زیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے جو وزیر خزانہ بھی ہیں صوبے کا مالی سال برائے 2020-21ء کا 12کھرب ‘41ارب‘13کروڑ روپے کا بجٹ پیش کر دیا ہے۔ جس میں 18ارب روپے کا خسارہ دکھایا گیا ہے جبکہ بجٹ میںکوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا ۔ اس میں شبہ نہیں کہ وفاق اور پنجاب میں پیش کئے جانے والے بجٹوں کے برعکس سندھ حکومت نے تنخواہوں اور پنشن میں 10فیصد اضافہ کیا ہے جوقابل تحسین اقدام ہے اسی طرح اگروفاق اور پنجاب کے بجٹوں میں بھی ماضی کی طرح تنخواہوں اور پنشنوں میں اضافے کی تجویز برقرار رکھی جاتی تو یقینا اس سے تنخواہ دار طبقے کو بہت فائدہ ہوتا۔ اس اعلان سے صوبہ سندھ کو وفاق اور ملک کے سب سے بڑے صوبہ پر یک گونہ برتری حاصل ہو گئی ہے جس سے تنخواہ دار اور پنشن لینے والے طبقوں کو اپنے مالی مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔ سندھ بجٹ میں زرعی کاروبار کو ٹیکس سے استثنیٰ دے کر بھی ایک اچھی مثال قائم کی گئی ہے۔ پاکستان خصوصاً پنجاب اور سندھ میں بیشتر آبادی کا دارومدار زرعی معیشت پر ہے۔اس ٹیکس استثنیٰ سے زراعت سے متعلقہ شعبوں اور کاروبار میں بہتری آئے گی تاہم وزیر اعلیٰ سندھ کو انگریزی کی بجائے اردو زبان میں بجٹ پیش کرنا چاہیے تھا تاکہ عام لوگوں کو بھی اس کے نمایاں اور چیدہ پہلوئوں سے مستفید ہونے کا موقع ملتا۔صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ اپوزیشن کے مطالبات اور اعتراضات نظر انداز نہ کرے اور کراچی جیسے مسائل میں گھرے ہوئے شہر پر بھی توجہ دے اور اس کے لئے خصوصی رقوم مختص کرے تاکہ شہر کو درپیش مسائل حل کئے جا سکیں۔