رسول کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات کا زمانہ اسلامی تایخ کا ایک سنہرادور ہے ۔سرکار کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے اس دنیا میں ظلمت وتاریکی کا پھیلاہوا غبار چھٹ گیا۔اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام عقل سلیم کے حامل جس شخص نے بھی سنااس نے نہ صرف اس کی تائید کی بلکہ اس پیغام کو قبول کرتے ہوئے رسول اللہ ، خاتم الانبیاء کی تربیت میں آنا اپنے لئے باعث سعادت جانااور یوں صحابہ کرام علیہم الرضوان کی ایک عظیم جماعت تیار ہوئی،اس جماعت کا ہرایک فرد حسن ِسیرت وکردار میں اپنی مثال آپ ہے ۔اسی برگزیدہ جماعت میں ایک نام حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا بھی ہے ۔آپ کا شمار جلیل القدر صحابہ کرام میں ہوتا ہے ۔آپ کی کنیت ’ابو موسیٰ‘،نام’ عبداللہ‘ اور والد کا نام’ قیس ‘ہے ۔کتب سیر وانساب میں آپ کا سلسلہ نسب کچھ یوں بیان کیا گیا ہے :’’ابوموسیٰ عبداللہ بن قیس بن سلیمان الاشعری‘‘آپ یمن کے قبیلہ قحطان کے ’اشعر‘نامی خاندان میں پیداہوئے ،اس وجہ سے آپ کو اشعر ی کہا جاتا ہے ۔آپ کی والدہ ’ظبیہ‘کا تعلق یمن کے قبیلہ عدنان یا عک سے تھا۔آپ کی والدہ نے بھی اسلام قبول کیا اور ان کا انتقال مدینہ منورہ میں ہوا۔آپ کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے مؤرخین اور سیرت نگار خاموش ہیں۔ آپ کے اسلام قبول کرنے میں دوقول ہیں۔ایک قول کے مطابق آپ مکۃ المکرمہ آئے اور یہاں سعید بن امیہ بن عاص کے ہاں حلیف ہوئے ۔یہاں آپ نے اسلامی تعلیمات کا مشاہدہ کیا اور اسلام کی حقانیت آشکار ہونے پر اسلام قبول کیا۔ دوسرے قول کے مطابق ’اشعریوں کی ایک جماعت جو کہ تقریباً پچاس افراد‘پر مشتمل تھی،کے ساتھ مکہ آئے اور اسلام قبول کیا۔آپ کے ایک چچا حضرت ابو عامر اشعری رضی اللہ عنہ کو بھی شرفِ صحابیت حاصل ہے ۔ رسول کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف اُس وفد کے ارکان بلکہ اس پوری قوم کو ’اشعریُون‘کے نام سے پکارا اور ان کی یہ صفت بیان کی کہ یہ لوگوں میں سب سے زیادہ نرم دل ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کے سامنے ان لوگوں کی اعلیٰ مثالیں بیان کرتے اور فرماتے :’’اشعریوں کا کسی جنگ میں توشہ ختم ہو جائے یا ان کا کھانا کم پڑجائے تو وہ اس چیز کو ایک کپڑے میں جمع کرتے ہیں جو ان کے پاس رہ گئی ہوتی ہے ۔ پھر اس کو برابر تقسیم کر لیتے ہیں‘جان لو کہ وہ،مجھ سے اور میں ان سے ہوں ‘‘ قبول ِاسلام کے بعدآپ نے دیگر صحابہ کرام کے ساتھ حضورنبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر حبشہ کی طرف ہجرت کی،لیکن اولین سیرت نگارابن اسحاق کے مطابق آپ نے حبشہ کی طرف ہجرت نہیں کی بلکہ آپ قبولِ اسلام کے بعد اپنے ملک یمن چلے گئے اورپھر کچھ عرصہ بعد سمندر کے راستے بذریعہ کشتی سفر کرکے واپس مدینہ طیبہ آئے اور خیبرکے مقام پر اللہ کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کی۔ آپ کا شمار صحابہ کرام کی اس جماعت میں ہوتا ہے جو عالم اور فقیہ تھی ‘آپ سے 360احادیث مروی ہیں اور آپ سے حدیث روایت کرنے والوں میں حضرت انس بن مالک،حضرت طارق بن شہاب،آپ کے چاربیٹے ابوبردہ،ابوبکر،ابراہیم،موسیٰ اور دیگر کثیر تابعین شامل ہیں۔آپ کی آواز بیحد سریلی اور لہجہ بہت پیارا تھا۔ ایک باررسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی آواز میں کلامِ پاک سنا تو ارشاد فرمایا: کہ اللہ رب العزت نے ان کو حضرت داود علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سی خوش الحانی سے نوازا ہے ۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اگرعلم ہوتا کہ آپ کو میرا قرآن پاک پڑھنا اچھا لگا ہے تو میں قرآنِ پاک کی تلاوت جاری رکھتا۔سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ آپ کو اکثر دیکھ کر کہا کرتے ’’اے ابو موسیٰ ہمیں ہمارے رب کی یاد دلاو‘‘،حضرت ابوموسیٰ قرآن کی تلاوت شروع کردیتے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کی تلاوت سنتے ہوئے دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجاتے ۔ آپ ذہانت وفطانت اور معاملہ فہم شخصیت کے حامل تھے ۔الجھے معاملات کو سلجھانے میں آپ کو ید ِطولیٰ حاصل تھا۔فتویٰ اور فیصلہ سازی کے وقت آپ کی عقل پر صحابہ کرام دنگ رہ جاتے ۔حتیٰ کہ اس وقت یہ مشہور ہوگیا تھا کہ اس امت میں فیصلہ ساز چار لوگ ہیں،’حضرت عمرؓ،حضرت علیؓ،حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓاور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اجمعین‘۔ قبول ِاسلام کے بعد حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اسلام کی تبلیغ واشاعت اور جہاد فی سبیل اللہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ رسول کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’اوطاس‘ کی مہم میں ایک لشکر کوآپ کے چچا حضرت ابوعامر اشعری رضی اللہ عنہ کی قیادت میں روانہ فرمایا،جس میں خود حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے ۔لشکر ِاسلام کے سپہ سالار ابو عامر اشعری رضی اللہ عنہ کو درید بن الصمہ کے بیٹے نے زہر آلود تیر ماراجو انتہائی مہلک ثابت ہوا۔ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اپنے چچا کا بدلہ لیا اور چچا کی شہادت کے بعد خودلشکر کی قیادت سنبھالی اور کامیابی حاصل کی۔جب یہ لشکر مہم سے واپس ہواتو رسول کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے لئے دعا کی ’’اے اللہ،عبداللہ بن قیس کی بخشش فرما اور قیامت کے دن اس کو عزت والی جگہ میں داخل فرما‘‘۔10 ھ میں آپ کو یمن کے ایک حصہ کا امیرمقرر کیا گیا۔ آپ نے چاروں خلفائے راشدین کا زمانہ پایا اور اسلامی سلطنت کے نمائندے اور والی کی حیثیت سے اپنی خدمات سرانجام دیں۔خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں یمن کے علاقوں کے امیر رہے اور وہاں کفار ومرتدین کا بڑی بہادری سے مقابلہ کیا۔خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں میدان سیاست میں آپ کا کام نکھر کر سامنے آیا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی جگہ بصرہ کا امیر مقرر کیا۔ ’اہواز،نہاوند اور اصفہان‘کے علاقے آپ کی جنگی مہارت کی بنا پر اسلامی سلطنت میں شامل ہوئے ۔خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وصیت کے مطابق آپ کو بصرہ کا والی برقرار رکھا۔ایک روایت کے مطابق آپ ’16 سال‘ تک بصرہ میں بطور امیر اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے ۔خلیفہ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی خلافت کے ابتدائی عرصہ میں بھی آپ بصرہ کے حاکم رہے اور پھر آپ نے امور سلطنت سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔44 ھ یا 45 ھ میں آپ مکہ یا کوفہ میں دار فانی سے دار بقا کی طرف رحلت فرما گئے ۔( صحیح مسلم ،فتح الباری ، الاستیعاب ، الاصابہ ، طبقات ابن سعد)