کالم میں تعطل کا دورانیہ ذرا طویل ہوگیا،جس کا ایک سبب تو یہ ہوا کہ ماہِ رمضان المبارک میں’’نورِ قرآن‘‘کی یومیہ ٹرانسمیشن کی ذمہ داری تفویض ہوئی،قرآنی افکار کی ترویج اور تدریس کے سبب اس کا مزاج اور معیار،معمول کی سحر اور افطار نشریات سے کُلیۃً مختلف تھا،اس معیار کو مہینہ بھر قائم رکھنے کے لیے نورِ قرآن کی پوری ٹیم سرگرم رہی،جس کی کامیابی کا کریڈٹ بہر حال اُن کے سَرہے۔دریں اثنا26 رمضان المبارک کو’’نورِ قرآن‘‘کا اپنا آخری پروگرام، بادشاہی مسجد میں’’ قومی محفلِ شبینہ‘‘ کے آغازوافتتاح اور داتاؒ دربار میں’’ ختم ِ قرآن‘‘کی پُرنور ساعتوں سے مستفیض و مستفید ہونے کے ساتھ ہی،بوقتِ سحر حرمین شریفین کی حاضری کے لیے، پی کے9874 کی پرواز دستیاب ہوئی،جدہ کے ملک عبد العزیزانٹر نیشنل ایئر پورٹ سے بلا توقف روانگی کی بدولت،جمعتہ الوداع کی بابرکت ساعتیں مکہ مکرمہ اوراُسی رات یعنی انتیسویں شب کی اختتامی دُعا اور قیامُ الّلیل مدینہ منورہ میں نصیب ہوا،زہے نصیب،وہ شہرِخوباں اور قریۂ باصفا۔۔۔جس نے اپنی پلکوں سے قدومِ رسول ؐکو چوما اور اپنی آنکھوں کو اُن کے حُسن کے جلووں سے آراستہ کیا،جہاں اہلِ ایمان آج بھی حضورؐکی خوشبو کو محسوس کرکے،مشام ِجاں کو معطر اور معنبر کرتے اور سامانِ راحت بناتے ہیں۔تہذیبِ انسانی کی اوّلین جلوہ گاہ،اور اعلیٰ ترین اسلامی معاشرے کی تجربہ گاہ ۔۔۔جس کی ضَونے پورے عالم ِ انسانیت کو متاثر کیا ور آفاقیت اور عالمگیریت کے نئے دَر وَا کیے۔مدینہ منورہ بلاشبہ مِلّت اسلامیہ کا دل ہے،جس کے ساتھ ساری کائنات میں بسنے والے ہر کلمہ گوکا دل ہمیشہ دھڑکتا ہے اور دھٹرکتا رہے گا،اس لیے کہ یہی ایمان کی پہچان اور شناخت ہے۔بقولِ اقبالؒ : خاکِ طیبہ از دو عالم خوشتر است وے خنک شہرے کہ آنجا دلبر است کہ’’مدینہ منورہ کی ہوا وفضا اور خاک دونوں جہانوں سے پیاری ہے،کیسا راحت عطا کرنے والا شہر ہے ، جہاں محبوب ِخدا آرام فرما ہیں ۔‘‘ اقبالؒ نے جو بات سو سال پہلے کہی،ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو جنوری 2021ء میں اس کا ادراک اس وقت ہو ا،جب ساری دنیا کوویڈ کے موذی اثرات کی زَد میں تھی،اورہر طرف ایک سُکوتِ مرگ کا سماں تھا،تو انہوں نے اپنی ایک رپورٹ کے ذریعے اس امر کا اعتراف کیا کہ شہرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بحران میں بھی دنیا کا صحت مند ترین شہر اور محفوظ ترین مقام ہے ۔ بہر حال ۔۔۔ بقول ِ حافظ افضل فقیر: وہی ساعتیں تھیں عروج کی وہی دن تھے حاصلِ زندگی بحضورِ شافعِ اُمَّتاں میری جن دنوں طلبی رہی تیسویں روزے کی افطاری گنبدِ خضرأ کے سائے میں مدینہ فائونڈیشن کے زیر اہتما م، بقیع شریف سے لے کر بابُ المکہ، باب بلال اور بابُ السّلام تک پھیلے ہوئے’’سُفروں ‘‘پر میسر آئی، جہاں محترم میاں محمد حنیف اور میاں محمد رشید اپنے اَبنان و اَحفاد سمیت ان کی صرف نگرانی ہی نہیں کر رہے تھے بلکہ از خود، اپنے ہاتھوں سے رسول اللہؐ کے درِ اقدس کے مہمانوں کے لیے افطار کے لیے ان سُفروں پر اشیائِ خوردونوش آراستہ کرنے میں مصروف و مستعد اور منہمک تھے۔میرے قارئین!اب یقینا یہ جاننے کے خواہاں ہو ں گے کہ’’سُفْرہ‘‘کیا ہے ؟ یہ عربی زبان کا لفظ ہے ، جس کا معنی زادِ راہ، کھانے کی میز اور بالخصوص وہ ’’ دسترخوان‘‘ہے، جو مسافر وں کے لیے آراستہ کیا گیا ہو ،یعنی ’’طعامُ المسافرین‘‘،جبکہ معمول کے عام دسترخوان کو’’مائدہ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ حرمین میں تقریبا 98% زائرین مسافر ہوتے ہیں ، اس لیے اس دسترخوان کو’’سُفْرہ‘‘ کہا جاتا ہے ۔