انتیس فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحا میںبین الا قوامی سیاست کی ایک نئی تاریخ رقم ہوئی ۔ امریکہ اورافغان طالبان کے درمیان معاہدہ پر دستخط ثبت ہوئے۔ اس عہد نامہ کے اثرات وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا کی سلامتی اور علاقائی سیاست پرہی نہیں بلکہ پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ کے دو بنیادی نکات ہیں۔ ایک نکتہ یہ ہے کہ امریکہ افغانستان سے اپنی فوجیں بتدریج نکال لے گا۔ دوسرے‘ طالبان اپنے ملک کی زمین کو کسی امریکہ مخالف تنظیم جیسے القاعدہ یا داعش کو استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ دیگر شقیں ثانوی حیثیت کی حامل ہیں۔ امریکہ کا افغانستان میں اُنیس سال سے اپنے خلاف لڑنے والے ایک گروہ سے باقاعدہ معاہدہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس نے طالبان کو افغانستان کی ایک بڑی طاقت تسلیم کیا ہے۔ امریکہ چاہتا تو طالبان سے کچھ طے کیے بغیر اِس ملک سے اپنی فوجیں نکال سکتا تھا لیکن اُس نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے طالبان سے سمجھوتہ کرنا ضروری سمجھا۔یہ اس بات کا عندیہ ہے کہ امریکہ مستقبل میں طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ نے گزشتہ اُنیس برسوں میں افغانستان میں ایک ہزار ارب ڈالر فوجی کارروائیوں اور ترقیاتی کاموں پر خرچ کرڈالے‘ ساڑھے تین ہزار امریکی فوجی اس جنگ میں ہلاک ہوئے‘ ہزاروں زخمی ہوئے‘ معذور ہوئے‘ نفسیاتی مریض بنے لیکن وہ اپنی مرضی کے نتائج حاصل نہیں کرسکا۔ جس بے سر و ساماں گروہ کے خلاف امریکہ نے جنگ کی اسے ختم نہیں کرسکا اور آخرکار اسی سے امن کا معاہدہ کرنا پڑا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے یورپ کی تعمیر نو پر مارشل پلان کے تحت ایک سو ارب ڈالر خرچ کیے تھے جبکہ افغانستان میں ترقیاتی کاموں پر تقریباًڈیڑھ سو ارب ڈالر کے اخراجات کیے لیکن یہ ملک یورپ کی طرح ترقی نہیں کرسکا۔ بیشتر رقوم کرپشن اور بدانتظامی کی نذر ہوگئیں۔ افغان قوم کی اکثریت نے امریکی اقداراور غلبہ کو قبول نہیں کیا۔نائن الیون حملوں کے بعد جب امریکہ نے افغانستان میںاپنی فوجیں اُتاری تھیں تو امریکی کہا کرتے تھے کہ وہ افغانستان کو ایک چھوٹا امریکہ بنائیں گے لیکن یہ پراجیکٹ بُری طرح ناکام ہوگیا۔امریکی پودا افغان زمین میں جڑ نہیں پکڑسکا۔ امریکہ کے قدم رکھنے سے پہلے یہ ملک ایک منقسم قبائلی معاشرہ تھا‘ اب بھی بالکل ویسا ہی ہے۔اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے باوجود افغانستان کی کوئی معیشت نہیں بن سکی۔کابل انتظامیہ اس قابل بھی نہیں کہ اپنے ملازمین کو امریکہ اور یورپ کی امداد کے بغیر تنخواہ ادا کرسکے۔ اس مالی سال کابل حکومت کا ساڑھے پانچ ارب ڈالر کا بجٹ ہے۔ اس میں سے پونے چار ارب ڈالر امریکہ اور اس کے اتحادی گرانٹ کی صورت میں دے رہے ہیں۔ تین کروڑ آبادی کے ملک کی مجموعی برآمدات صرف اسّی کروڑ ڈالرہیں۔کام کاج کرنے کے قابل آبادی میں سے ایک تہائی سے زیادہ بے روزگار ہے۔ افیون کی کاشت اور ہیروئین کی پیداوار امریکی حملہ سے پہلے کی نسبت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ طالبان کے ساتھ امریکی معاہدہ سے دو فریقوں کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ ایک تو اشرف غنی اور ان کے ساتھی جو کابل میں امریکی امداد کے سہارے حکومت کے مزے لُوٹ رہے ہیں ۔ دوسرے‘ بھارت جو افغان زمین کو پاکستان میں دہشت گردی اورعلیحدگی پسند تحریکوں کو پھیلانے کے لیے استعمال کرتا رہا۔ بھارت کی شہہ پر اشرف غنی طالبان سے نت نئے مطالبے کررہے ہیں کہ وہ پہلے دوسرے گروہوں کے ساتھ مذاکرات شروع کریں پھر وہ ان کے قیدی رہا کریں گے یا یہ کہ طالبان پاکستان سے قطع تعلق کریں۔ بھارت اور اشرف غنی کا کھیل یہ ہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدہ پر عمل درآمد میںاتنی تاخیر ہوجائے کہ نومبر میں امریکہ میں نیا صدارتی انتخاب مکمل ہوجائے۔ کابل میں بھارتی لابی کا خیال ہے کہ شائد صدر ٹرمپ کی جگہ نیاڈیموکریٹک صدرآجائے تو وہ اس معاہدہ کو منسوخ کردے اور اس کی تنخواہیں لگی رہیں۔لیکن اشرف غنی ایک کمزور وکٹ پر کھیل رہے ہیں۔ ان کی چال شائد ہی کامیاب ہو۔ اُن کے اپنے سابقہ اتحادی انہیں جائز صدر ماننے پر تیار نہیں‘ ان کے الیکشن کو دھاندلی زدہ سمجھتے ہیں۔ بھارت کے سوا کسی بڑے ملک بشمول چین‘ پاکستان‘ امریکہ‘ روس نے ان کو صدر منتخب ہونے پر مبارکباد نہیں دی۔امریکہ نے تو ان کو تقریب حلف برداری منعقد کرنے سے بھی اس وقت تک روک دیا جب تک اُسکے طالبان کے ساتھ معاہدہ پر دستخط ہوجائیں۔ اشرف غنی پشتون ہیں لیکن ان کی پشتونوں میں کوئی سیاسی بنیاد نہیں۔ صدر ٹرمپ ہر صورت صدارتی الیکشن سے پہلے اپنے نصف یا اس سے زیادہ فوجی افغانستان سے نکالنا چاہتے ہیں تاکہ امریکی عوام کو بتاسکیں کہ انہوں نے امریکہ کوایک طویل ترین جنگ سے باہر نکال لیا۔ یوںٹرمپ کی پوزیشن الیکشن میں بہتر ہوجائے گی، امریکی رائے عامہ افغانستان جنگ سے اُکتا چکی ہے اوراس میں مزید امریکی جانوں اور مال کا ضیاع نہیں چاہتی۔معاہدہ کے چند دن بعد صدر ٹرمپ نے طالبان رہنما ملا غنی برادر سے آدھ گھنٹہ ٹیلی فون پر بات کرکے یہ واضح پیغام دیا کہ وہ طالبان سے امن کی بات چیت کوبہت اہمیت دیتے ہیں۔ اشرف غنی امریکی حکومت کی مدد کے بغیر ایک دن بھی کابل انتطامیہ نہیں چلاسکتے۔آثار یہی ہیں کہ آج نہیں تو کل امریکی انہیں مکھن میں سے بال کی طرح نکال کر باہر پھینکیں گے۔ اگر امریکہ غیرجانبدار ہوجائے تب بھی طالبان آسانی سے کابل پر قبضہ کرسکتے ہیں۔ اصل چیلنج یہ ہے کہ افغان طالبان پشتونوں کے علاوہ ملک کے دیگر نسلی‘ لسانی گروہوں اور بااثر قبائلی رہنماؤں کے ساتھ لچک اور سیاسی فہم و فراست کا مظاہرہ کریں۔ افغانستان کے دیگر بڑے لیڈرز طالبان کے ساتھ مصالحت کرکے شراکت ِاقتدار چاہتے ہیں۔ طالبان غیرپشتون گروپوں جیسے تاجک‘ ازبک ‘ ہزارہ وغیرہ کے ساتھ اتحاد بنالیں تو وہ پُرامن طریقہ سے کابل میں حکومت بنالیں گے البتہ مخلوط حکومت میں غالب کردارانہی کا ہوگا۔اگر طالبان نے دیگربااثر رہنماؤں‘گروہوں کو ساتھ نہ ملایا توافغانستان کی چالیس سالہ خانہ جنگی مزید طویل ہوجائے گی۔