دنیا طاقت کی زبان سمجھتی ہے ۔ بھارت نے پاکستان پہ پہلے زبانی چڑھائی کی ۔ہم سفارتی محاذ پہ حرکت میں آئے۔دنیا سے حمایت کی درخواست کرتے رہے۔کسی کے کان پہ جوں نہ رینگی۔بھارت نے بھرے میں آکر دراندازی کی۔ہم نے مار بھگایا۔پھر دنیا کی طرف دیکھا۔وہ بہت مصروف تھی۔اسے دیگر ضروری کام تھے۔اب ہم نے وہی کیا جو کرنا چاہیے تھا۔گھس بیٹھیوں کو گھس کے مارا ۔اچانک دنیا ہڑبڑا کے جاگ اٹھی۔عالمی امن خطرے میں نظر آنے لگا۔دونوں ملکوں سے امن کی اپیلیں ہونے لگیں۔ایسا کیوں ہوا اس کی دو وجوہات ہیں۔پہلی وہی جو میں نے پہلے فقرے میں بیان کی۔ دوسری یہ کہ عمران خان نے اپنے خطاب میں امن کی دعوت کے ساتھ جوہری جنگ کی جو دھمکی بھارت کو دی،وہ صرف بھارت کے لئے نہیں تھی۔وہ اسی دنیا کے لئے تھی جو طاقت کی زبان سمجھتی ہے اور جس نے بین السطور عمران خان کا پیغام سمجھ لیا۔یہی اہم ترین بات ہے اور پاکستان کو اس نکتے کو اتنی بار دہرانا چاہئے کہ یہ دنیا کو ازبر ہوجائے۔ جس وقت عمران خان پارلیمنٹ میں اپنی زندگی کا بہترین خطاب کررہے تھے، جس میں انہوں نے بہادر شاہ ظفر کو نہیں بلکہ ٹیپو سلطان کو قوم کا ہیرو قرار دیا ، اس وقت صدر ٹرمپ ویت نام میں شمالی کوریا کے صدر کم یونگ ان سے ایک بار پھر ناکام مذاکرات کررہے تھے۔شمالی کوریا اور پاکستان میں اس کے سوا کوئی قدر مشترک نہیں کہ دونوں جوہری طاقتیں ہیں۔معاشی اعتبار سے پاکستان سے کہیں زیادہ کمزور ملک سن پچاسی سے دنیا کے طاقتور ترین ملک امریکہ کے تین صدور کو مذاکرات پہ مجبور کرتا رہا ہے۔ جوہری ہتھیاروں کے پھیلائو کے امریکی الزام اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے نتیجے میں طویل اقتصادی پابندیاں اسے اپنا جوہری پروگرام رول بیک کرنے پہ مجبور نہیں کرسکیں۔اس کا معاشی مقاطعہ البتہ موثر ثابت ہوا ہے اس کے باوجود آپ نے دیکھا کہ کل کم یونگ ان کس طرح ٹرمپ کے سامنے سے اٹھ کر چلے گئے اور کیا آپ کو یاد ہے کہ اس بار یہ مذاکرات کس طرح شروع ہوئے۔ جب ٹرمپ اور کم یونگ ان کی ٹوئٹر پہ لفظی جنگ میں کم یونگ ان نے کہا کہ ان کا ہاتھ جوہری بم کے بٹن پہ ہے اور یہ امریکہ کے بٹن سے کہیں بڑا ہے۔یقینا یہ ایک سپر پاور کے صدر کے سامنے دنیا کے کمزور ترین ملک کے صدر کا امن جیسٹر نہیں تھا۔ ایران ایک اور مثال ہے۔اس کے مبینہ جوہری پروگرام کے خلاف ایک عرصے سے اقتصادی پابندیاں جاری ہیں۔بالآخر اس نے بظاہر امریکہ اور باقی دنیا کے ساتھ ایک شکست خوردانہ جوہری معاہدہ کیا جس سے امریکہ خود نکل گیا کیونکہ اسے مکمل یقین تھا کہ اس کی آڑ میں ایران جوہری ہتھیار بنا رہا ہے۔ حتی کہ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے کسی فٹ پاتھی حکیم کی طرح اس کے ثبوت بھی میڈیا پہ پیش کردیے۔اس کا منطقی نتیجہ تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ ایران پہ اسی طرح حملہ کردیا جائے جیسا کہ عراق ، افغانستان اور لیبیا پہ کیا گیا اور ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ ان ہی دنوں یہ لطیفہ مشہور ہوا کہ عراق اور لیبیا پہ امریکہ نے کیمیاوی ہتھیاروں کے پھیلائو کا الزام لگاتے ہوئے اس لئے حملہ کردیا کہ ان کے پاس وہ ہتھیار نہیں تھے اور شمالی کوریا پہ اس لئے نہیں کیا کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار تھے۔یہی کلیہ مبینہ طور پہ ایران پہ لاگو ہواجس پہ ہمیشہ کی طرح اقتصادی پابندیوں پہ اکتفا کیا گیا۔ دنیا نے جس کی چنداں پروا نہ کی اور امریکہ بہادر کھسیانی بلی کی طرح ایک ایک ملک پہ تجارتی پابندی کا کھمبا نوچتے ہوئے دنیا میں تنہا ہو کر رہ گیا۔ ایران کے ساتھ دنیا تجارتی معاہدے کررہی ہے، اس کا سستا تیل خرید رہی ہے اور امریکہ دھمکیاں دینے کے سوا کچھ نہیں کررہا ۔ پاکستان کا معاملہ عجیب تر ہے۔ اس کو لاحق خطرات کچھ اور نوعیت کے ہیں۔اس وقت جنوبی ایشیا میں وہ واحد ملک ہے جو بھارت کی راہ کا کانٹا ہے ۔باقی تمام ممالک مکمل طور پہ اس کے زیر اثر ہیں۔بھارت کا ایشیا کا تھانیدار بننے کا خواب کافی پرانا ہے جسے کبھی چین تو اکثر پاکستان نے چکنا چور کیا ہے۔ اب چین کے انتہائی پھیلے ہوئے علاقائی بلکہ عالمی عزائم نے بھارت تو کیا امریکہ کو بھی سر جھکانے پہ مجبور کردیا ہے تو جنوبی ایشیا کی تاجداری کا خواب اب بھی بھارت کی ہوسناک آنکھوں میں چمک رہا ہے لیکن پاکستان کا وجود سارا مزہ کرکرا کررہا ہے۔بھارت کی پاکستان کے خلاف جارحیت نہ ختم ہوئی ہے نہ ہوگی۔اس سے قبل جنگوں میں ہمیں ایک فائدہ حاصل تھا اور وہ یہ کہ وہ دو متحارب ملکوں کے درمیان روایتی کھلی جنگیں تھیں اور اس کا باقی دنیا کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔ نائن الیون کے بعد کی دنیا مختلف ہے۔ پاکستان کو پوری منصوبہ بندی کے ساتھ دہشت گردوں کی جنت بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ا س کے لئے لابنگ کی گئی اور امریکہ نے بڑی مہارت کے ساتھ اس جنگ کا بوجھ پاکستان کے کاندھوں پہ ڈال دیا۔ اس کی فوج جسے سرحدوں کی حفاظت کرنی تھی ایک طویل اور بے مقصد جنگ میں جھونک دی گئی۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ پاکستان کشمیر سمیت ہر معاملے پہ اخلاقی دباو میں آگیا جس کا خمیازہ ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں۔کشمیر سے مجاہدین واپس بلانے کے باوجود بھارت کی طرف سے در اندازی کے الزامات کو دنیا نے سنا اور سر آنکھوں پہ رکھا۔ہم سفارتی محاذ پہ سوتے رہے کیونکہ ہمارے سر پہ امریکہ کا ہاتھ تھا اور ہم جہاد سے تائب ہوچکے تھے۔اب ہمیں دہشت گردی کے خلاف ایک اور جنگ میں جھونکنے کی تیاری ہورہی ہے ۔افغانستان میں منہ کی کھانے اور پاکستان کو مرکزی اہمیت حاصل ہونے کے بعد بھارت ہی نہیں امریکہ کو بھی ضرورت تھی کہ پاکستان کو جاتے جاتے ایک اور جنگ میں الجھا دیا جائے اوراس بار دہشت گردی کی اس جنگ کا علم بھارت کے ہاتھ میں ہو۔کیا ہمیں نظر نہیں آرہا کہ پاکستان پہ بھارت نے بالکل امریکی انداز میں حملہ کیا ہے۔ پلوامہ حملے کے بعد بھارت کو تحقیقات کی پیشکش بدترین غلطی تھی ۔بھارت امریکہ نہیں ہے۔اس پیشکش کے بغیر بھی بھارت کے پاس امریکی طرز کے کسی حملے کا جواز نہیں تھا اور ہم اسے روکنے کی اخلاقی برتری اور عسکری صلاحیت رکھتے تھے۔ اگر یہ پیشکش بھارت کو اخلاقی دباو میں لانے اور دنیا کی حمایت حاصل کرنے کے لئے تھی تو ہم نے دیکھ ہی لیا کہ دنیا ہمارے ساتھ کہاں کھڑی تھی؟یہ سمجھ لینا چاہئے کہ دنیا ہم سے راضی ہونے والی نہیں ہے۔اس کی بنیاد نظریہ پاکستان ہے۔اگر یہ سامنے کی بات اب بھی سمجھ نہیں آئی تو ہمیں اس بار امریکہ نہیں بھارت کے ڈو مور کے لئے تیار رہنا ہوگا۔اگر نہیں تو ہمارے پاس دو متوازی راستے ہیں۔ ایک بھارت کی پاکستان میں دہشت گردی اور کشمیر میں مظالم کے خلاف مسلسل اور بھرپور مہم جو کبھی ٹھنڈی نہ ہو۔دوسرے اپنی جوہری طاقت کا اس دنیا کے سامنے وقتا فوقتا اظہار جو کبھی ہمارے ساتھ کھڑی نہیں ہوگی۔