حرم نبوی اور حرم ِ کعبہ میں ماہِ رمضان المبارک میں یہ پلاسٹک کے لمبے دستر خوان، جو کافی حد تک سعودی گورنمنٹ کے طے شدہ معیار اور مقررہ شرائط کے مطابق دنیا کے مختلف ادارے، قبیلے اور افراد بر س ہا برس سے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر کے ان مہمانوں کے لیے لگانے کا اعزاز پاتے ہیں۔حرم نبوی میں اس سال یکم رمضان المبارک کو افطار کرنے والوں کی یہ تعداد ساڑھے چار لاکھ تھی ، اور پھر جیسے جیسے وقت گزرتا رہا ، اس میں روز افزوں اضافہ ہوتا گیا، اور شہر ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ رونقیں آخری عشرے میں نقطۂ عروج اور اوج ِ کمال پر تھیں، جہاں انواع و اقسام کے طعام نظر آئے، لاہور کی کشمیری چائے، اعلیٰ قسم کے پائے ، گوجرا نوالہ کے لذیز پکوان ، جن کے لیے منتظمین و مہتمم صاحبان اپنے ساتھ ماہر باورچی لے کر مدینۃ الرسول ؐ، اس خدمت کی بجا آوری کے لیے پہنچے ہوئے تھے۔مسجد نبوی کی حدود میں افطارکے لیے ایک مخصوص’’مینیو‘‘ہوتاہے،جس میں اعلیٰ قسم کی مختلف النوع کھجور،ہر دستر خوان پر بکثرت دستیاب ہوتی ہے ۔ اس کے ساتھ" زبادی"یعنی دہی جسے عربی روب بھی کہتے ہیں، جس کا وزن تقریبا250 گرام اور اس کے ساتھ ایک خاص قسم کی بریڈ ہوتی ہے ، دہی میں ڈالنے کے لیے ایک خاص عربی مصالحہ جسے "دُقّہ"کہا جاتا ہے ،وہ ، بڑی پیکنگ کے ساتھ "ساشے" میں بھی موجود ہوتا ہے ، جبکہ زمزم کی بکثرت اور بسہولت دستیابی ہمہ وقت رہتی ہے ، اذانِ مغرب اور نماز کے درمیان تقریبا ً پانچ سے سات منٹ کے دورانیے میں نہایت پُرامن اور اطمینان بخش ماحول میں تقریباً پانچ ،سات لاکھ روز دار، ان سارے مراحل سے اس طرح استفادہ کر لیتے ہیں کہ کسی سرگوشی کی آواز بھی بلند نہیں ہوتی ۔ یہی پلاسٹک کے دسترخوان جس سلیقے اور قرینے سے بِچھے ،اسی احتیاط اور اَدب سے سمٹ گئے، اور مغرب کی نماز کے لیے اقامت کی آواز بلند ہوئی اور یوں۔۔۔ قبلہ رُو ہوکے، زمین بوس ہوئی قومِ حجاز اَ دب ، محبت ،نیاز اور تواضع کے قرینے اور سلیقے ، کوئی میاں صاحب سے سیکھے ، جنہوں نے عشاء کے بعد، بارگاہ ِ اہل ِ بقیع کے حضور ہدیۂ محبت و عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ، اُحد کے دامن میں سیّد الشہدأ حضرت امیر حمزہ کی بارگاہ میں حاضری کے لیے اپنی ہمرکابی اور معیت کو فراواں کیا اورپھر اُحد شریف کی ہمسائیگی ہی میں، اپنے آستاں پر لے جا کر لنگر انداز کردیا،جہاں پاکستانی’’ پائے ‘‘کے ساتھ عرب کا معروف کھانا"مندی"بھی ٹیبل کی زینت تھا، سیّد امان انور قدوائی کا سرخ و سپید"حلق" دیکھ کر مسرت ہوئی ۔ کسی دور میں ہمارے جواں سال حاجی" ٹنڈ" سے اِ عراض برتتے ، لیکن بتدریج یہ ذوق فروغ پذیر ہونے کے سبب"حلق" کا رجحان مضبوط ہوتا جارہا ہے اور کیوں نہ ہو ، میرے آقاصلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے تین مرتبہ "حلق" اور چوتھی مرتبہ" قصر" یعنی بال ترشوانے کی بابت فرمایا ۔محترم محمد اسلم ترین صاحب کے ساتھ چوہدری جاوید انور، جو پنجاب ریونیو اتھارٹی میں کسی اِ ہم ذمہ داری پر متمکن ہیں، بھی اس نشست میں موجودپائے گئے ، جاوید صاحب کے خدوخال اَسّی کی دھائی کے نیوکیمپس اور پھر ہاسٹل نمبر14 کی طرف کھینچتے رہے ، تاہم اس ماحول کی برکت سے ان کا "ہیولا" بھی کچھ نور آفریں ہوگیا ۔