افغان حکومت کی طرف سے بعض امور میں وعدہ خلافی پر طالبان نے افغان فورسز کے خلاف کارروائیاں شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ افغانستان گزشتہ 4 دھائیوں کی جنگ کے باعث راکھ کا ڈھیر بن چکا ہے۔ بد امنی کے باعث 50 لاکھ کے لگ بھگ افغان مہاجرین پاکستان اور ایران میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ افغانستان میں خانہ جنگی سے نہ صرف افغان عوام کی جان و مال محفوظ نہیں بلکہ باہمی مخاصمت خطہ کے عدم استحکام کی وجہ بن رہی ہے۔ سانحہ 9/11 کے 2 دھائیوں بعد امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدے سے پہلے سات روز افغان عوام کو امن نصیب ہوا تھا۔ 29 فروری کے امن معاہدے کے بعدجنگ سے تباہ حال ملک میں ترقی و خوشحالی کی امید پیدا ہوئی تھی مگر بدقسمتی سے معاہدے کے دوسرے روز ہی افغان صدر اشرف غنی نے معاہدے کے مطابق 5 ہزار افغان طالبان قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کرکے امن معاہدہ کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی، جس کے ردعمل میں افغان طالبان نے بھی قیدیوں کی رہائی تک نہ صرف انٹرا افغان مذاکرات سے انکار کر دیا بلکہ افغان فورسز کے خلاف کارروائیاں شروع کرنے کا اعلان بھی کیا۔ ان حالات میں امریکی حکام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ افغان حکومت کو طالبان کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی پاسداری کا پابند بنائیں تاکہ قیدیوں کی باہمی رہائی کے بعد افغان حکومت اور طالبان کے مابین شراکت کا فارمولا طے ہو اور تباہ حال افغانیوں کو امن نصیب ہو سکے۔