14جولائی 2021ء کی صبح ستائیس سال بعد ایک بار پھر ایسا ہوا ہے کہ طالبان کا سفید پرچم چمن سے تین کلومیٹر پر واقع بارڈر پر لہرایا گیا ہے۔ امریکیوں کے آنے کے بعد اس سرحد کو سخت سے سخت کرنے اور دونوں جانب نشانے باز بٹھا کر اسے گذرنے والوں کے لیئے ناممکن بنانے کی جتنی کوشش ہوئی ہے، شاید دنیا کی چند ایک سرحدوں پر ہی ایسا ہوا ہو گا، جیسے یروشلم کی یہودی بستیوں کی دیوار ، پاکستان بھارت باڑ یا بنگلہ دیش بھارت سرحدی باڑ۔ اس واقعہ کی تصدیق کے لیئے چمن شہر کے لاتعداد لوگوں سے گفتگو کی کہ ان سے میرا تعلق 1988ء سے ہے کہ جب میں وہاں اسسٹنٹ کمشنر تھا اوران سے محبت کا رشتہ آج تک قائم ہے۔ چمن کی اکثریت کا تاثر اور جذبات بالکل ستائیس سال پہلے جیسے تھے ،جب اچانک وہاں طالبان کا پرچم لہرایا تھا اور چمن کے شہریوں کو عصمت اللہ مسلم اور کمانڈر صالح، منصور اور دارو خان کے مظالم سے نجات ملی تھی۔یہ کمانڈر چمن شہر اور اس کے گردونواح سے لوگوں کو اٹھا کر لے جاتے، کنٹینروں میں بند رکھتے اور تاوان وصول کرتے تھے۔ بابِ دوستی پر بھی آج طالبان کا پرچم لہرایا گیا ہے ۔ یہ باب تو اب تعمیر ہوا ہے، پہلے یہ کبھی ایک ایسا راستہ ہوتا تھا، جس پر دونوں جانب کھڑے پہرے دار صرف عوام کے آنے جانے کا لطف لیا کرتے تھے۔ مدتوں قندھار اور گردونواح سے لوگ سخت سردی کے موسم میں چمن آتے۔ یہاں کام کرتے اور پھر واپس چلے جاتے۔ انہیں ’’ششماہی‘‘ کہا جاتا ، کیونکہ یہ لوگ چھ ماہ یہاں رہتے اور چھ ماہ افغانستان ۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں جانب امن اور خوشحالی اور بدامنی و بدحالی مشترک ہوتی۔ گذشتہ بیس سالوں میں امریکی اور عالمی استعمار کا سب سے بڑ اخواب ایک ہی تھا کہ ، ’’افغان قوم کو برصغیر کی ملتِ اسلامیہ خصوصاًپاکستان سے علیحدہ کرنا ‘‘۔یہ خواب 1920ء میں سوویت یونین نے بھی باکو کانفرنس میں دیکھا تھا۔ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کے بعد وہاں بھارتی قونصل خانوںکے ذریعے پاکستان میں ایسے حالات پیدا لردیئے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2670کلومیٹر پر باڑ ناگزیر ہو گئی۔لیکن جغرافیہ کے گرفتار یہ حکمران، تاریخ سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ ایسے ہی جب دیوارِ برلن اٹھائی جا رہی تھی تو گمان یہ تھا کہ ایک طرف کیمونزم راج کرے گا اور دوسری طرف کپیٹلزم، اور یوں دو الگ الگ نظریے ہی لوگوں کو بھی علیحدہ کر دیں گے۔ لیکن پچاس سال گذرنے کے بعد یہ دیوار ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ وہاں بھی دونوں جانب ایک ہی نسل کے لوگ رہتے تھے لیکن یہاں تو یہ لوگ پشتون ہونے کے ساتھ کلمۂ طیبہ کی لڑی میں بھی پروئے ہوئے تھے۔ یہ باڑ اور یہ تقسیم کب ختم ہوگی۔سیدالانبیاء ﷺ کی آخرالزمان میں ہونے والی بڑی جنگوں کی پیش گوئیوں میں جو عالمی نقشہ نظر آتا ہے، ان میں تو ان قومی ریاستوں کی یہ سرحدیں کہیں نظر نہیں آتیں۔لیکن ان تمام بدلتے ہوئے زمینی حقائق اور تاریخ کے اسباق کا منکرپاکستان میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو گذشتہ ستائیس سال سے ’’طالبان فوبیا‘‘کے مرض کا شکا رہے۔ فوبیا کا نفسیاتی زبان میں ترجمہ ، ’’بے دلیل خوف‘‘ (Irrational Fear)ہے۔ یہ طبقہ جدید مغرب کی ٹکسال میںتیار کردہ ہے۔ گذشتہ بیس سالوں میں اس طبقے نے جس طرح عالمی، علاقائی، سفارتی اور حکومتی اصطلاحات کے استعمال میں دوغلے پن، منافقت اور دہرے معیار کا مظاہرہ کیا ہے ،اس کی مثال جدید تاریخ میں نہیں ملتی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکہ سے لے کر آسٹریلیا تک سب ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ اصطلاحات کا استعمال اور ان کی اصل حقیقت دیکھئے: 1۔ افغان نیشنل آرمی: ایسے تین لاکھ کے قریب افراد کا گروہ جسے امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد ہزاروں ڈالر تنخواہ اور مراعات کے بل بوتے پر بھاڑے کے ٹٹو (Mercenaries) کے طور پر بھرتی کیا ہو، اسلحہ دیکر اپنی ہی قوم کے خلاف لڑایا ہو۔ لیکن ایسی فوج کو پوری دنیا اور میرے ملک کے سرکاری و غیر سرکاری دونوں طبقے ’’افغان نیشنل آرمی ‘‘کہتے رہے۔ اگر خدانخواستہ بھارت اڑتالیس ملکوں کے ساتھ حملہ آور ہوکر پاکستان پر قبضہ کر لے، اس قبضے کو دنیا کے تمام ممالک تسلیم بھی کرلیں، پھروہ ایسی ہی ایک بھاڑے کے ٹٹوؤں کی فوج بھی بنالے تو کیا اسے پاکستان نیشل آرمی کہا جائے گا۔ لیکن ایسی فوج کو افغان نیشنل آرمی کا مرتبہ دے کر یہ دوغلا پن اور منافقت بیس سال روا رکھی گئی۔ 2۔ افغان حکومت: اس سے محبت کا رشتہ استوار کرنے والے ایسے دانشور تھے جو پاکستان کے الیکشنوں کو اس لیئے ناجائز قرار دیتے ہیں کیونکہ ان میں خفیہ والوں کی مداخلت کا الزام ہے۔ لیکن افغانستان کے الیکشن جنہیں بیرونی افواج نے کروایا اور جس میں افغان عوام کی صرف چند فیصد آبادی نے حصہ لیا،ایسی قابض فوج کے تحت بننے والی افغان حکومت کو یہ لوگ قانونی کہتے رہے ہیں۔ افغان حکومت کیلئے ان میں سے کسی ایک کے منہ سے بھی ’’سلیکٹڈ‘‘ کا لفظ نہیں نکلا۔ بہانہ ایک ہی تھا، اسے تو دنیا تسلیم کرتی ہے، ہم کیا کریں۔ 3۔ افغان آئین: یہ ایک ایسی دستاویز مرتب کی گئی جو امریکی نگرانی میں تیار ہوئی اور جس میں عالمی ایجنڈے والی تمام شقیں بھی شامل کی گئیں،مگر یہ لوگ اس آئین کو ایک مشترکہ قومی دستاویز اور افغان قوم کا مشترکہ میثاق کہتے رہے۔ کیا مذاق ہے۔ 4۔ وسیع البنیاد حکومت: بیس سالہ امریکی اور نیٹو کی دہشت گردی کی شکست کے بعد جب طالبان ایک واضح قوت کے طور پر سامنے آئے تو دنیا بھر کو امن کیلئے افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت کی یاد ستانے لگی۔طالبان کو نفاذِ شریعت کے راستے سے ہٹانے کے لیئے اس وسیع البنیاد حکومت کا خوبصورت جال پھیلایا گیاہے ۔ کیا جوبائیڈن اور ٹرمپ یا نریندر مودی اور سونیا گاندھی مل کرایک وسیع البنیاد حکومت بنائیں گے۔ کیا عمران خان، نواز شریف اور زرداری مل کر پاکستان کے مفاد میں حکومت بنائیں گے۔ لیکن یہ مطالبہ صرف طالبان سے کیا جارہا ہے۔ یہ تو وہ چند بنیادی اہمیت کے غاصبانہ تصورات ہیں جن کی روشنی میںافغان حکومت کو ایک جائز حکومت قرار پاتی رہی ہے اور اس کے خلاف لڑنے والے طالبان کو دہشت گرد اور عالمی امن کے لیئے خطرہ قرار دیا جاتا رہاہے۔بیس سال عالمی سطح پر یہ ڈرامہ چلتا رہا۔اقوامِ متحدہ کے ایوانوں سے لے کر دنیا کے ہر ملک میں افغان حکومت اور افغان نیشنل آرمی ایک مسلمہ حقیقت بنی رہی۔ لیکن آج ذلت آمیز شکست کے بعد بھی یہ کوشش جاری ہے کہ افغان طالبان کے کم از کم تصورِ حکومت یعنی شریعت کا ہی راستہ روکا جائے۔عراق میں ایسا کیوں نہیں کیا جاتا۔فرق صرف ایک ہے کہ عراق میں بننے والی حکومت جمہوری لباس پہنے ہوئے ہے اور طالبان نے یہ لباس پہننے سے انکار کیا ہے۔یہی وہ فرق ہے کہ جس کی وجہ سے ستائیس سال پہلے طالبان کے برسرِ اقتدار آتے ہی سے دنیا بھر میں ایک ’’طالبان‘‘ فوبیا پیداہوگیا تھا۔یہ فوبیا آج بھی نفسیاتی طور پر مغرب اور مغرب زدہ لوگوں کے ذہنوں پر مسلط ہے۔ ستائیس سال قبل جس طرح جھوٹ کی بنیا دپر طالبان کا ایک ظالمانہ نقشہ کھینچا گیا تھا اور پھر اسے پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ میں پھیلایا گیا تھا، وہ سب بے بنیاد اور جھوٹا پروپیگنڈہ آج بھی جاری ہے۔ جھوٹ پھیلانا اور جھوٹ گھڑنا مغربی میڈیا کا خاصہ ہے۔ پچھتر سال تک انہوں نے کیمونسٹوں کے خلاف ایسے ہی جھوٹ تراشے ، خوف پیدا کیا اور پھر ان کو شکست دینے کے بعد آج نہ کوئی جیمز بانڈ کا کردار ہے اور نہ ہی ریمبوکی فلمیں۔لیکن طالبان کے معاملے میںسب کچھ الٹ ہوگیاہے۔ ذلّت آمیز شکست مغرب کا مقدر بن چکی ہے۔ فوبیا کے مریض کے بارے میں نفسیات دان کہتے ہیں کہ جب تک وہ کسی ایسی چیز کا سامنا نہیں کرتا جس سے خوفزدہ ہو تو نارمل زندگی گذارتا رہتا ہے لیکن جیسے ہی وہ چیز سامنے آتی ہے تو سب کچھ بھول جاتا ہے اور اس پر ایک ایسا پاگل پن سوار ہوجاتا ہے کہ وہ کسی کے قابو میں نہیںآتا۔جو دانشوردنیا کو طالبان سے ڈرا کر خوفزدہ کیا کرتے تھے آج جب ان کے سامنے طالبان ایک حقیقت کے طور پر آگئے ہیںتو ان سب کے فوبیا کے مرض کا عالم دیدنی ہوگیاہے۔