کسی صاحب ِدانش کا قول ہے کہ تقرب ِالٰہی کو پالینے کے مختلف ذرائع اپنی اپنی جگہ پر مستند و معتبر ہیں، لیکن تقربِ الٰہی کو پانے کا آسان ترین راستہ یہ ہے کہ انسان کسی ولی کے فیضانِ نظر سے مستفید ہوجائے، اس کی منازل آسان ہوجائیں گی۔ انسان کی شخصیت ان محبتوں میں پنہاں ہوتی ہے، جنہیں وہ اپنے نہاں خانہ ٔدل کے چمن زاروں میں جگہ دیے رکھتا ہے۔ یعنی انسانی شخصیت و کردار پر وہ محبتیں سب سے زیادہ اثرانداز ہوتی ہیں،جنہیںوہ خاص طور پراپنے دل میں جگہ دیتاہے۔جب کسی کی محبت ہمارے دل میں موجزن ہوتی ہے، تب ہماری شخصیت کا ڈھنگ، ہمارے کردار کا رنگ اور ہمارے قلب کی ساخت کا تعین ہوتا ہے۔ کسی ولی کی نگاہِ کرم کو پالینے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ خلوصِ دل سے ان سے محبت کرنا۔ اپنے شہر لاہور کو دیکھتا ہوں تو ہر سُو یوں محسوس ہوتا ہے، کہ جیسے یہ روشنیاں، یہ رنگ و رُوپ اور یہ آب و ہوا کی مستیاں کسی ولی ساز کی محبت ہی کا فیضان ہیں۔ ایک ایسے مرشد کا فیضان ۔۔۔۔جو دس صدیوں سے اس دھرتی کو منور کیے ہوئے ہے، اور آج بھی یہ شہر اسی مرشد ِ لاہور ہی کے وجود کی برکتوں سے ہنستا بستا دِکھتا ہے۔ ’’تاریخ‘‘، کبھی بادشاہوں کے تذکرے کا نام تھا، کبھی ان کے محلات کی رعنائیوں کی کہانیاں ،تو کبھی ان کے تعظیم و آرائش کا مرقع… پھر گردشِ لیل و نہار نے اپنا کرشمہ دکھایا اور قلم، محلات کی رُوداد سے ہٹ کر علم و فن کے شاہسواروں کے کمالات کو لفظوں کا رنگ دینے لگا۔ تاریخ نے پھر ایسے دَور کو رقم کیا، جب یہ شہر ، یہ کوچہ اور یہ بستی، ظلمت کدہ کی مثال تھا۔ یہاں جہالت کی تاریکیوں نے اپنے پنجے گاڑ رَکھے تھے اور لوگوں کے دلوں پر چھائی ہوئی تاریک رات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ پھر وہ وقت آیا جب دیکھنے والی نگاہوں نے اس اندھیری رات میں ایک آفتا ب صفت چہرے کی زیارت کی۔۔۔۔ اور دیکھنے والے شاہد رہے کہ وہ آئے اور ہر سُو روشنی بکھر گئی۔ صدیاں بیت گئیں لیکن،آج بھی عاشقوں کا ہجوم باغِ بو ترابؓ کے اس حسین پھول کو سلام پیش کر رہا ہے،جن کی خوشبو نے اس خطے کو اللہ اور اس کے رسو ل ﷺ کی محبت سے سیراب کردیا۔ سلام ہے، منبعِ علم و حکمت کے دبستان کو کہ جو شہر غزنی سے چلتے ہیں اور تمام کٹھن راہوں کے سامنے، اپنی فہم و فراست اور ٹھوس حقیقتوں کا چراغ ہاتھ میں لیے، قدامت اور جہالت کی تمام تاریکیوں کو روشنی سے بدل ڈالتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں، کہ پھر وہ چراغ اپنی کرنوں سے لوگوںکے دلوں کو یوں منور کرتا ہے کہ صدیوں بعد بھی ایک آشنائے حقیقت ِ دل یہی پکار اُٹھتا ہے کہ: سیّدِ ہجویرؒ مخدوم اُمم مرقدِ اُو پیرِ سنجرؒ را حرم نسبت بھی ایک عجیب چیز ہے۔ یوں تو مٹی کے ایک ذرّے کی بھی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی۔ اس کا کوئی مقام و مرتبہ نہیں ہوتا۔ البتہ اگر اس کی نسبت کسی اعلیٰ چیز سے جُڑجائے،یا کسی ممتاز بارگاہ سے ہوجائے تو وہ بھی نایاب، انمول اور بیش قیمت سمجھا جانے لگتا ہے۔ اسی طرح ایک عام انسان کا واسطہ کسی بلند پایہ ہستی سے ہوجائے،تو وہ عام انسان بھی خاص بن جاتا ہے،اور اگر خوش نصیبی انسان کا مقدر ہو اور اسے نسبت کسی صالح مرد کی میسر آجائے، تو پھر وہ خود بخود ایک خوبصورت نگینہ بن جاتا ہے۔ یہ نسبت ایک رابطہ قائم کرتی ہے اور اس رابطہ کی اصل طاقت بھی محبت ہی ہے۔ حضرت داتا گنج بخش کے ۹۷۸ویں عرس مبارک کے موقع پر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں منعقدہ، عالمی کانفرنس کے روز جب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے VCصاحب نے اپنے ادارے میں" ہجویری چیئر" کا اعلان کیا تومَیں نے ایک خاص نسبت اور ایک خاص واسطہ کو شدت سے محسوس کیا۔ میرے ادارے کا فخر حضرت ِ علامہ اقبالؒ ہیں۔ یہ نسبت ہم راوینز کو بہت معتبر ہے لیکن جو بات غور طلب ہے وہ یہ کہ یہی نسبت ہمیں حضور داتا صا حبؒ سے بھی جوڑتی ہے کیوں کہ" مکتب کی کرامت" کے ساتھ ساتھ، حضرت ِ علامہ کے مقام و مرتبہ میں بلاشبہ حضرت داتا صاحبؒ کے "فیضانِ نظر" کا بھی اثر تھا، کیوں کہ وہ تو خود یہ فرماتے ہیں کہ: خاکِ پنجام اَز دمِ اُو زندہ گشت صبحِ ما اَز مہرِ اُو تابندہ گشت گورنمنٹ کا لج یونیورسٹی کی راہداریوں سے گزروں یا اقبال ہاسٹل کے قریب سے، دل یہی سوال لیے پھرتا ہے کہ آخر وہ کیا بات تھی کہ جس نے اقبالؒ کو اپنے ہم مکتبوںمیں ممتاز کردیا؟۔۔۔۔ تو جواب یہی ملتا ہے کہ وہ ایک ایسی مقدس راہ کے مسافر تھے کہ جس کا نام ـ’’محبت ‘‘ ہے۔ محبت بالجبر نہیں کی جاتی۔۔۔۔ محبت ،بس ہو جاتی ہے!! بقول واصف علی واصف؛ محبت عطا ہے، نصیب ہے،بلکہ بڑے ہی نصیب کی بات ہے۔ ۔۔۔گویا کسی دلِ ویران میں سازِ محبت کا گونج اُٹھنا کسی عنایت اور کرم سے کم نہیں۔ بابے کہتے ہیں کہ اہلِ محبت کی مجالس بھی حصولِ محبت کا اہم ذریعہ ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے عطار کے پاس جانے والے کو عطر میسر نہ بھی آ سکے تو خوشبو تو ضرور نصیب ہوجاتی ہے۔ اہل محبت کی حدود میں نشست و برخاست، قلب کو محبت کی مہک سے ضرور شاداب کرتی ہے۔ سوچتا ہوں کہ جن کی تصنیف ’’کشف المحجوب‘‘ اتنے برسوں بعد بھی بھٹکے ہوئوں کے لیے مشعل راہ بنے ہوئے ہے، ان کی اپنی ذات اور شخصیت کی بلندی اور معرفت کا مقام کیا ہوگا؟اور اس سے بڑھ کر، جسے ان کی نظر کرم نصیب ہوجائے، اس شخص کی اڑان اور مرتبہ کا عالم کیا ہوتا ہوگا؟یقیناوہ اڑان بھرنے والا اپنی جھولی کو محبت اور عقیدت ہی کے سہارے آپؒ کے آگے پھیلاتا ہوگا۔ اگر شہد کی مٹھاس اس وجہ سے ہے کہ اس کی غذا گلوں کے رَس میں ہے، تو اشرف المخلوقات اگر اپنی آب و ہوا کو معتبر بنا لیں ، تونہ جانے اس کی ہر بات اور اس کا حرف حرف کس قدر میٹھا اورمحترم و معتبر ہوجائے۔