نارویجن حکومت کے ایک خصوصی طیارے میں طالبان کا ایک اعلیٰ سطحی وفد ہنستا کھیلتا اوسلو ائیرپورٹ اترتاہے۔یہ منظر بہت دلچسپ اور دیکھنے کے لائق تھا کیونکہ کچھ عرصہ پہلے انہی طالبان کو دنیا منہ لگانے کو تیار نہ تھی۔ دارلحکومت اوسلو کے نواح میں ایک ہوٹل میں طالبان وفد کی موجودگی پر نارویجن ہی نہیں بلکہ یورپین پریس نے بھی سخت نکتہ چینی کی۔حتیٰ کہ اس دورے کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے۔ ناروے کے وزیر اعظم جوناس گہر سٹوئر نے تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا: کہ افغانستان میں انسانی بحران کے موضوع پر طالبان وفد کی افغان سول سوسائٹی کے رہنماؤں اور مغربی سفارت کاروں کے ساتھ مذاکرات سنجیدہ اور ضروری تھے ۔اطلاعات کے مطابق بندکمرے میں طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرت کا مرکزی موضوع افغان خواتین کے لیے تعلیم، موجودہ حکومت میں دیگر سیاسی گروہوں کی شمولیت سمیت کئی ایک ایسے موضوعات تھے جو عمومی طور پر مغربی پریس کا پسندیدہ موضوع ہیں لیکن براہ راست طالبان کے ساتھ کوئی بھی ان موضوعات پر بات نہیں کرتاتھا۔ نارویجن سرزمین پر سرکاری میزبانی سے لطف اندوزہونے والے طالبان وفد کی قیادت وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کی۔ طالبان وفد کے ارکان نے دورے کے پہلے روز افغان سول سوسائٹی کے ارکان سے ملاقات کی جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ اگلے دو دن انہوں نے امریکہ، یورپی یونین، برطانیہ، فرانس اور اٹلی کے سفارت کاروں کے ساتھ کثیر الجہتی موضوعات پر گفتگو کی۔ اگرچہ ان ملاقاتوں کو طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے مترادف نہیں قراردیاجاسکتا لیکن یہ اس جانب ایک قدم ضرور ہے۔ طالبان کو بھی موقع ملا کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ براہ راست بات چیت کریں۔ فریقین ایک دوسرے کے نقطہ نظر سے آگاہ ہوں۔ طالبان وفد نے امریکہ، فرانس، برطانیہ، جرمنی، یورپی یونین اور ناروے کے سفیروں سے ملاقات کے بعد کہا کہ ناروے نے ہمیں دنیا کے ساتھ اسٹیج شیئر کرنے کا موقع دیا۔طالبان کے وزیرخارجہ امیر خان متقی نے جو خوشی سے نہال ہورہے تھے میڈیا کو بتایا کہ ان کا دورہ بہت کامیاب رہا۔ مغربی دنیا کے ساتھ ان کا یہ براہ راست پہلا منظم مکالمہ تھا۔متقی کو توقع ہے کہ اس رابطے سے افغانوں کے لیے تعلیم ، صحت اور معاشی امداد کی بحالی کی راہ ہموار ہو گی۔ یاد رہے کہ عالمی برادری نے طالبان کے کابل پر قبضے کے فوری بعد تمام تر امدادی سرگرمیاں بند کردی تھیں۔ یورپی یونین کے سفیر کو اس ملاقات سے امید لگی کہ موسم سرما گزرنے کے بعد طالبان طالبات کے لیے تعلیمی ادارے کھول دیں گے۔ مغرب کو ایک عجیب مخمصے کا سامنا ہے۔وہ طالبان کے ساتھ رابطہ رکھنا چاہتاہے کیونکہ وہ افغانستان کی ایک زندہ حقیقت ہیں لیکن ساتھ ساتھ اسے طالبان کے فکری یا نظریاتی پالیسیوں سے سخت اختلاف ہے۔ وہ اس خدشہ کو حقیقت کا روپ اختیا رکرتادیکھ رہے ہیں کہ اگر افغانستان کی امداد بحال نہ کی گئی تو لاکھوں لوگ خوراک اور ادویات کی کمی کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے عالمی برادری کو مسلسل متوجہ کررہے ہیں کہ وہ افغانستان کے لیے $4.4 ارب ڈالر امداد فراہم کریں۔ جان لیوا موسم سرما سے افغانوں کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔ اس سے بچنے کے لیے بے شمار بین الاقوامی ادارے عالمی برادری سے اپیل کررہے ہیں کہ وہ افغانوں کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد کرے۔ عام افغان شہریوں کو سیاسی اختلافا ت کی بنیاد پر سزا نہ دی جائے۔ دوسری جانب عالمی برادری کے سامنے طالبان ہنگامی مالی امداد خاص طور پر خوراک اور ادویات کے لیے مسلسل دست تعاون داز کررہے ہیں لیکن وہ مغرب کی طرف سے سامنے آنے مطالبات مثلاًخواتین کے حقوق اور کثیر الجماعتی حکومت کے قیام پر سنجیدہ نہیں۔ ناروے اگرچہ کوئی بڑا یا عسکری طور پر طاقت ور ملک نہیں لیکن کئی دہائیوں سے اس کی لیڈرشپ عالمی معاملات بالخصوص تنازعات کے حل میں قائدانہ کردار ادا کرتی آئی ہے۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین مذاکرات کا ڈول انہوں نے ہی ڈالاتھا۔ اوسلو معاہدہ نارویجن کی کوششوں سے ہوا۔ سری لنکن تامل جنگجوؤں اور حکومت کے مابین بھی کسی عشروں تک مسلح تنازعہ چلتارہا۔ ناروے وہاں بھی امن بحال کرانے، فریقین کے درمیان اعتماد کی بحالی اور معاہدہ کرانے کے لیے سرگرم رہا۔ اب افغانستان میں ان کی دلچسپی دیکھ کر خوشی ہوئی۔ ناروے کے کوئی لمبے چھوڑے سیاسی یا عالمی عزائم نہیں ۔ وہ امن سے محبت کرنے والا ملک ہے اور دنیا میں امن کے قیام کے لیے اس نے کئی ایک ادارے بھی بنائے ہیں۔چونکہ ناروے ایک امیر ملک ہے، اس لیے وہ آسانی کے ساتھ اس طرح کی سرگرمیوں کو منظم کرنے کے لیے وسائل بھی خرچ کرنے کے قابل ہے۔ ناروے ہی کی طرح قطر نے بھی امن اور علاقائی استحکام کے لیے کام کرکے دنیا میں بڑا نام کمایا ہے۔ امریکہ کے ساتھ طالبان کے مذاکرات کرانے میں اس کے کلیدی کردار کو دنیا نے سراہا۔ اب بھی قطر افغانستان کے حوالے سے سب سے زیادہ سرگرم ہے۔ لیکن وہ اپنی کوششوں اور کامیابیوں کا زیادہ چرچا نہیں کرتا۔ ناروے اور قطر جیسے ممالک کا آج کی دنیا میں دم غنیمت ہے۔ کیونکہ بڑی طاقتیں عمومی طور پر جنگ وجدل یا پھر ہاروجیت کے پیرائے میں گفتگو کرتی ہیں ۔ دنیا میں ایسے ممالک اور تنظیموں کی اشد ضرورت ہے جو خالصتاً انسانی ہمدرد ی کی بنیاد پر تنازعات کے حل میں مدد کریں۔بدقسمتی سے مغربی ممالک جو انسانی حقوق کے بہت بڑے علمبردار ہیں جب ان کے معاشی مفادات کا اصولی موقف کے ساتھ ٹکراؤ ہوتاہے تو وہ اندھے، گونگے اور بہرہ بن جاتے ہیں۔بقول وزیراعظم عمران خان کے وہ مقبوضہ کشمیر کا ذکر گول کرجاتے ہیں۔ اسی طرح افغانستان میں خواتین کی تعلیم اور صحت کے حوالے سے ان کی فکرمندی قابل تحسین ہے لیکن بھارت اور مشرق وسطیٰ کے کئی ایک ممالک میں خواتین کے ساتھ سرکار کے سلوک پر ان کی زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں۔ طالبان کے ساتھ ناروے نے مذاکرات کی ایک کھڑکی کھولی ہے۔ امید ہے کہ طالبان اس موقع کو ضائع نہیں کریں گے اور مکالمے کے ذریعے سفارتی میدان میں مزید کامیابیاں حاصل کریں گے۔ یہ کامیابیاں محض زبانی جمع خرچ سے نہیں بلکہ ٹھوس عملی اقدامات سے ہی حاصل ہوسکتی ہیں۔ ٭٭٭٭٭٭