خود کو مظلوم سمجھنے میں پاکستانی کسی سے کم نہیں۔ کسی ایک فرد، کسی خاندان ،کسی ایک ادارے یا پھرکسی خاص قومیت کو ہی اپنے ہر دکھ اور اپنی ہر محرومی کے لئے ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ خود احتسابی سے مگر کام نہیں لیتے۔ مزاجاََ جذباتی، خود پسند اور ہر چھوٹی بڑی بات پر مشتعل ہوجاتے ہیں۔یہی عمومی رویہ سیاسی مزاج میں بھی جھلکتا ہے۔سوشل میڈیا کے آنے سے پاکستانیوں کی خوب بن آئی ہے۔ گالم گلوچ اب سہل ہو گئی ہے۔ پر شور جلسے جلوس،بے دریغ مبالغہ آرائیاں اور ذاتیات پر مبنی ایک دوسرے پر صبح شام تضحیک آمیزالزامات دھرنے والے سیاسی رہنماکہ الیکٹرانک میڈیا جنہیں خوب راس آیا ہے۔ تجزیہ کار خود پسنداور اکثر لکھاری زعم ِ برتری کے مارے اپنے اپنے سچ کا چورن بیچتے پھرتے ہیں۔ ’مرڈر آف ہسٹری ‘ میں خورشید کمال صاحب کی اس باب میں رائے لازوال ہے۔ لکھتے ہیں،’ ان سب لوازمات کی آمیزش سے ایک ایسا پاکستانی پروان چڑھتا ہے جو کسی قدر تعلیم یافتہ مگرطبعاََ جھگڑالو ہوتا ہے۔جس کے مزاج میںعدم برداشت، خود پسندی، خود ترحمی اور زود رنجی جیسے اجزائے ترکیبی بالعموم پائے جاتے ہیں۔دلیل سے فراریت، بحث میں بدزبانی، ہر قیمت پرمخالف نظریے پر فتح مندی کی خواہش اور اپنی خود ساختہ دنیا کی دائمی حقانیت پر اندھے اعتقاد جیسے رویوں کے حامل افراد معاشرے میں کثرت سے ملتے ہیں۔ زعمِ پارسائی میںمبتلا، جھوٹ اور دھوکہ دہی میں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر بھی جو شرمسار نہیں ہوتے۔ بلکہ اپنی پاک دامنی پر ہی مُصر رہتے ہیں‘۔ اس امر میںشک کی گنجائش اب ممکن نہیں رہی کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں، جا نبداری،دروغ گوئی اور مسلسل بے انصافی پر مبنی رویوںکے او پر جو استوار ہے۔ اعلیٰ جمہوری اقدار کا پرچار کرنے والے ہمارے’ لبرل دانشور‘ بھی مالی بدعنوانی اور لوٹ مار کو اب برائی نہیں سمجھتے۔ کیا اس عام پاکستانی کے اس رویے پر تعجب کی کوئی گنجائش موجود ہے جو کہتا ہے کہ’ کھاتا ہے توکیا، لگاتا بھی تو ہے‘؟ معاشرہ نفرت کی آگ میں جھلس رہا ہے۔ احساس جرم ختم ہوگیا ہے۔ دھڑلے سے جھوٹ بولتے ہیں، مگر شرمسار نہیں ہوتے۔ پرویز رشید کی نااہلی پر نوحے لکھے جا رہے ہیں۔’جمہوریت پسند‘ آبدیدہ ہو ہو کر ہم جیسوں کو ان کا’ اصلی جرم ‘بتا رہے ہیں۔جمہوریت کے لئے پرویز رشید کی ہر قربانی انہوں نے گنوا دی۔سرکاری خزانے کے پچانوے لاکھ روپے برسوں کیوں دبائے رکھے ، اس پر ایک حرف نہیں لکھتے ۔صاحبِ عزیمت اپنی نا دہندگی پر خود بھی شرمسار نہیں۔ کہتے ہیں رقم جیب میں لئے مارا مار پھرتا ہوں،کوئی وصول نہیں کر رہا۔ وطنِ عزیز میںکہ دائیں بائیں کی نظریاتی سیاست معدوم ہو چکی ہے ۔ کش مکش اب دو معاشرتی طبقات میں ہے۔ ایک طرف متوسط اور نسبتاََ تعلیم یافتہ پاکستانی ہیںکہ دو خاندانوں کو جنہوں نے ایک کے بعد ایک ملک پر حکومت کرتے دیکھا ہے۔ ان کی اگلی نسلیں اب حکومت کے لئے حق مانگ رہی ہیں۔ چوتھے صنعتی انقلاب کے برپا ہونے سے کچھ سال پہلے جنہوں نے آنکھ کھولی اور اب دنیا کو اپنی ہتھیلی میں سمٹا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ تارکینِ وطن ہیں کہ قانون کی حکمرانی پر استوار معاشروں کو قریب سے دیکھنے کے بعد اپنی محرومیوں کی زیادہ تر وجوہات سے آگاہ ہیں۔یونیورسٹیوں کے طلباء ہیں، جمہوری اقدار سے جوبیگانہ نہیں مگر مریم اور بلاول کے سحر میں گرفتار ہونے کو آمادہ نہیں۔احتساب سے جو امیدیں وابستہ کئے ہوئے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے منتظر ہیں۔ دنیا میں جو امن چاہتے ہیں،بھارت کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں۔دوسری طرف روایتی سیاست دانوںکا گروہ ہے کہ جسے سیاست، میڈیا، کاروبار اور انصاف کے سیکٹر میں موجود ان تمام عناصر کی تائید حاصل ہے جن کے مالی مفادات سیاسی خاندانوں کی حکومت میں واپسی سے جڑے ہیں۔