اللہ پاک نے خاتم النبیین مصطفی ٰکریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات با برکات کو ہر پہلو سے بے مثل و بے مثال بنایا ، نام عطا کیا تو بے مثل ، سراپا عطا کیا تو بے مثل ، سیرت عطا کی تو بے مثل ، علم عطا فرمایا تو بے مثل ، شہر عطا فرمایا تو بے مثل، کتاب عطا فرمائی تو بے مثل ، صحابہ کرام عطا فرمائے تو بے مثل ، آل عطا فرمائی توبے مثل ، امت عطا فرمائی تو بے مثل وبے مثال۔ خاتم النبیین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی آل کا مقام خود بیان فرمایا ، ارشاد نبوی ہے : ’’میں اور میرے اہل بیت اطہارعلیہم السلام جنت کا ایک درخت ہیں جس کی شاخیں پوری دنیا میں پھیل چکی ہیں۔جو با ر گاہِ رب العزت تک رسائی چاہتا ہے وہ ان شاخوں کو تھام کر مجھ تک پہنچ جائے میں اسے رب العزت تک پہنچا دوں گا ۔‘‘ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:’’میں تم میں دوبہت وزنی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جب تک ان کو تھامے رکھو گے گمراہی سے بچے رہو گے ،ایک قرآن پاک اور دوسری میری آل۔‘‘خاتم النبیین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آلِ پاک کو ہی یہ مقام و مرتبہ بھی میسر آیا کہ خاتم النبیین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’سیدناامام حسن اورسیدنا اما م حسین سلام اللہ علیہماجنتی جوانوں کے سردار ہیں ۔‘‘معلوم ہوا کہ صرف دنیا میں ہی نہیں بلکہ جنت میں بھی ان کا مقام و مرتبہ عظیم تر ہے ۔ سیدناامام حسین علیہ السلام کی ازواج میں سے ایک زوجہ محترمہ کا اسم گرامی رباب بنت ِ اِمرئو القیس تھا یہ بنو کلب کے قبیلے سے تعلق رکھتی تھی۔ سیدنا امام عالی مقام علیہ السلام کا بہت احترام اور امام پاک سے محبت و عقیدت فرماتی تھیں۔ سیدنا امام حسین علیہ السلام کے اشعار و قصائد پہ مبنی ایک دیوان بھی مکتبہ عصریہ سے شائع ہو چکا ، جس میں چند اشعار حضرت رباب کی مدح میں بھی ہیں ۔ حضرت رباب رضی اللہ عنھا سے امام پاک کی جو صاحبزادیاں تولدہوئیں ان میں سے ایک صاحبہ علم و عمل ،نا قدہ شعرو ادب ، مفسر ہ قرآن ،محد ثہ حدیث حضرت سیدہ سکینہ سلام اللہ علیہا ہے ۔حضرت امام عالی مقام کی ازواج میں شہربانو، حضرت رباب بنت امرئو القیس، حضرت لیلیٰ ۔حضرت ام اسحاق اور حضرت سلا فہ یا ملومہ کے نام آتے ہیں ان میں سے جو آپ کی اولاد ہوئی اس میں اھل علم کاا ختلاف ہے کہ کل کتنی اولاد ہے ؟اکثر مورخین کے مطابق آپ کے 4بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ اربلی نے کشف الغمہ میں لکھا ہے کہ 6بیٹے اور 4 بیٹیاں ہیں ، آپ کی اولاد میں حضرت علی بن الحسین الاکبر المعروف امام زین العابدین سجاد ہیں جو حضرت شہربانو سے ہیں سب سے بڑے بیٹے علی اکبر جو میدان ِ کربلا میں شہید ہوئے ، آپ کی والدہ حضرت لیلیٰ ہیں ۔ تیسرے بیٹے حضرت عبدللہ بن الحسین ہیں جن کو علی اصغر کہا جاتاہے ، آپ حضرت رباب کی اولاد میں سے ہیں حضرت سیدہ سکینہ کے بھائی ہیں ۔ایک بیٹے حضرت جعفر بن الحسین ہیں اسی طرح ملا باقر مجلسی کے بقول ایک بیٹے کا نام حضرت عمر بھی ہے ۔ آپ کی صاحبزادیوں میں سے ایک کا نام سیدہ سکینہ ہے ،ایک کا نام فاطمہ ہے جن کی والدہ ام اسحاق ہیں ۔ایک صاحبزادی کا نام زینب بنت امام حسین اور ایک کا نام حضرت رقیہ بنت حسین بیان کیا جاتاہے ۔حضرت سیدہ سکینہ سلام اللہ علیہا خاندان بنی ھاشم کی عظیم ترین خواتین میں سے تھیں ،اللہ پاک نے آپ کو ،علم و حکمت ،ادب و فضل ، شعر و سخن ، حاضر جوابی اور برجستہ گوئی سے خوب خوب نوازا تھا ۔ آپ کا نام آپ کی والدہ محترمہ کی طرف سے رکھا گیا تھا ،لسان العرب ابن منظور افریقی لکھتے ہیں کہ السکینہ کا مطلب الوداعۃ والوقار ہے ،آپ کے خاندان اور قبیلہ کے لوگ آپ کے وجود سے سکون و راحت حاصل کرتے تھے اور آپ سارے گھر کے لئے امن سکون کا باعث تھیں ،اس لئے آپ کو سکینہ کہا گیا۔حضرت سکینہ کا اصل نام آمنہ ہے سکینہ آپ کا لقب ہے ۔امام ذھبی تاریخ اسلام میں لکھتے ہیں ’’قال الزبیر بن بکار اسمھا امینہ ،زبیر بن بکار فرماتے ہیں آپ کا نام امینہ ہے ۔ آپ کی تربیت بیت نبوت میں ہوئی تھی، جب کربلا معلیٰ میں امام عالی مقام تشریف لائے تو حضرت سکینہ اپنی والدہ محترمہ حضرت رباب اور اپنے چھوٹے بھائی حضرت علی اصغر کے ساتھ تشریف لائی تھیں ۔ ایک قول کے مطابق اس وقت آپ کی عمر 14سال تھیں آپ کے بھائی حضرت علی اصغر کی شہادت ہوئی تو آپ نے صبر کے دامن کو ترک نہ کیا اپنے والد گرامی حضرت امام حسین پاک کو میدان کربلا میں صبر استقامت سے بھیجا ،حضرت امام پاک کے چند اشعار آپ سے متعلق بھی ملتے ہیں ۔ حضرت سیدہ سکینہ رضی اللہ عنھا وہ عظیم ہستی ہیں جن کے بارے میں مور خین لکھتے ہیں۔(خلاصہ پیش خدمت ہے ) آپ اپنے دور کی عورتوں کی سردار تھیں اور اخلاق میں سب سے اعلیٰ تھیں اور زہد و تقویٰ و عبادت میں بہت اعلیٰ مقام پہ تھیں ۔خوارج کے پیدا کردہ سوالات کے جوابات آپ دیا کرتی تھیں ،حضرت امام حسین پاک نے آپ کی سیرت بیان کرتے ہوئے فرمایا ،حضرت سکینہ وہ ہستی ہیں جو ہمہ وقت اللہ پاک کی محبت و عبادت میں مستغرق رہتی ہیں ۔آپ کی شادی اپنے تایا زاد حضرت سید نا عبدللہ بن حسن رضی اللہ عنہ سے ہوئی ۔ حضرت عبدللہ بن حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے وصال ِ با کمال کے بعد آپ کا نکاح حضرت مصعب بن زبیر سے ہوا ۔ الاعلام للزرکلی جلد نمبر 3صفحہ 106 پہ ہے ۔حضرت سکینہ بنت الحسین عظیم قائدانہ صلاحیتوں کی مالک ،شاعرہ اور سخی بی بی تھیں آپ اخلاق حسنہ پاکیزہ ترین مرتبہ کی حامل تھیں ۔قریش کے اجلہ اکابرین آپ کے علم و حکمت سے بہرہ مند ہوتے تھے بسا اوقات آپ بڑے بڑے شعرأ کے کلام پہ فیصلہ بھی فرماتیں ۔آپ کی چوکھٹ پہ عربی زبان و ادب کے ستون شعرأجریر،فرزدق ،جمیل اور کثیر آئے تو آپ نے اُن کو ایک ایک ہزار درھم عطا کرنے کا حکم عطافرمایا۔آپ مدینہ طیبہ میں ہی مقیم رہیں اور آپ کا وصال باکمال مدینہ پاک میں ہی ہوا ۔آپ کا وصال 117ھجری ربیع الاول میں ہوا ۔(بحوالہ کتاب الثقات ابن حبان؍3524، سیراعلام النبلأ5؍263، امام ذھبی)بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ کی قبر مبارک دمشق میں ہے اور جیل خانے میں آپ کی شہادت ہوئی لیکن امام ابن عساکر اپنی شہرہ آفاق کتاب تاریخ دمشق میں لکھتے ہیں کہ ’’والصحیح انھا ما تت مالمدینۃ ‘‘(تاریخ دمشق2/ 421)۔اسی طرح کچھ مورخین آپ کی ذات کی طرف کچھ ایسی چیزیں منسوب کرتے ہیں جن کا حقیقت سے کچھ تعلق نہیں ۔ آپ سے احادیث مبارکہ بھی روایت کی گئی ہیں ایک حدیث پاک آپ سے یہ بھی مروی ہے ،حدثت سکینۃ بنت الحسین بن علی عن أبیھا قال قال رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم حملۃ القرآن عرفأ اھل الجنۃ ۔(تاریخ مدینہ دمشق رقم20569)حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا اپنے والد گرامی حضرت امام حسین پاک علیہ السلام سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا قرآن پاک کے حفاظ جنت کے عظیم عارف ہوں گے ۔اللہ پاک آپ کے توسل سے تمام خواتین اسلام کو اسلام سے ہر حال میں وفا کرنے کی سعادت وتوفیق عطا فرمائے ۔