امریکہ اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کا کٹھن مرحلہ طے کرنے کے بعد پاکستان کو ایک اور مشکل ٹاسک ملا ہے ؎ اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا برسوں تک امریکہ بھارتی پروپیگنڈے کے سحر میں گرفتار رہا کہ افغانستان میں اس کی ہزیمت اور ناکامی کا ذمہ دار پاکستان ہے۔ بش سے لے کر بارک حسین اوبامہ تک پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے اور ڈومور کا مطالبہ کرتے رہے۔ کوئی یہ سمجھنے کو تیار نہ تھا کہ پاکستان کے قیام سے پہلے افغانستان برطانیہ کا قبرستان ثابت ہو چکا ہے‘ وہ برطانیہ جس کی حدود میں سورج غروب نہ ہوتا تھااور صدیوں قبل کئی فاتحین افغانستان سے ناکام و نامراد لوٹے‘ سوویت یونین کی شکست و ریخت کو امریکہ اپنی اور اتحادیوں کی دولت حکمت عملی‘ وار مشینری اور عیّاری کا نتیجہ سمجھتا رہا ‘حالانکہ عقل والوں کے لئے پہلی افغان جنگ میں بہت سی نشانیاں تھیں۔9/11کے بعد پاکستان نے امریکہ کو باور کرانے کی سعی کی کہ وہ طالبان حکومت سے مذاکرات کا راستہ اختیارکرے مگر دنیا بھر کو مذاکرات کی افادیت سے آگاہ کرنے والا طاقت کے نشے میں چور یہ خدائی فوجدار افغانستان کے طالبان اور کوہ و دمن کو ڈیزی کٹربموں سے تہس نہس کرنے پر تل گیا اور ہوش اس وقت آئی جب صدر ٹرمپ نے ڈیپ سٹیٹ سے سترہ اٹھارہ سال پر محیط جنگ کے اخراجات اور امریکہ کو حاصل ہونے والے فوائد کا حساب مانگا۔ پاکستان پر اس دوران ڈبل گیم کا الزام لگا‘ کوئٹہ شوریٰ کو پناہ دینے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھر پور کردار ادا نہ کرنے کا پروپیگنڈا ہوا اور صدر ٹرمپ نے بالواسطہ طور پر نمک حرامی کا طعنہ دیا مگر بالآخر پاکستان کا یہ موقف مان لیا گیا کہ مسئلہ افغانستان کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں اور طالبان سے مذاکرات کی میز پر بیٹھ کرکچھ لو‘ کچھ دوکے اُصول کے تحت معاملہ فہمی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ دوہا مذاکرات کی کامیابی میں پاکستان کے کردار کا امریکی سول و عسکری انتظامیہ کھلے دل سے اعتراف کر رہی ہے اور اب مطالبہ یہ ہے کہ وہ افغان طالبان اور اشرف غنی انتظامیہ کے مابین براہ راست مذاکرات کی راہ ہموار کرائے۔ کوئی مانے نہ مانے یہ پاکستان سے ڈومور ہے اور پاکستان نے اس حوالے سے اگر کوئی دو ٹوک یقین دہانی کرائی ہے تو اپنے آپ کو ایسی مشکل میں ڈال لیاہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن ۔افغانوں کی مذاکراتی صلاحیت کا اندازہ امریکیوں کو ہو چکا ہے۔یہ سادہ لوح مذاکرات کار کسی ترغیب کو خاطر میں لاتے ہیں نہ دبائو سے متاثر ہوتے ہیں۔ حاضر جوابی ان کی مشہور ہے۔ کہتے ہیں کہ مذاکرات کے ابتدائی مراحل میں جب امریکی مذاکرات کار نے طالبان وفد سے کہا کہ ہم آج سے آپ کے دوست ہیں اور مذاکرات کی کامیابی کے بعد دوستی مزید گہری ہو گی‘ ہم چاہتے ہیں کہ انخلا کے بعد افغانستان کو اندرونی اور بیرونی یورش اور جارحیت سے بچانے کے لئے چند ہزار فوجی کابل اور گردو نواح میں موجود رہیں ‘یہ فوجی اڈہ آپ کے مفاد میں ہو گا تو جواب ملا ’’ٹھیک ہے جب ہم دوست ہو گئے تو پھر تکلف اور جھجک کیا‘ ایک فوجی اڈہ ہمیں بھی واشنگٹن میں قائم کرنے دیں تاکہ کسی کو یہ الزام لگانے کا موقع نہ ملے کہ امریکہ انخلا کے باوجود افغان سرزمین پر موجود بلکہ قابض ہے‘‘۔ امریکی مذاکرات کارٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بن گیا۔ اشرف غنی حکومت کے بارے میں طالبان کا موقف یہ ہے کہ افغان عوام کی نمائندہ ہے نہ افغانستان کے قومی مفاد کی محافظ۔ یہ غیر ملکی طاقت کی مسلط کردہ کٹھ پتلی حکومت ہے جس سے بطور سیاسی قوت تو مذاکرات ہو سکتے جائزاور قانونی حکومت کے طور پر نہیں۔ ظاہر ہے امریکہ کی طرف سے فوجی انخلا کے اعلان سے پہلے طالبان ‘ اشرف غنی براہ راست مذاکرات کا مطلب اس کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے لہٰذا یہ مرحلہ باضابطہ معاہدے اور انخلا کے اعلان کے بعد ہو گا۔ ایسی صورت میں افغان طالبان اور کابل حکومت کے مابین مذاکرات کا ڈول ڈالنا مشکل ترین مرحلہ ہے۔ پاکستان کی سول و فوجی قیادت کو اس کا احساس ہے مگر عمران خان جس طرح کے ناتجربہ کار‘ عجلت پسند اور چوں چوں کا مربّہ مشیروں میں گھرا ہے ان سے ڈر لگتا ہے۔ مشیروں اور مقربین خاص کی ایک قسم تو وہ ہے جنہیں افغان طالبان اورتحریک طالبان پاکستان میں فرق معلوم نہیں اور ہر باریش شخص سے خدا واسطے کا بیرہے۔ بعض ان میں ایسے ہیں جو فوجی حل کے حق میں رہے اور جنہیں آج تک یہ علم نہیں کہ امریکہ افغانستان میں فوجی شکست کے بعد باعزت پسپائی کا طلب گار ہے۔ دوسری قسم ان جلد بازوں کی ہے جو راز کو راز رکھنے کے اہل نہیں ‘ریاست اور حکومت کے مابین باریک فرق کا ادراک نہیں رکھتے‘ کس وقت کون سی بات کہنی اور کون سی چھپانی ہے ان کی بلا سے۔ افغان طالبان نے آگ و خون کا دریا عبور کر کے دنیا کی واحد سپر پاور ہی نہیں اس کے چالیس سے زائد اتحادیوں کی جدید اسلحہ سے لیس افواج کو شکست دی ہے ۔وہ پاکستان کے کردار کا اعتراف کرتے ہیں مگر اپنی مرضی اور منشا کے خلاف کسی کی بات مانتے ہیں نہ دبائو قبول کرتے ہیں جبکہ امریکہ جلد از جلد اپنی فوجی شکست کو سیاسی و سفارتی کامیابی یا باعزت پسپائی میں بدلنے کا خواہاں ہے۔ میری معلومات کے مطابق درپردہ رابطوں کا سلسلہ جاری ہے اور نومبرسے قبل انخلا کی تاریخ طے پا سکتی ہے۔ لیکن اگر اشرف غنی اپنی ضد پر ڈٹے رہے‘ آئین میں ترمیم یا نئے آئین کی تشکیل پر راضی ہوئے نہ عبوری حکومت کے قیام کو تسلیم کیا تو دو طرفہ مذاکرات کی نوبت نہیں آ سکتی اور دوہا مذاکرات تعطل کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس صورت میں امریکہ تو شائد ہمیں مجبور کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو اور میری ناقص رائے کے مطابق صدر ٹرمپ انخلا کا یکطرفہ اعلان بھی کر سکتے ہیں لیکن افغان دھڑوں میں اتفاق رائے اور عبوری حکومت کے قیام کے بغیر امریکی انخلا کا مطلب افغانستان میں ایک بار پھر طویل خانہ جنگی کا آغاز ہو گا۔1992ء سے شروع ہونے والی خانہ جنگی سے زیادہ خون ریز اور صرف پاکستان ہی نہیں ‘پورے خطے کے لئے تباہ کن۔ امریکی صدر نے ایک کروڑ افراد کی ہلاکت کا اشارہ دے کر یہ جتلانے کی کوشش کی ہے کہ واشنگٹن میں کہیں نہ کہیں ایٹم بم گرا کر افغانستان میں شکست کا بدلہ چکانے کی خطرناک سوچ موجود ہے جبکہ کسی بھی فریق کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بروقت معاہدہ نہ ہوا تو ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا خارج ازامکان نہیں‘ پاکستان کے فیصلہ ساز پرامید ہیں کہ وہ افغان طالبان کو امریکہ کی طرح اشرف غنی حکومت سے مذاکرات پر آمادہ کر لیں گے کہ ستر ہ یا اٹھارہ سالہ جنگ کی تباہ کاریوں کا احساس ملا ہبیت اللہ اخونزادہ اور ان کے ساتھی کمانڈروں کو ہے اور افغان عوام کے مصائب سے آگاہ ہر شخص پرامن حل کا خواہش مند۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر طالبان ماضی کی طرح بدک گئے تو؟ امریکہ کی ڈیپ سٹیٹ نے کوئی حرکت کر دی اور مایوس و شکستہ دل بھارت کوئی چال چل گیا تو؟ خدا کرے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں سنجیدہ سوچ بچار کا عمل جاری رہے اور پاکستان کے عوام کسی نئی مصیبت میں گرفتار نہ ہونے پائیں۔ ویسے بھی امریکہ کی دشمنی سے زیادہ دوستی سے ڈر لگتا ہے کہ سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے بقول امریکہ دشمنوں سے زیادہ دوستوں کے لئے خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ہمارا اپنا تجربہ بھی تو یہی ہے۔