سانحات کی تلخی، کڑواہٹ، سختی اور درشتگی سے کوئی انکارنہیںلیکن قاتل کومعلوم نہیں ہوتاکہ جسے وہ بے تقصیرقتل کرتاہے تواس کا لہوایساپکاراٹھتاہے کہ قاتل چھپ نہیں سکتا ۔اگرکسی کواس میں شک وریب ہے تووہ افضل گوروکے قتل اورپھراس کے لہوکی پکارسننے کے لئے سری نگرکے لال چوک میں کھڑاہوجائے۔اسے پتاچلے گاکہ گورو کی پھانسی کشمیر کازکے لئے عہد نو کا دیباچہ ثابت ہوئی اورانکے جوڈیشل قتل سے کشمیرمیںتازہ دم ولولہ اورفکروسخن کا سامان فراہم ہوا۔ شہدائے کشمیر نے بھارتی استعمار سے آزادی کا خواب دیکھا اور اسی خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے میدان عمل کا راستہ اختیار کیا اور بالآخر اسی راہ میں اپنی جان کی بازی لگاکر ابدی حیات کا مقام حاصل کرلیا۔انہوںنے جدوجہد جاری رکھنے کا حوصلہ دیااو راہ آزادی میںدرپیش مصائب وآلام اورقدم قدم پرمشکلات کاخندہ پیشانی کے ساتھ مقابلہ کرنے کا ہنر سکھایا۔ 2001ء میںبھارتی پارلیمان پرمیں ہونے والے مسلح حملے میں ملوث قراردیتے ہوئے کشمیر کے ایک تعلیم یافتہ نوجوان افضل گورو کو 9 فروری 2013 ء کی صبح دلی کی تہاڑ جیل میں خفیہ طور پر پھانسی دی گئی۔افضل گورو کی پانچویں برسی پر 9فروری جمعہ کو مقبوضہ کشمیر میں عام ہڑتال کی گئی جبکہ مظاہروں کو روکنے کے لیے عوام الناس گھروںمیں قیدکیاگیا اور بیشتر علاقوں کی سخت ترین فوجی ناکہ بندی کی گئی۔ جس جوڈیشل آڈرپر افضل گورو کو پھانسی دی گئی اس نے بھارت کے ہیبت ناک چہرے سے جمہوریت کانقاب الٹ دیا۔افضل گورو کو قانونی پیروی کا موقع نہیں دیا گیااور انھیں بھارتی پارلیمان حملے کی سازش کا محض حصہ جتلا کر ’’قومی ضمیر ‘‘کے اطمینان کی خاطر پھانسی کا مستحق قرار دیا گیا۔ اس معاملے میں جلد بازی کا عالم یہ تھا کہ پھانسی کے مستحق افراد کی فہرست میں افضل گورو کا نمبر 19 واں تھا لیکن بھارت میں انتخابات سے عین قریب افضل گورو کی اہل خانہ سے ملاقات کروائے بغیر ہی انھیں پھانسی دے دی گئی۔اگرچہ طویل ترین دورسے جاری تحریک آزادی کشمیرکے گذشتہ28 سالہ فیزمیںکشمیریوں کی بھارتی سفاک فوج کی بربریت سے لگاتارشہادتوں اور اندوہناکیوں کا ایک طویل سلسلہ جاری ہے تاہم افضل گوروکی پھانسی نے،اس امرکومترشح بنادیاکہ کشمیریوں کے لئے بھارتی عدالتیں بھی اپنے ہاتھوں میں خنجراٹھائے بیٹھی ہیں۔ایک پڑھے لکھے کشمیری نوجوان کی پھانسی کاآرڈرجاری کرتے ہوئے بھارتی جوڈیشری نے بھارت کے قومی ضمیرکواطمینان دلانے کی جوبات کی اسے بھارت کی پوری آبادی کو شرم آنی چاہیے۔ افضل گورو کورات کے گپ اندھیرے میں پھانسی دی گئی اورپھرتہاڑ جیل کے کسی ویرانے، کونے، کھدرے میں دفن کردیاگیا۔واضح رہے مقبوضہ کشمیر کے سماجی حلقوں میں گزشتہ کئی سال سے افضل گورو کی میت واپس لانے کی کوششیں کی جاری ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم مختلف گروپوں کے اتحاد کولیشن آف سول سوسائٹیز نے جموں کشمیر کے 850 شہریوں کی جانب سے دستخط شدہ درخواست حکومت ہند کو پیش کی تھی۔