طالبان اور امریکہ کے درمیان براہ راست مذاکرات سے ان لوگوں کو اپنی تاریخی اور سیاسی تصحیح کرلینی چاہئے جو طالبان کو محض ایک جنگجو گروہ سمجھ کر حقارت سے ان کا تذکرہ کیا کرتے اور طعنے دیا کرتے تھے کہ یہ ٹوٹی چپلیں پہننے والے کیا سپر پاور کا مقابلہ کریں گے۔دل میں تلخی تو بہت ہے اور محفلوں میں سوٹ بوٹ پہنے ، فرانسیسی مشروب کی چسکیاں لیتے خوش رو اور خوشحال دانشوروں کے دل دکھانے والے تمام تبصرے بھی روح پہ نقش ہیں لیکن مجھے اس وقت تلخ نہیں ہونا اور ان تمام لوگوں کو تاریخ کے اندھے موڑ پہ تنہا چھوڑ دینا ہے جو اپنے ہی فلسفے کے برخلاف زمینی حقائق کا ادراک نہیں کرپائے۔زمینی حقائق تو یہ تھے کہ طالبان کی حکومت افغانستان پہ قائم تھی۔انصاف ہورہا تھا۔ چالیس سال سے جنگ اور خانہ جنگی کی تباہ حالی کے بعد افغان عوام کو انصاف اور امن مل رہا تھا۔ملا عمر کی بے سروسامان حکومت کسی طور اس قابل نہ تھی کہ امریکی سربراہی میں چالیس ممالک سے زائد غیر ملکی افواج کی یلغار کا مقابلہ کرسکے۔یہ سکت تو شاید ہم میں بھی نہیں جو ایٹمی قوت ہیں۔یہ زمینی حقیقت ہے کہ طالبان پسپا ہوئے۔یہ بھی کہ عرب اور افغان جنگجو کنٹینروںمیں بھر کر ابو غریب اور گوانتا ناموبے پہنچائے گئے اور یہ بھی کہ ہم نے اس میں امریکہ کا پورا پورا ساتھ دیا۔ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ اس وقت بھی پاکستان میں ایک شخص ایسا تھا جو اس وقت کی پاکستان کی اس خارجہ پالیسی کے خلاف تھا جس کی بنیاد میں کیری لوگر بل کی اینٹیں دھری تھیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ان سترہ سالوں کے دوران پاکستان میں جو حکومتیں آئیں وہ اسی خارجہ پالیسی کا تسلسل تھیں اور یہی وہ شخص تھا جو نیٹو سپلائی اور ڈرون حملوں کے خلاف مظاہرے کرتا اور خطرناک بیانات دیتا رہا۔آپ طالبان اور امریکہ کے درمیان براہ راست مذاکرات کے لئے اپنے کسی بھی تعصب کو بروے کار لاتے ہوئے اس شخص کو کریڈٹ نہ دیں لیکن ایک زمینی حقیقت یہ بھی ہے کہ آج یہی شخص پہلے سے زیادہ اپنے موقف میں قطعیت کے ساتھ پاکستان کا وزیر اعظم ہے۔اگر آپ میرے گمان کے مطابق امریکی خارجہ پالیسیوں کے بالخصوص اچھے طالبعلم رہے ہیں تو آپ کو علم ہوگا کہ ٹرومین ڈاکٹرائن کیا بلا ہے، بش نے سوویت یونین کے انہدام اور اپنے سب سے بڑے دشمن کی معدومیت کے باوجود اسی ڈاکٹرائن کو آگے بڑھاتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کیوں کیا تھا اور اوباما اور ٹرمپ کے بیچ افغان پالیسی کیونکر تبدیل ہوئی۔ اسٹالن کے روس سے پیوٹن کے روس تک کیا تبدیلیاں آچکی ہیں یہ بھی آپ کے علم میں ہوگا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شخصیات کی تبدیلی سے پالیسیاں تبدیل ہوتی آئی ہیں۔پھر آپ اس زمینی حقیقت سے صرف نظر کیونکر کر سکتے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی ایک ایسے شخص کے برسراقتدار آنے سے نہیں آسکتی جو ہمیشہ سے کہتا تھا کہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے؟میں یہ ماننے کو تیار ہوں کہ خطے کے حالات تبدیل ہوئے ہیں۔اس پہ میں نے صفحات کالے کئے ہیں لیکن حق شناسی کا تقاضہ ہے کہ حق بہ حق دار رسید۔ اسی حق شناسی کا تقاضہ ہے کہ اس زمینی حقیقت کو تسلیم کیا جائے کہ طالبان ایک بار پسپا ہونے کے بعد سترہ سال جہاد پہ قائم رہے اور بہت پہلے ہی اس پوزیشن میں آگئے تھے کہ امریکہ ان کو افغانستان کی واحد ایسی قوت تسلیم کرے جو اگر چاہیں تو اسے واپسی کا راستہ دے دیں ۔ ماضی میں مختلف مقامات پہ ہونے والے مذاکرات اسی حقیقت شناسی کا مظہر تھے اور موجودہ مذاکرات ممکن ہے اس کا اختتام ثابت ہوںجس میں طالبان افغان حکومت کو اتنی اہمیت دینے کو بھی تیار نہیں جتنی ماضی میں دیتے رہے ۔آپ مانیں یا نہ مانیں،جب تک ہم امریکی کیمپ میں کھڑے رہے،ہماری حیثیت بھی کابل حکومت سے زیادہ نہیں تھی۔آج ہم درست سمت میں کسی بھی شخص کی وجہ سے کھڑے ہیں تو دنیا ہماری عزت کرنے پہ مجبور ہے۔ جہاں تک طالبان اور امریکہ کے درمیا ن مذاکرات کا تعلق ہے تو اس بار بغیر کسی خوش فہمی کے ان کی کامیابی کے امکانات ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں ۔اس کی وجہ صدر ٹرمپ کی وہ پالیسیاں ہیں جو وہ سب سے پہلے امریکہ کے تناظر میں اپناتے رہے ہیں۔میں نے کالموں کی ایک سیریز میں بیان کیا تھا کہ کس طرح امریکہ دنیا بھر سے اپنے پر سمیٹ کر گوشہ تنہائی میں جانے کے لئے تیار ہورہا ہے ۔جس طرح جنگ عظیم دوم کے دوران ہی اس بات کا فیصلہ ہوگیا تھا کہ اب طاقت کا توازن برطانیہ عظمی سے امریکہ بہادر کو منتقل ہوجائے گا اسی طرح دہشتگردی کے خلاف اس مسلم کش جنگ میں بھی طاقت کا توازن امریکہ اپنے کندھوں سے اتارنے کو تیار ہوگیا ہے۔ شام عراق اور لیبیا سمیت تمام مشرق وسطی سے امریکہ اپنے محدود فوجی اڈوں کے علاوہ ہر طرح کی عسکری موجودگی ختم کرنے کا فیصلہ کرچکا ہے۔ افغانستان سے اس کا انخلا بھی اسی پالیسی کا تسلسل ہے۔اس لئے دل کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا۔یہ مذاکرات صرف ایک نکتے پہ اٹکے ہوئے ہیں۔میں نے اگست میں ماسکو امن مذاکرات کے موقع پہ لکھے گئے کالم: آو مذاکرات کریں میں ا یک خدشے کا اظہار کیا تھا کہ امریکہ افغانستان سے صرف اس صورت نکلے گا اگر طالبان اس کی افغانستان میں محدود موجودگی یعنی ایک آدھ فوجی اڈے کی موجودگی پہ راضی ہوجائیں۔بفضل خدا میرے اس تجزیے کی تصدیق حالیہ رپورٹوں سے ہوتی ہے جن کے مطابق امریکہ کی شرط ہے کہ وہ بگرام اور قندھار میںشورابک عسکری مستقر مستقل طور پہ قائم رکھے اور طالبان اس پہ راضی نہیں ہیں ۔ وہ اگر اس پہ راضی ہوجائیں تو ان کی سترہ سالہ مزاحمت کس کھاتے میں جائے گی؟چین کے مفادات تو افغانستان میں واضح ہیں جو نہ صرف افغانستان کا تیسرا بڑا تجارتی شراکت کار ہے بلکہ بیلٹ اینڈ روڈ اینیشیٹیو کے تحت وہاں ایک ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے والا ہے۔امن افغانستان میں امریکہ سے زیادہ چین کی ضرورت ہے جس کی صرف موجودگی ہی امن کی قاتل ہے۔ اسی لئے 2016ء میں طالبان کے ایک وفد نے چین کا خفیہ دورہ کیا تھا جس کا مقصد طالبان کو افغانستان میں چین کی موجودگی پہ آمادہ کرنا تھا چناچہ مذاکرات سے قبل طالبان نے چین کو افغانستان میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے تحت جاری منصوبوں کے تحفظ کی یقین دہانی کروائی تھی۔روس اور ایران کے اپنے مفادات ہیں ۔گلبدین حکمت یار جو سوویت یونین کے خلاف جہاد میں مصروف رہے اور تہران میں روپوش، اپنی بیس سالہ جلا وطنی کے بعد جب جلال آباد پہنچے تو انہوں نے حیرت انگیز طور پہ 1988ء میں جلال آباد پر مجاہدین کے حملے کو غلطی قرار دیا۔اس موقع پہ حنیف اتمر بھی موجود تھے جو اس حملے میں زخمی ہوئے تھے اور خاد کے لئے کام کررہے تھے۔اب حنیف اتمر اور گلبدین دونوں ہی صدارتی امیدوار ہیں۔ایسے میں امریکہ نکلے تو کیونکر نکلے۔سپر پاور کوکوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا۔