15اگست 2021ء کے بعدکابل کی شاہراہوں پرطالبان کی 313 بدری بریگیڈ کی پیٹرولنگ ہویا قندھار ایئرپورٹ پر امریکی ہیلی کاپٹر بلیک ہاک کی ایک نمائشی اس سے طالبان نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ طالبان کوئی ناتجربہ کار سپاہیوں کا گروہ نہیں بلکہ خداکے یہ صف شکن شیر اعلیٰ تربیت یافتہ ہیں۔ 15 اگست کو فتح کابل کے بعد طالبان مکمل جنگی وردیوں میں امریکی ہتھیاروں سے لیس افغانستان کے تمام شہروں میں گشت کررہے ہیں، دیکھ کر انہیں دنیا کی دیگر سپیشل فورسز سے الگ نہیں سمجھا جا سکتا ۔ یہ جدیدترین اسلحہ امریکہ کی بنائی ہوئی اورانڈیا سے تربیت لینے والی افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سکیورٹی فورسز کے پاس تھا ۔ آیئے ایک اجمالی نظر ڈالتے ہیں کہ طالبان نے 20 سالہ جہاد فی سبیل اللہ میںامریکہ اوراس کے اتحادیوں کوشکست دینے کے بعدکتنا مال غنیمت حاصل کیا ۔ طالبان کے ہاتھ جدیدترین جنگی طیاریوں پر مشتمل ایئرفورس ایک مکمل فضائیہ آچکی ہے۔’’امریکی ڈیفنس نیوزویب سائٹ ‘‘ کی پورٹ کے مطابق امریکا نے اپنی نگرانی میں قائم کردہ افغان فضائیہ کو 211 فکسڈ ونگ یا ہیلی کاپٹر فراہم کیے تھے لیکن ان میں سے30 جون تک صرف167 اڑنے کے قابل تھے۔مگر امریکی محکمہ دفاع نے طالبان کے قبضے میں لیے گئے طیاروں کی تعداد واضح نہیں کی ہے۔ تاہم خصوصی میگزین’’جینز ڈیفنس‘‘ نے سیٹلائٹ تصاویر شائع کیں جن میں افغان ایئر فورس کے تقریبا چالیس طیارے دکھائے گئے جو کہ طالبان کے ہاتھوں میں آنے سے روکنے کے لیے گزشتہ چند دنوں میں ازبکستان پہنچائے گئے تھے۔ جون2021ء تک امریکی چھترچھائے میں قائم کی گئی افغان فضائیہ 23 A-29 لڑاکا طیارے ، چارC-130 کارگو طیارے اور مجموعی طور پر 33 Cessna Caravan فوجی نقل و حمل اور ہلکے لڑاکا طیارے چلا رہی تھی۔ سابق کٹھ پتلی حکومتوں کے تابع افغان فضائیہ نے تقریبا150 ہیلی کاپٹر بھی چلائے جن میں امریکی ساختہUH-60 بلیک ہاک اور MD-530s اٹیک ہیلی کاپٹر بھی شامل ہیں جو مشین گنوں اور میزائلوں سے لیس ہیں۔مال غنیمت کے طور پرطالبان کے قبضے میں آنے والے بلیک ہاک ہیلی کاپٹروں میں زبردست جارحانہ خصوصیات ہیں، کیونکہ وہ دو انجنوں سے لیس ہیں اور ان کا مقصد افغانستان کی سخت آب و ہوا کے دوران استعمال کرنا ہے۔یہ ہیلی کاپٹر انخلاء اور لینڈ لینڈنگ میں مدد کرتا ہے یہ11 سپاہیوں کو لے جانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے اور مشین گن سے لیس ہے۔ بلیک ہاک ہیلی کاپٹروں کی بے پناہ صلاحیتوں کے باوجود A-29 ہلکا جنگی طیارہ زیادہ مہلک اور زیادہ ہتھیاروں سے لیس ہے۔ A-29 زمینی افواج کو فضائی مدد فراہم کرتا ہے۔ لیزر گائیڈڈ بم لانچ کر سکتا ہے۔ وسیع پیمانے پر ہتھیار لے جا سکتا ہے اور کم لاگت والے جنگی طیارے کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے جو کم خطرے والے ماحول میں کام کر تا ہے ۔ لڑاکا طیاروں کے برعکس جو تیزی سے اڑنے اور جنگی مشقیں کرنے کے لیے تیار کیے گئے ہیں افغانستان میں A-29s میں تبدیلی کی گئی ہے جس کی وجہ سے وہ زمین پر اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے آہستہ اور کم سطح پر اڑنے کے قابل ہیں۔ واشنگٹن میں فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسی میں سینٹر فار ملٹری اینڈ پولیٹیکل پاور کے سینیر ڈائریکٹر بریڈلی بوومن کا خیال ہے کہ طیاروں کو آپریٹ کرنا طالبان کے لیے ناممکن کام نہیں ہو سکتا۔بوومن نے ڈیفنس نیوز کو بتایا کہ ایسے منظر کا تصور کرنا ناممکن نہیں ہے جہاں انہیں پائلٹ ملیں۔عین ممکن ہے کہ وہ امریکہ کی بنائی ہوئی افغان ایئر فورس کے سابق پائلٹوں کو اپنی صفوں میں شامل ہونے پر تیارکرلیں۔ امریکہ نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے افغان کٹھ پتلی انتظامیہ کی فوج کو85 ارب ڈالر کا اسلحہ دیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ وہ سارا اسلحہ طالبان کو مال غنیمت کے طور پرحاصل ہوچکا ہے۔ طالبان کوائیرفورس کے علاہ زمینی فوج کے لئے جوجدیدجنگی کٹس اور جوجدید ہتھیار مال غنیمت میںملے ہیں ان کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔فوجی ٹرکس8,000 ہومیوبکتربندگاڑیاں 22,174 مشین گنوں سے لیس ایم آئی ونون سیون گاڑیاں634 ایم ایکس ایکس پرومنی پروف وھیکلز155ایم ون ون تھری آرمڈپرسنل کیرئیرس169فوجی پیک اپس42,000 مختلف ساخت کی تین لاکھ 58 ہزار 530 رائفلیں، 64 ہزار سے زیادہ مشین گن، 25،327 گرینیڈ لانچر اور 22،174 ہمویز (تمام اقسام کی سطحوں پر چلنے والی گاڑیاں) شامل تھیں۔ جبکہ امریکہ میں قائم سپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن (سگار) کی ایک رپورٹ کے مطابق 2017ء میں تقریبا 20 ہزار ایم -16 رائفلیں فراہم کیں۔ سگار کے مطابق اس کے بعد کے برسوں میں اس نے2017ء اور2021ء کے درمیان افغان سکیورٹی فورسز کو کم از کم تین ہزار 598 ایم-4 رائفلیں اور3،012 ہمویز گاڑیاں فراہم کیں۔ امریکی پروردہ افغان فوج کے پاس موبائل سٹرائیک فورس گاڑیاں بھی تھیں جو شارٹ نوٹس پر استعمال کے لیے تھیں۔ یہ4x4 ورک ہارسز گاڑیاں لوگوں یا سامان لے جانے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں۔طالبان اپنے نئے ملنے والے اسلحہ کے ساتھ کیا کر سکتے ہیں؟ رینڈ کارپوریشن کے ایک محقق اور امریکی وزارت دفاع برائے پالیسی کے دفتر میں افغانستان امور کے سابق ڈائریکٹر جیسن کیمبل کہتے ہیں کہ طالبان سابق افغان پائلٹوں کو ان طیاروں کو اڑانے کے لئے بلالیں گے۔جبکہ طالبان روسی ساختہ ایم آئی-17 طیارے کو چلانے کے قابل ہوں گے کیونکہ اس ساخت کے طیارے کئی دہائیوں سے ملک میں موجود ہیں۔اس کے علاوہ جدید ہتھیاروں سے طالبان کا ہم آہنگ ہونا بہت آسان ہے۔ طالبان کی پیدل فوج زمینی سطح پر استعمال ہونے والے ہتھیاروں سے ہم آہنگ ہیں جنھیں انھوں نے اپنے قبضے میں لیا۔کئی برسوں کے دوران قبضہ کی جانے والی چوکیوں میں ہتھیار چھوڑ کر بھاگنے والے فوجیوں کے وجہ سے انھیں اس کا تجربہ ہے۔ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ انھیں جدید ترین بندوقیں، رائفلیں اور گاڑیاں سنبھالنے کا تجربہ ہے اور افغانستان میں ان کی کافی تعداد ہے۔