اس درخواست میں افضل گورو کی باقیات کشمیریوں کے سپرد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔پوراکشمیرانکی باقیات کی واپسی کے لیے عالمی اداروں سے فریادکناں ہے ۔آج تک باقیات کی واپسی ممکن نہ ہوسکی۔۔ لاش تو دور،انکے لواحقین کو ان کی تحریریںجو’’ان کے خیالات و افکار کی بالیدگی کے گواہ ہیں اور کشمیریوں کواپنی جدوجہد جاری رکھنے کے لئے نسخہ کیمیاہے ‘‘ ان کا چشمہ اور ان کے کپڑے تک نہیں دیے گئے۔ سری نگرمیں'متحدہ مجلس مشاورت'کے قیام کا اعلان عمل میںجس کے ذریعے سے افضل گورو کی باقیات واپس لانے کے لیے عالمی سطح پرخطوط بھیجے گئے جن میں بھارت کی جمہوریت پرمرثیے لکھے گئے۔تاہم ان کاوشوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور حکومت ہند نے باقیات واپس کرنے کے معاملے پر سرد مہری کا مظاہرہ کیا۔ کشمیریوں کی جان کی وقعت کیاہے اس ڈرامہ بازی سے پتاچلتاہے کہ جب 2013ء میں اس وقت کی بھارتی حزب اختلاف بی جے پی نے یہ ڈھنڈوراپیٹناشروع کیاکہ برسراقتدار کانگریس کی حکومت ووٹ بینک کی سیاست کی وجہ سے افضل کو پھانسی دینے میں دانستہ طور پر تاخیر کرتی ہے ،بی جے پی بالواسطہ طور پر یہ بتانے کی کوشش کر رہی تھی کہ افضل گوروکے مسلمان ہونے کے ناطے بھارتی مسلمانوں کو ہمدردی ہے اور کانگریس اس لیے انہیں پھانسی نہیں دے رہی کیونکہ اس سے خدشہ تھا کہ مسلمان ناراض ہو جا ئیں گے ۔بھارت میں اس وقت کی حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت افضل گوروکا نام لیکریاافضل کی آڑمیں مسلمانوں کے بارے میں انتہائی قابل اعتراض بیان دوہراتی رہی لیکن کسی بھی مرحلے پر بی جے پی کو کسی نے اس کے بیان کے لیے چیلنج نہیں کیا ۔لیکن جب وقت آیاتوگانگریس حسب سابق بی جے پی ہی ثابت ہوئی کہ اچانک محمد افضل گوروکو پھانسی دیے جانے سے ایک اہم موضوع بی جے پی کے ہاتھ سے نکل گیا ہے ساتھ ہی ہندو دہشت گردی کے حوالے سے اس نے شنڈے اور کانگریس کی مخلوط حکومت کے خلاف جو جارحانہ مہم چلا رکھی تھی وہ بھی کند ہو گئی ہے۔اسے یہ امربھی الم نشرح ہواکہ کشمیریوں کوموت کے گھاٹ اتارنے ،پھانسیاں دینے میں بھارت کی دونوں بڑی پارٹیاں’’کانگریس اوربی جے پی‘‘ایک ہی موقف پرقائم ہیں۔9فروری 2013ء ہفتے کی صبح بھارت کے اس وقت کے گانگریسی وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے نے بھارت کے سرکاری چینل ’’ڈی ڈی نیوز‘‘پرنمودارہوکراچانک اطلاع دی کہ افضل گورو کو آج صبح دلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی ۔افضل گو روکو پھانسی اتنی رازداری کے ساتھ دی گئی کہ ان کی اہلیہ اور انکے اہل خانہ میں سے کو بھی اس کی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔افضل کی آخری ملاقات اپنے اہل خانہ سے کرائی گئی نہ لاش ورثا ء کے سپرد کی گئی حتیٰ کہ دفن کرنے سے پہلے انہیں مطلع بھی نہ کیاگیا، انہیںاپنے لخت جگراوراپنے عزیزکاجسدخاکی دیکھنا بھی نصیب نہ ہوسکا۔پھانسی دیئے جانے کے بعداسکی لاش کواس طرح رازداری اورچپکے سے تہاڑ جیل میں دفن کر دیا گیاجسے ازخود معلوم ہورہا تھا کہ اپنے جرم کوچھپایاجارہاہے۔ (جاری)