وزیر خزانہ اسد عمر نے قومی اسمبلی میں سپلیمنٹری بجٹ پیش کر دیا ہے۔ انہوں نے بجٹ تقریر میں جو اعداد و شمار پیش کئے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ملکی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ 18سے 21ارب ڈالر ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ سٹیٹ بنک کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں‘ اس صورت حال میں بہتری کے لیے برآمداتی شعبہ کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونا پڑے گا۔ ٹن پیک درآمدی اشیائے خورو نوش پر ڈیوٹی کی شرح بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے ‘اس کے علاوہ 300پرتعیش اشیا پر ڈیوٹی لگائی جا رہی ہے۔ وزیر خزانہ نے ڈیموں کی تعمیر کے لیے سالانہ بجٹ میں مختص رقم میں مزید اضافے کا عندیہ دیا ہے۔ ملک کی مالی حالت کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے بتایا کہ معاملات کو سنجیدہ انداز میں طے نہ کیا گیا تو بجٹ خسارہ 27سو ارب روپے تک جا سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گردشی قرضوں کا حجم 1200ارب روپے ہو گیا ہے۔ سپلیمنٹری بجٹ میں 1800سی سی سے اوپر گاڑیوں پر 20فیصد ڈیوٹی عائد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ برآمد کنندگان کی حوصلہ افزائی کے لیے حکومت کی طرف سے 5ارب روپے کی رعائتیں دی جا رہی ہیں۔ حالیہ برس اپریل میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے آئندہ بجٹ کی تیاری کا کام نئی حکومت پر چھوڑنے کی بجائے 56کھرب 61ارب روپے کا بجٹ پیش کیا تھا۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اپنی حکومت کے آخری بجٹ میں جو امور اجاگر کئے ان میں صنعتی شعبے میں 5.8فیصد اضافہ‘ معیشت کا حجم 34ہزار ارب روپے سے زیادہ ہونا‘ افراط زر کی شرح کا 3.8فیصد رہنا اور پانچ برسوں کے دوران ٹیکس وصولیوں میں ریکارڈ اضافہ بتایا گیا۔ جناب مفتاح اسماعیل نے بتایا تھا کہ ن لیگی دور حکومت میں کاروبار اور صنعت میں ترقی آئی‘ روزگار کے مواقع پیدا ہوئے اور آخری 9ماہ کے دوران برآمدات میں 13فیصد اضافہ ہوا۔ سالانہ بجٹ میں 12لاکھ روپے سالانہ آمدن والے افراد کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ بجٹ میں سرکاری ترقیاتی پروگرام کے لیے 800ارب روپے مختص کئے گئے تھے۔ مفتاح اسماعیل نے تحریک انصاف کی حکومت کے پیش کردہ سپلیمنٹری بجٹ کو مایوس کن قرار دیا ہے اور اعتراض اٹھایا ہے کہ بیرون ملک موجود 200ارب ڈالر واپس لانے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا جبکہ 90ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے جن کا ذکر وزیر خزانہ اسد عمر کی تقریر میں نہیں کیا گیا۔ سپلیمنٹری بجٹ دراصل پاکستان میں اہم نوعیت کے مالیاتی و معاشی اقدامات کی فوری ضرورت کو پورا کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔2018ء کا سالانہ بجٹ پیش کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ نے اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ انتخابات کی وجہ سے نئی حکومت کی تشکیل میں تین سے چار ماہ کا وقت صرف ہو سکتا ہے اس لیے وہ بجٹ پیش کر رہے ہیں تاہم نئی حکومت اس میں ردوبدل کی مختار ہو گی۔ یہ ایک عمومی روائت ہے کہ سیاسی جماعتیں عام آدمی کے ووٹ سے حکومت میں آتی ہیں مگر حکومت بنتے ہی فیصلہ سازی کا اختیار خاص اور مراعات یافتہ طبقات کے ہاتھ میں آ جاتا ہے۔ ہر پالیسی کی تشکیل میں یہ بالائی طبقات اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ بجٹ سے قبل عوام دو چار نوعیت کی توقعات ضرور حکومت سے وابستہ کر لیتے ہیں۔