پھول خوشبو کے نشے ہی میں بکھر جاتے ہیں لوگ پہچان بنائے ہوئے مر جاتے ہیں میں تہی دست ہوں اور بارہا یہ سوچتا ہوں اس طرح لوگ کہاں لوٹ کے گھر جاتے ہیں بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے پاس سوچ بچار کا وقت ہی نہیں۔ایک چل چلائو ہے اور بہائو ہے زندگی کا’’ہے تندو تیز کس قدر اپنی یہ زندگی۔ کتنے ہی حادثات سرشام ہو گئے‘‘ کبھی امجد صاحب کا شعر یاد آتا ہے۔’’دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے۔ اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے‘‘ اب تو نوبت آں جاں رسید کہ فرصت کہاں کہ تیری تمنا کرے کوئی اور یہ بھی نہیں کہ بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے۔ کچھ زاد راہ کا بھی خیال آتا ہے حمید حسین صاحب بتانے لگے کہ طاغوت کیا ہے وہ بولتے رہے اور ہم سنتے رہے سچ مچ ہم چکنے گھڑے ہیں پانی کہاں ٹھہرے گا۔ ایک لفظ ہے عصیان کہ وہ گناہ جس کا ارتکاب زیادہ تر انفرادی سطح پر ہوتا ہے آپ کے تخلیہ میں اور آپ کی ذات تک رہتا ہے اس کے بعد آتا ہے عدوان ۔جب آپ کا عمل، گناہ معاشرے میں آتا ہے یعنی اجتماعی حصہ بنتا ہے اب گناہ میں پھیلائو آ گیا اور اس کا حلقہ اثر بڑھ گیا پھر بے باکی اس میں آ جاتی ہے یا یوں کہیں کہ نافرمانی بڑھ جاتی ہے۔ پھر اس کے بعد ایک رویہ ہے طغیان کا کہ مکمل بغاوت علی الاعلان احکام الٰہی کا انکار اور اس پر اصرار۔ بس یہی طاغوت ہے ہم اکثر سنتے رہتے ہیں طاغوتی طاقتیں تو وہ یہی حق کے خلاف باطل ہے۔ بات ذات سے معاشرہ اور پھر نظام تک پہنچتی ہے۔ ہم اس حقیقت سے آنکھیں کیوں چراتے ہیں کہ ایک طرف رحمٰن ہے تو دوسری جانب شیطان، پھر ہمیں احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم ساتھ کس کے کھڑے ہیں۔ ایسے ہی مرزا نوشہ یاد آئے: ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے بہرحال ملکوت کے مقابلے پر طاغوت ہے۔ صوفیا کے ہاں بھی عالم ملکوت اور عالم ارواح استعمال ہوا ہے ظاہر ہے جس کا تعلق اللہ کے نظام سے نہیں اور مقابل کی جسارت ہے ہم دیکھتے نہیں کہ یہ استحصالی نظام کیا ہیں یہ سامراجی اور سرمایہ داری نظام کہ جہاں سودی نظام ہے اور پھر یہ قرآن کے اعتبار سے تو اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ جنگ ہے یہ طاغوتی طاقتیں ہی ہیں جو نوح انسان کو یرغمال بنا چکی ہیں اور ہم اس مشینری کے کل پرزے بن کر رہ گئے ہیں آپ دیکھتے نہیں کہ یہ رائج ہو کر روٹین بن گیا ہے آپ کو یاد ہو گا کہ جب اسلامی نظریاتی کونسل نے سود کو حرام قرار دے کر پابندی کی سفارش کی تو جناب نواز شریف صاحب بنفس نفیس اس کے خلاف اپیل لے کر سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے۔ خیر بات کرتے ہیں طاغوت کی کہ یہ اللہ کے نظام کے مقابل باقاعدہ ایک نظام ہے جس کے لئے لوگ کام بھی کرتے ہیں اور حتیٰ کہ اس کی بقا کے لئے لڑتے بھی ہیں اور اسے پھیلاتے بھی۔ ایک بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام میں پہلے اسی طاغوت کا انکار ہے اور اس کے بعد ایمان کا اقرار ہے۔ ایک لمحے کے لئے اس پیغام پر غور کیجیے جو حضرت محمد ﷺ نے دیا تھا اور اس سے بھی پہلے حضرت ابراہیم ؑ نے بتوں سے انکار لا الہ یہی ہے کہ سب کی نفی اور اس کے بعد الاللہ۔ کچھ نہیں سوائے اس۔وگرنہ بت پوجنے والوں کے لئے یہ مسئلہ ہی نہیں تھا کہ جہاں 360 تھے وہاں 361ہو جاتے۔ الف اللہ چنبے دی بوٹی مرے مرشد من وچ لائی ہو نفی اثبات دا پانی ملیا ہر رگ ہر جائی ہو بوٹی اندر مشک مچایا جان پھلن تے آئی ہو جیوے میرا مرشد باہو جس ایہہ بوٹی لائی ہو طاغوت پ ھیلاتا ہے تو پھر حق کو زیر اثر لانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ باقاعدہ ایک نظام ہے اس کی اپنی سیاست ہے اپنی تعلیم اور اپنا سب کچھ۔ کہ جو لوگوں کو اللہ سے بیگانہ کر دے کیسی زبردست بات ہے کہ پہلے عصیان تھا یعنی گناہ ایک بندے تک محدود تھا کہ کچھ شرم باقی تھی پھر یہ عدوان بنا تو معاشرے کا حصہ بنا اور وہ شرم و حیا جاتی رہی اور پھر اس سے آگے پڑھا کہ طعیان بنا تو حق کا یکسر انکاری ہی نہیں بلکہ برابر میں اپنی اقلیم۔پھر جب یہ سب کچھ رائج ہو کر قانون کا درجہ اختیار کر لیتا ہے تو اس کی مخالفت گناہ ٹھہرتی ہے۔ تبھی تو اسلامی سزائوں کو وحشیانہ کہنے کی جرأت پیدا ہو جاتی ہے۔پھر سوچنے کی بات تو ہے کہ جب کوئی طاغوت کو تسلیم کر لے گا اس کے رنگ میں رنگا جائے گا ان سے مدد لے گا ان کے طور طریقے اپنائے گا تو پھر اس کی اپنی دینی شناخت کہاں رہے گی۔ طاغوت سب کچھ اس قدر مزین کر دیتا ہے کہ وہی اصل اور حقیقت لگنے لگتا ہے۔ بات بہت گھمبیر ہے کہ جب طاغوتی نظام آتا ہے تو پھر ہر میدان میں اپنا آپ دکھاتا ہے آپ ذرا غور تو کریں کہ جو نظام رائج ہو گا تعلیم بھی اسی نظام کو قائم رکھنے کے لئے ہو گی۔ دوسری کوئی تعلیم کو نظام جگہ ہی نہیں دے گا جب ہم اسی نظام کو چلانے والے پیدا کریں گے تو تبدیلی کیسے آئے گی۔ دوسرے لوگوں کے ہاتھ میں اگر حکومت دے بھی دیں گے تو وہ اسے چلانے کے قابل کیسے ہونگے۔ پشاور کی گاڑی میں سوار ہونے والے لاہور کیسے پہنچیں گے۔ یہی طاغوتی طاقتیں ہمیں شیطان کی موجودگی کا یقین دلاتی ہیں یہ سرمایہ داری نظام اور دوسرے استحصالی نظام وہی کہ سود ایک کا لاکھوں کے لئے مرگ مرگ مفاجات، آپ دیکھیے تو سہی یہ طاغوتی نظام کس کس انداز میں غریب عوام کو لوٹتا ہے کس کس طرح ملکوں کو آپس میں لڑاتا اور اسلحہ بیچتا ہے۔ کس طرح قرض کی زنجیروں میں غریب ملکوں کو شکنجے میں لیتا ہے اور پھر آئی ایم ایف ورلڈ بنک اور دوسے اداروں کو وہاں بھیج کر ان کے شب و روز کا مالک بن جاتا ہے۔ صاحبوں یہ سب کچھ تلخ ہے مگر حقیقت ہے۔ عمر گزری ہے دربدر اپنی ہم ہلے تھے ذرا ٹھکانے سے