رقم مختص ہوئی وہ خرچ کیوں نہ کی گئی ؟ اگر حکمران کہتے ہیں کہ کورونا آ گیا تھا ، ٹھیک ہے کہ کورونا کے تین ماہ نکال دیں ، 9 ماہ کے بارے میں تو قوم کو اعتماد میں لیا جائے کہ جنوبی پنجاب کی محرومی کے خاتمے کیلئے کتنا بجٹ خرچ ہوا ؟ وسیب کیلئے جنوبی پنجاب کی ٹرم استعمال ہوتی ہے ، وزیراعلیٰ عثمان بزدار اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ یہ لفظ لغوی اعتبار سے بھی درست نہیں اور وسیب کی حدود کا احاطہ بھی نہیں کرتا ۔ سرکاری سطح پر ایم اے ، ایم فل اور پی ایچ ڈی سرائیکی میں ہو رہی ہے نہ کہ جنوبی پنجابی میں لہٰذا دل آزاری کا باعث بننے والی ٹرم ختم ہونی چاہئے ۔ ریکارڈ کی درستی کیلئے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ گزشتہ سال 14 جون 2019ء کو موجودہ وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت نے ہی بجٹ پیش کیا تھا ، اور اسی وزیر خزانہ نے ہی اعلان کیا تھا کہ جنوبی پنجاب کیلئے 35 فیصد بجٹ مختص کیا گیا ہے ، ایک ایک پائی وسیب پر خرچ ہوگی ۔ ملتان ، بہاولپور ،رحیم یارخان ، راجن پور، ڈیرہ غازی خان اور لیہ سمیت 9 شہروں میں جدید ہسپتال بنانے کیلئے 40ارب ، ملتان ، بہاولپور ڈی جی خان ، بھکر سمیت پانچ اضلاع میں یونیورسٹیوں کے قیام کیلئے بجٹ مختص ، کالا باغ ، کوہ سلیمان اور بہاولپور میں نئے ٹورسٹ مقامات کیلئے بجٹ مختص ، ملتان میں نشتر ٹو کے علاوہ غلہ گودام کے نزدیک 100 بستروں کا ہسپتال ، کارڈیالوجی فیز ٹو کی تعمیر ، شیخ زید ہسپتال رحیم یار خان فیز ٹو ۔ اس کے ساتھ وزیر خزانہ نے ڈی جی خان میں انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی ، لیہ میں 200 بستروں پر مشتمل ہسپتال ، بہاولپور میں چلڈرن ہسپتال ، تونسہ ، مظفر گڑھ اور بہاولپور میں انڈسٹریل اسٹیٹ ، راجن پور میانوالی میں 200 بستروں کا زچہ بچہ ہسپتال وغیرہ کیلئے بجٹ مختص کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ بجٹ کی کاپی آج بھی اٹھا کر دیکھئے ، وزیر خزانہ صاحب کی تقریر موجود ہے اور بجٹ اسمبلی سے بھی پاس ہوا ، سوال یہ ہے کہ مذکورہ منصوبوں میں سے کتنے پر کام ہوا ؟ جنوبی پنجاب کی محرومی کا مقدمہ الیکشن کے موقع پر سرائیکی جماعتوں کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف نے زیادہ طاقت سے لڑا اور واضح طور پر کہا کہ ن لیگ اور میاں برادران نے وسیب کا بد ترین استحصال کیا ، اب تحریک انصاف بر سر اقتدار ہے تو خود احتسابی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جرات اور ایمانداری سے بتائے کہ اب محرومی کا ذمہ دار کون ہے ؟گزشتہ روز وفاقی اور صوبائی بجٹ کے خلاف ملتان ہائی کورٹ کے سامنے ہائی کورٹ کے وکلاء اور سرائیکی جماعتوں نے مظاہرہ کیا اور بجٹ کا پتلا نذرِ آتش کیا ۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ سول ججوں کی آنے والی 600 آسامیوں اور ہائی کورٹ کی 20 آسامیوں میں وسیب کو نصف حصہ دیا جائے اور صوبہ بنانے کا وعدہ پوراکیا جائے ۔ حکومت کو سمجھنے کے لئے اتنا کافی ہے کہ کورونا وبا کے باوجود ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے وکلاء بھی سڑکوں پر آنے کے لئے مجبور ہوئے ۔ بار دیگر یہ بات دہراؤں گا کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہتحریک انصاف کی حکومت نے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ دینے کے نام پر الیکشن لڑا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ صوبہ کے نام پر ووٹ حاصل کئے، نئے بننے والے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کو اقتدار میں آنے کے 100دن میں صوبہ بنانے کے تحریری وعدے پر تحریک انصاف کا حصہ بنایا گیا مگر اب 100تو کیا 700 دن سے اوپر ہو گئے ہیں ، تحریک انصاف صوبے کے معاملے پر قطعی طور پر خاموش ہے، کسی بھی جماعت کا منشور اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ کوئی بھی جماعت جس مینڈیٹ پر ووٹ حاصل کرے اس پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے وعدے اور اپنے منشور پر عمل کرے، آئینی اعتبار سے وعدہ خلافی کرنے والا نا اہل قرار پاتا ہے۔ وسیب کے کروڑوں لوگ توقع کر رہے تھے کہ تحریک انصاف اپنے وعدے اور اپنے منشور کے مطابق الگ صوبے کیلئے اقدامات کرے گی اور بجٹ میںصوبائی انفراسٹرکچر کیلئے رقم مختص کی جائے گی مگر ایسا نہیںہوا۔ مسلسل سول سیکرٹریٹ کا لولی پاپ دیا جا رہا ہے، حالانکہ سب سول سیکرٹریٹ کسی بھی لحاظ سے صوبے کا متبادل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی تحریک انصاف کے منشور میں سب سول سیکرٹریٹ کا تذکرہ ہے۔