سب سے پہلے تنخواہ دار اور پنشن یافتہ افراد توقع کرتے ہیں کہ مہنگائی میں اضافے کی شرح کو پیش نظر رکھ کر حکومت ان کے لیے معقول شرح سے اضافہ کرے گی۔ دوسری توقع بجلی‘ گیس اور تیل کی قیمتوں میں کمی کی بابت ہوتی ہے۔ تیسری توقع آٹا‘ گھی‘ چینی ‘چاول‘ دالوں اور نمک مرچ جیسی کچن آئٹمز کی قیمتوں میں کمی سے متعلق ہوتی ہے۔ بجٹ کے بعد عوامی ردعمل مایوس کن ہوتا ہے۔ غریب آدمی کے استعمال کی ہر چیز اور سہولت مہنگی کر دی جاتی ہے۔ گاڑیاں‘ کاسمیٹکس‘ درآمدی اشیائے تعیش پر رعائتیں دی جاتی ہیں۔ بڑی بڑی صنعتوں کو مراعات کا حق دار ٹھہرایا جاتا ہے جبکہ کاٹیج انڈسٹری اور چھوٹے کاروبار کے لیے ماحول کو سازگار بنانے پر توجہ نہیں دی جاتی۔ گزشتہ حکومت نے اپنے دو آخری بجٹوں میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے متعلق ایسے فیصلے کئے جس سے یہ شعبہ بحران کا شکار ہو گیا۔ سابق حکومت چاہتی تھی کہ زمین کی خریدوفروخت میں لگا روپیہ پیداواری صنعتوں اور بنکنگ مصنوعات کی طرف جائے تاکہ لوگوں کو روزگار ملے اور پاکستان میں دوسرے کاروبار بھی ترقی کریں۔ لیکن چھوٹے سے چھوٹے رہائشی و کمرشل یونٹ کے سودے پر بھاری ٹیکس عائد کرنا غلط طریقہ تھا۔ سابق حکومت نے نان فائلر کے لیے یہ شرط رکھ دی کہ وہ پراپرٹی نہیں خرید سکے گا۔ اس شرط کا نقصان یہ ہوا کہ بہت سے لوگ اپنا سرمایہ ملک سے باہر لے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا اعلان کیا گیا تو اس کا نتیجہ حسب توقع نہ نکل سکا۔ سرمایہ کار ہی نہیں بچت کار بھی ملک میں سرمایہ کاری پر آمادہ نہ ہو سکے ۔حکومت کے پاس ایسا کوئی منصوبہ اور پروگرام نہیں تھا جو سرمایہ کاروں کی توجہ حاصل کر پاتا۔ جہاں تک ٹیکس وصولیوں میں اضافہ کی بات ہے تو سابق حکومت اگر ٹیکس نیٹ کو پھیلاتی‘ نئے ٹیکس گزاروں کا اندراج ہوتا اور لوگوں میں ٹیکس دینے کا عمومی رجحان تقویت پکڑتا تو اسے سابق حکومت کی کامیابی کہا جا سکتا تھا لیکن پہلے سے موجود ٹیکس دہندگان پر دبائو ڈال کر ٹیکس وصولی میں بڑھوتری ایک جابرانہ عمل بن کر سامنے آئی۔ نان فائلر کو جب آپ پراپرٹی خریدنے اور گاڑی کا سودا کرنے کا موقع دیں گے تو حکومت کے پاس نیا ڈیٹا آنا شروع ہو جائے گا۔ اس نئے ڈیٹا کی مدد سے لاکھوں نئے ٹیکس گزار مل سکتے ہیں۔ اس لیے جناب اسد عمر کی اس تجویز پر عملدرآمد کئی طرح کے فوائد کا ذریعہ ثابت ہو گا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے پنشنرز کے لیے 10فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے۔ اگرچہ مہنگائی کی شرح کو دیکھتے ہوئے اس اضافے کو ناکافی کہا جا سکتا ہے تاہم جب تک ریاست کی ضروریات کے لیے ٹیکس کی مطلوبہ رقم اکٹھی نہیں ہوتی شہریوں کو ایثار سے کام لینا ہو گا۔ سپلیمنٹری بجٹ میں ایک قابل ذکر فیصلہ پٹرول پر ڈویلپمنٹ لیوی واپس لینا ہے۔ یہ ٹیکس پٹرولیم مصنوعات کی ریفائنری اور دیگر منصوبوں کے لیے رقم جمع کرنے کا ذریعہ تھا۔ پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی ٹیکس 1961ء سے وصول کیا جا رہا ہے لیکن اس دوران ملک میں جمع ہونے والے کھربوں روپے کے اس ٹیکس سے پٹرولیم کے شعبہ کی ترقی کے لیے خاطر خواہ منصوبے شروع نہ کئے جا سکے۔ اب حکومت اگر اسے ختم کر کے صارفین کو ریلیف پہنچانا چاہتی ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے ایک بار پھر روپے کی قدر میں کمی کرنا پڑے۔ اس کا اشارہ وزیر خزانہ اسد عمر اپنی بجٹ تقریر میں دے چکے ہیں۔ ایسی صورت میں تیل کی قیمت جمع منفی کے بعد لگ بھگ موجودہ سطح پر رہنے کا امکان ہے۔