یہ یکم اگست 2019کی بات ہے اسلام آباد کا موسم ہی حبس زدہ نہ تھا، سیاسی فضا میں بھی کافی گھٹن تھی ،حزب اقتدار اور حزب اختلاف نے ایک بارپر سینگوں میں سینگ پھنسائے ہوئے تھے۔ایوان بالا کے چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوچکی تھی، ایک طرف متحدہ اپوزیشن تھی جو ایوان بالا کے خوش گفتار چیئرمین صادق سنجرانی کو ان کی نشست سے ہٹا کر اپنے ساتھ ایوان میں بٹھاناچاہتی تھی اور دوسری جانب حکومت اور ان کے اتحادی تھے جو ہر قیمت پر صادق سنجرانی کے خلاف اس جمہوری بغاوت کو کچلناچاہتے تھے صادق سنجرانی صاحب بھی دلچسپ شخصیت کے مالک ہیں ان کا سیاسی سفر بہت سے موڑ لئے ہوئے، بلوچستان یونیورسٹی سے گریجویٹ سنجرانی صاحب کی پہچان کاروباری شخصیت کی ہے، اس سے ہٹ کر ان کی سیاسی پہچان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ہے ۔وہ 1998 میں میاں نواز شریف کے کوآرڈینیٹر رہے تھے، بعد میں دس سال سیاست کی غلام گردشوں سے دور رہے، پھر 2008 میں واپس آئے اورحیرت انگیز یو ٹرن لے کر مسلم لیگ کی سیاسی حریف پاکستان پیپلز پارٹی کو پیارے ہوگئے، انہیں یوسف رضا گیلانی کا کوآرڈینیٹر مقرر کیا گیا اور وہ پانچ سال تک اسی منصب پر فائز رہے۔ ایوان بالا کے چیئرمین کے لئے ان کے نام پر پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری نے ہی گرین سگنل دیا تھا۔پھر حالا ت نے پلٹا کھایا اور پیپلز پارٹی ہی سنجرانی صاحب کے خلاف کھڑی ہوگئی، ایک طرف اپوزیشن میں پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ ن اور اپوزیشن کی دیگر جماعتیں تھیں تو دوسری طرف سنجرانی صاحب اور حکومتی اتحادتھا،سینیٹ میں اپوزیشن کو واضح اکثریت حاصل ہونے کی بنا پر قوی امید تھی کہ اس معرکے میں مٹھائی لیگی اور جیالوں نے ہی بانٹنی ہے، ایوان میں ہونے والی ووٹنگ میں 104میں سے 103ارکان نے حصہ لینا تھا اسحق ڈار صاحب حلف نہ اٹھانے کے سبب اس کھیل سے باہر تھے جماعت اسلامی نے اپنے 2 ووٹوں کے ساتھ کھیل سے باہر رہنے کا فیصلہ کیا تھا اب جو بھی فیصلہ ہونا تھا ایوان کے100ارکان نے کرنا تھا اپوزیشن کی بظاہر گرفت مضبوط تھی ووٹنگ ہوئی اور حیرت انگیز طور پرخاموشی سے حزب اختلاف کے 9ارکان کا ضمیر انگڑائی لے کر جاگ اٹھا ووٹنگ ہوئی اور سنجرانی صاحب کرسی بچانے میں کامیاب رہے۔ اس وقت وزیراعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے نتائج پر رد عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ آج باشعور سینیٹرز نے کامیابی حاصل کی اور اپوزیشن کی صفوں میں دراڑیں سامنے آئی ہیں۔حکو متی صفوں سے بھی اطمینان کا اظہار کیا گیا حکومتی ترجمان فاتحانہ اندا ز میں لبوںپر مسکراہٹ لئے میڈیا کے سامنے آئے رات کو نیوز چینلز کے پروگراموں میں بیٹھے اور ’’ضمیر کی انگڑائی ‘‘ کا دفاع کرتے رہے ۔ تاریک کمرے کے طاق میں رکھی اخلاقیات کی بند کتاب سے قطع نظر جمہوریت کے نمبر زگیم میں ایسا ہی ہوتا ہے، اسے جمہوریت کا داغ کہیں یا گرہن،سچ بہرحال یہی ہے اور تاریخ میں یہی رقم ہوا کہ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی اپوزیشن ان سے ارکان کی اکثریت کا اعتماد کم نہ کرسکی وہ ایوان بالا کے چیئرمین کی مسند پر بیٹھنے کے سزاوار قرار دیئے گئے۔ مدعا یہ ہے کہ حضور! یہی کچھ توابھی ہورہا ہے جس طرح سنجرانی صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی ویسے ہی وزیر اعظم کے خلاف بھی پیش کی گئی ہے جس طرح سنجرانی صاحب کے لئے حکومت نے مہم چلائی تھی اراکین سینٹ سے رابطے کرکے اپنا پیغام پہنچایا تھا اور بقول عمران صاحب 9وکٹیں گرادی تھیں،ویسے ہی اپوزیشن بھی وکٹیں گرا رہی ہے ،جس طرح حکومت اور اسکے اتحادیوں کو اپنے کپتان کے دفاع کا حق ہے ویسے ہی اپوزیشن کو بھی جمہوری جارحیت کا حق حاصل ہے ،اپوزیشن نے کپتان کے مزاج پالیسیوں سے نالاں ان کے کھلاڑیوں پر تاک تاک کر حملے کئے انہیںساتھ ملایا اور سندھ ہاؤس کی محفوظ پناہ گاہ میں لے گئے تو اسے صادق سنجرانی صاحب کے وقت کے دفاعی اصولوں کے مطابق کیسے ’’چمک‘‘ قرار دیا جائے ؟کس قاعدے سے بے ضمیری کہا جائے ؟جو 2019میں درست تھا وہ 2022میں غلط کیسے ہو گیا ! اللہ بخشے اقبال رحمتہ اللہ علیہ کو جمہوریت کی اسی کراہیت پردہائیوں پہلے کہہ گئے تھے: جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے 2019میں حکومت کو اپنی ضرورت کے وقت بندوں کے کردار سے کوئی لینا دینا نہ تھا انہیں صرف ووٹوں سے غرض تھی سو اپوزیشن کے 9لوٹے مقدس مشروب سے بھریں بلوریں صراحیاں ہوگئیں اور آج جب اپوزیشن حکومت کی صفوں سے بڑی تعداد میں لوٹے چرالائی ہے تو فواد چوہدری سے لے کر شہباز گل تک سب پریشان ہوئے پھر رہے ہیں ،ضمیر ،کردار،اصول ،قاعدے اور اسی قبیل کے وہ الفاظ بھی یاد آنے لگے ہیںجو نصف صدی پہلے متروک ہوچکے تھے۔ میڈیا پر حکومتی ترجمانوں کا اندازہ ان کی زبانوں سے ہورہا ہے۔ وزیر اعظم صاحب کی زبان سے جو پھول جھڑتے ہیںسو جھڑتے ہیںان کے مصاحب خاص شہباز گل اورمسماۃ عالیہ حمزہ نے توحد ہی کردی۔ میڈیا کے براہ راست نیوز شو میں جوزبان استعمال کی وہ تو گلی محلوں کے اوباش بھی سستا نشہ کرکے استعمال نہیں کرتے یہ طیش یہ زبان و بیان بتا رہا ہے کہ کپتان صاحب ہی نہیں گھبرا ئے ان کی ٹیم بھی گھبرا گئی ہے۔ عمران خان صاحب نے جب اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا تھا تو کیا کیا ہیرے لوگ ان کے پاس تھے یہ سب عمران خان کو اپنے خوابوں کی تعبیر سمجھ کر پی ٹی آئی کی بس میں سوار ہوئے تھے بے اصولی کی سیاست میں اصولی سیاست کرنے چلے تھے لیکن پھر کنارہ کرتے کرتے سلیم کوثر کے شعر کی عملی تفسیر ہوگئے: کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے اصولی طور پر حکمراں جماعت جمہوریت کے کھیل کے اس فاؤل پر احتجاج کرنے کا حق کھو چکی ہے۔ 2019میں سنجرانی صاحب کے دفاع میں اپوزیشن کی صفوں سے 9لوٹے نہ لئے جاتے تو آج ان کے الفاظ کھوکھلے نہ ہوتے آج وزیراعظم ضمیروں کی منڈی پر دہائیاں دے رہے ہیں کہہ رہے ہیں کھلا پیسہ چل رہا ہے۔ مجھ سمیت ہر شخص کو سمجھ ہے کہ سندھ ہاؤس میں موجود باغی اراکین اسمبلی کے ضمیر کیسے جاگے لیکن جناب کیا عوام اتنے ’’ماشوم ‘‘ ہے کہ وہ 2019 کے معرکہ سنجرانی میں9ارکان سینیٹ کی ضمیر کی انگڑائی نہ سمجھ سکیں !!