امریکی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان کے لئے عمل کا وقت آ گیا۔ اس سے پہلے وزیر اعظم پاکستان کے دورہ امریکہ کے دوسرے روز وائٹ ہائوس نے اپنے اعلامیے میں بتایا تھا کہ پاکستان کو ڈومور کا کہیںگے۔ مطلب یہ نکلا کہ ڈومور کی لسٹ اسی بیچ پاکستان کے حوالے ہو گئی ہے۔ اس میں کیا کچھ ہے‘ یہ سامنے نہیں آیا ،لیکن ادھر ادھر کے ذرائع کے مطابق طالبان کو امن معاہدے کے لئے آمادہ کرنے کے علاوہ حقانی نیٹ ورک‘ دوسرے جہادی گروپس کے خلاف کارروائی‘ مدرسہ اصلاحات کے حوالے سے ڈومور کا کہا گیا ہے۔ اس بار اچھی بات یہ ہوئی کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات’’برابری‘‘ کی سطح پر آ گئے۔ ایسا حکومت نے کہا ہے‘ اس کی بات کی تردید تو نہیں کی جا سکتی۔ پہلے بھی پاکستان نے برابری کی سطح پر آ کر ڈومور کی لسٹ وصول کی تھی۔ اس بار بھی عمران خاں نے صدر ٹرمپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ فہرست وصول پائی۔ ہاں ایک فرق پہلے دور برابری اور موجودہ والے میں ہے یہ کہ تب امریکہ نے مسئلہ کشمیر حل کرانے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اس بار ثالثی کی پیشکش ہی کو کافی سمجھا گیا۔اگرچہ اسے بھارت نے مسترد کر کے معاملہ برابر کر دیا۔ ہر طرف سے ایک ہی بات کہی جا رہی ہو تو وہ لازماً سچ ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ بات بھی بالکل سچ ہے کہ دورہ کامیاب رہا۔ ہر چند معاشی اعداد کی توقع پوری نہیں ہوئی اور تجارت بڑھانے کی ضرورت پر اتفاق کیا گیا لیکن عملدرآمد کا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا۔ محب وطن تجزیہ نگار یہ خبریں لا رہے تھے کہ کروڑوں ڈالر تو جاتے ہی ملیں گے‘ مزید کروڑوں واپسی پر پیچھے پیچھے چلے آئیں گے۔ خاصان خدا کہہ رہے ہیں کہ دورہ کامیاب ہے تو کامیاب ہے۔ ٭٭٭٭٭ ایک تجزیہ نگار نے لکھا ہے کہ عمران خان امریکہ کی گڈ بک میں آ گئے۔ سچ یہ ہے کہ وہ شروع ہی سے گڈ بک میں تھے۔ بطور حکمت عملی بہت سے معاملات کیموفلاج کر دیے جاتے ہیں۔ پانامہ ایکشن پلان کی ابتدا ہی سے لوگوں کو پتہ چل گیا تھا کہ گڈ بک میں کون ہے۔ نواز شریف کبھی امریکہ کی اس گڈ والی بک میں نہیں رہے۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد سے گرے لسٹ میں آ گئے تھے۔ سی پیک کے بعد بلیک لسٹ میں ڈال دیے گئے۔ پھر اسی لسٹ سے پانامہ ایکشن پلان نکلا۔ ٹرمپ نے کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں رہنے دیا۔ ملاقات کی ’’لائیو نشریات‘‘میں انہوں نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ پچھلی حکومت نے ہمارے لئے کچھ نہیں کیا۔ بلکہ وہ ہمارے خلاف جا رہی تھی۔ لیکن آپ ایسے نہیں ہیں۔عمران خاں بھی کوئی بات چھپانے پر یقین نہیں رکھتے۔ انہوں نے بھی برابری کی سطح پر آ کر یہ اعلان کیا کہ جو وعدے کئے ہیں، پاکستان انہیں پورا کرے گا۔ ٹرمپ خوش ہوئے۔ رات کو امریکی معززین کو یہ کہہ کر ممنون احساس کر دیا کہ بھئی ہم آپ ہی کی جنگ تو لڑ رہے ہیں۔ یہ بات بھی انہوں نے برابری کی حیثیت میں کہی۔ یوں اہل وطن کو بھی یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ دس پندرہ برس تک عمران خان جو کہا کرتے تھے کہ ہم امریکی جنگ لڑ رہے ہیں تو اس کا مطلب کیا تھا۔ لوگوں نے سمجھا خاں صاحب اعتراض کر رہے ہیں‘ حالانکہ وہ ’’اعتراف‘‘ کر رہے تھے۔ ٭٭٭٭٭ امریکہ کا مطالبہ ہے‘ طالبان سے سمجھوتہ کرایا جائے۔ اس پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے لیکن ایک بات کوئی بھی نہیں لکھ رہا ۔ اور وہ یہ ہے کہ طالبان آخر سمجھوتہ کیوں کریں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ اس کے فوجی انخلا پر ملک میں مخلوط حکومت ہو جو الیکشن کرائے اور یہی بات طالبان کو کسی صورت قبول نہیں۔ امریکہ نے اٹھارہ سال پہلے جب افغانستان پر قبضہ کیا تھا تو شمال کے دس فیصد مختصر سے علاقے کو چھوڑ کر‘ باقی تمام 90فیصد رقبے پر طالبان کی حکومت تھی۔ طالبان چاہتے ہیں کہ امریکہ جائے تو اس طرح کہ ہماری حکومت ہمیں واپس مل جائے۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ امریکہ ہماری حکومت بنائے‘ اس کے برعکس‘ ان کی خواہش ہے کہ امریکہ چاہے دو برس بعد جائے یا تین برس بعد‘ یہاں سے جائے‘ اشرف غنی سے حکومت ہم خود لے لیں گے۔ سارے ملک کی نہ سہی آدھے پونے ہی کی سہی۔ مخلوط حکومت کا مطلب ہے‘ طالبان اس کے جزوی حصے دار ہوں گے۔ جتنا حصہ طالبان کو ملے گا‘ اتنا ہی اشرف غنی حکومت کا بھی ہو گا اور اتنا ہی شمالی اتحاد والوں کا، دیگر افغان جماعتوں کو بھی تھوڑا تھوڑا حصہ ملے گا۔ یہاں تک کہ گلبدین حکمت یار کو بھی جو ماضی میں سی آئی اے کا افغانستان میں سب سے بڑا اثاثہ ہوا کرتے تھے۔ اب وہ تو نہیں رہے اثاثہ تو پھر بھی ہیں۔ ایسی مخلوط حکومت میں طالبان کیا کریں گے؟ مطلب امن کی منزل امریکہ کی مرضی کے مطابق آنے سے رہی۔ مذاکرات سے امریکہ کا دل پسند نتیجہ نکلنے کا امکان نہیں ہے۔ دیکھیں اب ’’مور‘‘ کیسے’’ڈو‘‘ ہوتا ہے۔! ٭٭٭٭٭ کامیاب دورہ امریکہ کا کوئی اور نتیجہ نکلا ہو یا نہ نکلا ہو’’برکت‘‘ ضرور ہوئی ہے کہ ’’ہمارے مخالف چور ڈاکو ہیں‘ کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘‘ کی تسبیح اب ہزار دانہ ہو گئی ہے۔ پتہ نہیں لوگ بامزہ ہوتے ہیں یا بدمزہ‘ کسی بھی حکومتی وزیر مشیر ترجمان ‘ رہنما سے کسی بھی موضوع‘ مسئلے‘ معاملے‘ صورتحال پر سوال کیا جائے تو جواب ایک ہی ہوتا ہے۔ اپوزیشن چور ہے‘ ڈاکو ہے‘ ملک کھا گئی۔ خزانہ چوری کر لیا۔ خیر ‘ ایک لطیفہ سنئے’ پاٹھ شالے میں پرکشا کے دوران ایک چھاتر(سٹوڈنٹ) سے کہا گیا۔ گائے پر مضمون لکھو۔ اس نے لکھا: گائے میری ماتا ہے آگے کچھ نہیں آتا ہے