ٹھیک ڈیڑھ سال پہلے جب فاتح طالبان اور شکست خوردہ امریکی و نیٹو افواج کے درمیان 29 فروری 2020ء بمطابق 5 رجب 1441ھ معاہدہ طے پایا، جس میں امریکی اور نیٹو افواج کا مرحلہ وار انخلاء یقینی ہو گیا، تو اس دن سے دُنیا بھر کے سیاسی، معاشی اور عسکری مبصرین آنے والے دنوں کی افغان حکومت کے خدوخال اپنے ہی خواب و خیال میں طے کرنے لگے۔ کس قدر ڈھٹائی ہے کہ ابھی چند دن پہلے ہی تو ان کی ناکام حسرتوں کا قبرستان اسی افغانستان میں سجایا گیا تھا۔ یہ سیاسی، معاشی اور عسکری تجزیہ نگار چونکہ اپنے تجزیوں کی بنیاد، حالات و واقعات پر نہیں بلکہ عالمی استعمار کی لامحدود خواہشات پر رکھتے ہیں، اسی لئے ان کی تمام گفتگو دلیل سے تہی اور منطق سے عاری ہوتی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں انہوں نے اپنے تجزیوں سے وہی کام کیا جس کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں اپنے مومنین کو پہلے سے ہی متنبہ کر رکھا تھا۔ اللہ نے فرمایا! ’’شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور شرمناک طرزِ عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے‘‘ (البقرہ: 268)۔ ڈیڑھ سال ،یہ عقلی طور پر دیوالیے، طالبان کو اس بات سے ڈراتے رہے کہ عالمی برادری اگر تمہاری حکومت کو تسلیم نہیں کرے گی، تو تم فاقوں مر جائو گے، مفلسی تم کو گھیر لے گی اور یوں ایک دن تمہارے اپنے لوگ تمہارے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ اس کا حل صرف ایک ہے، کہ تم اپنی شناخت یعنی شرعی نظام کو بھول کر ان لوگوں کو بھی اپنے ساتھ ملائو جو بیس سال امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے شانہ بشانہ تمہارا خون بہاتے رہے۔ کیونکہ تم اس ملک میں اللہ کا ’’قانون شریعت‘‘ نافذ کرنا چاہتے تھے اور وہ افغانستان میں بیس سال مغربی جمہوریت کے کھلے شرک کے پرچم کو تھامے ہوئے تھے۔ ایک اہم بات اور ہے کہ اگر تم نے معاشرتی زندگی میں، خاتون کو مرکز و محور بنا لیا، اس کی آزادیوں کا تحفظ کر دیا تو پھر خواہ تم جبّہ و دستار پہنے رہو، تمہارے ماتھوں پر محراب سجے رہیں، تمہاری زندگیاں تسبیح و تحلیل میں گزرتی رہیں، تمہاری حکومت اور تم سب مغرب کیلئے محترم، معزز اور محبوب بن جائو گے۔ قرآن پاک میں اللہ نے ایسی ترغیبات کو ’’بالفحشائ‘‘، یعنی ’’بے حیائی‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اس لفظ کا مفسرین نے ترجمہ ’’شرمناک طرزِ عمل‘‘ کیا ہے۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ بے حیائی اور شرمناک طرزِ عمل کا آغاز جس کسی تہذیب، معاشرت یا ریاست میں ہوا اس کی شروعات خاتون کو مرکزِ نگاہ، محورِ معاشرت، اور تسکین و تلذذ کی بنیاد بنانے سے ہوا۔ آج کی حقوقِ نسواں (Feminism) کی تحریک کا آغاز جو 1920ء کے آس پاس ہوا، صرف اور صرف شہوانیت کی آزادی سے ہوا۔ لباس کی تراش خراش سے نیم برہنگی تک کا سفر جاری ہے۔ مخلوط طرزِ معاشرت کے آغاز میں کسی کو عورت کے حقوق، اس کی تعلیم، صحت کا خیال تک نہیں آیا بلکہ اس کو اشتہارات کے توسط سے ساحلِ سمندر کی ریت اور سٹیج کی تھرکتی زندگی پر مرکزِ نگاہ بنانا ہی بنیادی ترقی سمجھی گئی۔ گزشتہ دنوں، مشہور جریدے ’’اِکنامسٹ‘‘ (Economist) نے امریکہ کی افغانستان سے رخصتی پر ایک طویل رپورٹ مرتب کی، جسے دو اہم تجزیہ نگاروں نینسی لنڈسی فرین (Nancy Lindis Frame) اور جوناتھن نیل (Jonathan Neale) نے تحریر کیا ہے۔ اس رپورٹ کا آغاز اس فقرے سے ہوتا ہے۔ "A lot of nonsense about Afghanistan is being written in Britain and United States" برطانیہ اور امریکہ میں اس وقت افغانستان کے بارے میں بے شمار (واہیات، واہی تباہی، بیہودہ گوئی، لغویات اور بکواس) لکھی جا رہی ہے۔ (لفظ ’’نان سینس‘‘ کے اس سے زیادہ سخت ترجمے بھی موجود ہیں)۔ دونوں نے لکھا ہے کہ اس یاوہ گوئی کے پیچھے حقائق کو چھپایا جا رہا ہے۔ انہوں نے چھ حقائق بیان کئے ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ: "Saving Afghan Women is to Justify Occupation" افغان عورتوں کے تحفظ کو دراصل ملک پر قبضے کی دلیل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ طالبان کو گزشتہ ڈیڑھ سال سے انہی دو شیطانی حربوں سے ڈرایا جا رہا تھا۔ وسیع البنیاد حکومت بنائو اور ’’عورتوں کے حقوق‘‘ کا خیال رکھو تو بچ جائو گے ورنہ بھوک تمہارا پیچھا کرے گی۔ لیکن مومن کی بصیرت، جس کے بارے میں رسول اکرمؐ نے فرمایا! ’’مومن کی فراست سے ڈرو بے شک وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے‘‘ (سنن ترمذی)، رکھنے والے طالبان کے سامنے گزشتہ ڈیڑھ سال میں تین اہم سوالات تھے۔ (1)۔ کیا ہم شریعت کے اس راستے کو ترک کر دیں جس کی وجہ سے عالمی طاقتوں نے ہماری حکومت اُلٹی اور ہم نے بیس سال جنگ کی۔ (2)۔ کیا ایسے تمام لوگ جو بیس سال افغان عوام کے خلاف عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر لڑتے رہے، انہیں اقتدار میں حصہ دار بنایا جائے۔ (3)۔ کیا اس طرزِ زندگی (Life Style) کو اپنا لیا جائے جس کے تحفظ کیلئے جارج بش اور ٹونی بلیئر نے مل کر ہم سے جنگ کا اعلان کیا تھا اور یا پھر اللہ کے بتائے ہوئے طرزِ زندگی (Life Style) پر ہی قائم رہ کر حکومت بنائی جائے۔ 15 اگست 2021ء کو کابل میں فاتحانہ طور پر داخل ہونے والے طالبان نے جب 24 دن بعد 7 ستمبر کو اپنی عبوری حکومت کا اعلان کیا تو جہاں انہوں نے ان تمام شیطانی ترغیبات کے جھانسے میں آنے سے انکار کیا، وہیں انہوں نے ان تمام کھوکھلے سیاسی، معاشی اور عسکری تجزیہ نگاروں کے خواب بھی چکنا چور کر دیئے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ ان کی حکومت میں وہی محترم اور معزز ہو گا جس کی اللہ کے راستے میں جہاد اور نظامِ اسلام کے نفاذ کیلئے خدمات زیادہ ہوں گی۔ طالبان نے سب سے پہلے اس نظام کو ٹھکرایا جو مغرب نے اسلامی شریعت کے نفاذ کو روکنے کیلئے، جمہوریت کے ملغوبے سے ترتیب دیا تھا۔ اس نظام میں دراصل اللہ کی شریعت نہیں بلکہ پارلیمنٹ اور آئین سپریم کہلاتا ہے اور اسلامی شرعی عدالت اور نظریاتی کونسل جیسے بے ضرر ادارے قائم کئے جاتے ہیں۔ طالبان نے آج سے آٹھ سال قبل جس امیر المومنین شیخ الحدیث مولانا ہبتہ اللہ اخوندہ زادہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، از روئے شریعت طالبان نے انہیں ہی اپنی حکومت کا سربراہ قرار دے کر ایسی تمام افواہوں کا گلا گھونٹ دیا جو نظامِ حکومت اور طالبان کی تنظیم کے بارے میں پھیلائی جا رہی تھیں۔ طالبان حکومت کا ہمیشہ سے یہ دستور رہا ہے کہ ان کے امیر المومنین تک عالمی طاقتوں کی رسائی بہت کم ہوتی ہے۔ معاملات نیچے بنائے گئے انتظامی ڈھانچے سے طے کئے جاتے ہیں مگر فیصلہ کرنے کا اختیار صرف اور صرف امیر المومنین کے پاس ہوتا ہے، جیسا کہ مُلا محمد عمرؒ کے پاس تھا۔ مُلا محمد عمر مجاہدؒ کے دَور میں نائب رئیس الوزارۃ مُلا محمد حسن اخوند تھے اور موجودہ حکومت میں بھی وہ رئیس الوزارۃ ہیں۔ مگر یہ مُلا محمد حسن آج بھی عالمی برادری کی نمائندہ اقوامِ متحدہ کی بلیک لسٹ پر ہے۔ پوری کابینہ میں دس افراد ایسے ہیں جو امریکہ اور عالمی برادری کو مطلوب ہیں۔ وہ عالمی برادری اور امریکہ جو کابل ایئر پورٹ سے اپنے افراد کو نکالنے کیلئے اتنی بے بس تھی کہ پاکستان سے مدد مانگ رہی تھی۔ وسیع البنیادی کا طعنہ دینے والوں کے منہ پر ایک طمانچہ قاری فصیح الدین ہیں جنہیں آرمی چیف بنایا گیا ہے جو نسلاً تاجک ہیں، یعنی احمد شاہ مسعود اور عبداللہ عبداللہ کی قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ بدخشاں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں کے بدخشانی شیعہ 1996ء کی طالبان حکومت میں وزراء اور گورنر بھی تھے۔ نائب وزیر اعظم مُلا عبدالسلام حنفی ازبک ہیں اور دوستم کی قوم سے ہیں جب کہ وزیر خزانہ قاری دین محمد تاجک ہیں۔ لیکن ہمارے تجزیہ نگاروں کے سینوں میں اس وقت تک ٹھنڈک نہیں پڑ سکتی جب تک ازبک کا نمائندہ دوستم، اور تاجک کا نمائندہ عبداللہ عبداللہ حکومت میں شامل نہ ہو۔ طالبان کہتے ہیں کہ ایسا کرنا ان کے نزدیک نہ صرف شہداء کے خون سے غداری ہو گی بلکہ اسلامی شریعت کے نفاذ کے مقصد سے بھی منہ موڑنے کے مترادف ہو گا۔ یہ ہے صبغتہ اللہ۔ اللہ کا رنگ، جو ایک جیسا ہوتا ہے۔ اس میں دو رنگی نہیں ہوتی۔ طالبان فخر سے اپنے حکمران کو صدر کی بجائے امیر المومنین کہتے ہوئے شرماتے نہیں اور اپنے نظام کو شریعت کہنے میں بھی انہیں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