جمہوریت، انسانی حقوق اور سویلین بالاد ستی کے سنہری نعرے لگاتے ، کل تک جو جنرل ضیا ء الحق کے ساتھ تھے۔ قدامت پسند طبقے کی حمایت میںاس بار ایک چھوٹا مگربے حد موثر گروہ بھی شدت کے ساتھ سرگرم عمل ہے جس کی پہچان اگرچہ لبرل انتہا پسندی ہے۔ مغربی تائید کے ساتھ نمو پانے والا یہ گروہ خطے میں مغربی ایجنڈے کے پیش نظر دو سیاسی خاندانوں کی غیرمشروط حمایت میں پیش پیش ہے۔اوروں کی طرح اس گروہ کو بھی لٹی ہوئی قومی دولت کی واپسی سے کوئی غرض نہیں۔ مذکورہ بالا دو متحارب گروہوں کے درمیان محاذ آرائی انتشار کی آخری حدوں کو چھورہی ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات کہ عام حالات میں جو خاموشی سے گزر جاتے ہیں، اس بار ان کی حدت غیر معمولی رہی۔ زیرِ زمین پکنے والا لاوہ مگر اب جیسے پھٹنے کو ہے۔نفرت پر مبنی انتہا پسند رویے اگر یوں ہی نمو پاتے رہے تو عام انتخابات کے اندر بد انتظانی، شورش اور خون خرابے کے بڑے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ وزیرِ اعظم سیاسی خاندانوں سے بات کرنے کو تیا ر نہیں۔ نواز شریف کی لندن روانگی کے بعد اب وہ کسی اور کے کہنے پر مریم کو کوئی رعایت دینے کو ہر گز تیا رنہیں۔بدلے میں مریم ذاتیات پر مبنی تلخ نوائی کی نئی حدیںپار کررہی ہیں۔ کسی زمانے میں ایسی کسی ہیجانی صورت حال میں ’ماڈریٹر‘ کا کردار ادا کرنے والی اسٹیبلشمنٹ کو اصرار ہے کہ اس کا سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں۔ اگرچہ بلاول زرداری کو اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدارنظر آرہی ہے ، تاہم نواز شریف اور مریم نواز،گو پہلے کی طرح جارحانہ نہ سہی مگر اب بھی اداروں سے متعلق اپنی معاندانہ پالیسی پرظاہراََ نظرِ ثانی کرنے کو تیار نظر نہیں آتے۔اب بھی سمجھتے ہیں کہ اداروں پر مسلسل دبائو کے ذریعے عمران حکومت کو ہٹانے یا پھرکم از کم بیٹی کے لئے بیرونِ ملک روانگی کا راستہ ہموارکیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اداروں پر اب دبائو میں وہ شدت نہیں رہی تاہم مسلسل محاذ آرائی کے نتیجے میںاگر سسٹم گر جاتا ہے تو باپ بیٹی اس میں بھی اپنا فائدہ ہی دیکھتے ہیں۔اداروں کے اندر تقسیم کے لئے دونوں ایک عرصے سے کوشاں ہیں۔حالیہ دنوں میں انتہائی اہم اور معزز قومی ادارے کے اندر دراڑ واشگاف ہوتی ہوئی نظر آئی ہے۔سوال مگر یہ ہے کہ سسٹم اگر گربھی گیا، ادارے ٹوٹ بھی گئے، آپ اقتدار میںواپس آبھی گئے تو کیا آپ حکومت دل جمعی سے کر سکیں گے؟ مغربی ایجنڈے کے تحت خطے میں بھارتی بالا دستی کی راہ میں سلامتی کے اداروں کو رکاوٹ سمجھنے والی قوتیںایک عرصے سے متحرک ہیں۔ مادر پدرجنسی آزادیاں مانگنے والے لبرلزاور ریاست پاکستان کے خلاف صف آرا قوم پرستوں کے اندرباپ بیٹی کی حمایت میں یکسوئی محض اتفاق نہیںہے۔بالکل جیسے لبرلز کے ترجمان انگریزی اخبار میں ایک معزز جج کی حمایت میںخاص طور پر جمائی گئی سرخیوں کے ساتھ تواتر سے چھپنے والی مخصوص رپورٹرز کی رپورٹیں بھی ہر گز اتفاق نہیں ! اب بھی وقت ہے، متحارب گروہوں کو رک کر اپنے اپنے رویوں پر نظرِ ثانی کرنی چاہیئے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ذاتی یا گروہی مفادات کی خاطر اداروں کی تقسیم کرنے کی کوئی سی بھی کوشش ملک کیلئے تباہ کن ہو گی۔ ڈسکہ کے حالیہ انتخابات میں بد انتظامی اور بظاہر دھاندلی کی دیانت داری سے تفتیش کی جانی چاہیئے۔ ازسرِ نو انتخابات کا فیصلہ ایک طرف، تحریک انصاف کو انتظامی مشینری کی ناکامی اورانتخابات کے انعقاد میں پھوہڑ پن پرکم ازکم شرمسار تو ہونا چاہیئے۔بد دیانتی اور بے انصافی کسی بھی جانب سے ہو، کسی بھی صورت میں ہو ، ہر گز قابل قبول نہیں۔