ہم جانتے ہیں کہ افغانستان میں مغربی ممالک کی کٹھ پتلی حکومت کے راتوں رات ہوا میں تحلیل ہو جانے پر امریکہ شرمسار ہے، مغربی ممالک ششدر ہیں،بھارت میں صفِ ماتم بچھی ہے اور پاکستان میں مغرب زدہ لبرل انتہا پسند پہلے سے زیادہ چڑچڑے پن کا شکار ہیں۔جبکہ حال ہی میں پاکستانی پختونوں کے تحفظ کے نام پر جنم لینے والاگروہ، اشرف غنی ٹولے اور امریکی امداد پر پلنے والی افغان نیشنل آرمی کے دھوپ میں رکھی برف کی طرح پگھل جانے کے بعد بے سرو سامانی کے عالم میں شکست و ریخت کا شکار ہے۔ گزرے دو روز میں ہمارے ہاں دو شخصیات دنیا سے رخصت ہوئیں ہیں۔ اُدھر ’ہم پاکستانی اور پاکستان ہماراہے ‘ کی صدائے مستانہ پکارنے والے سید علی گیلانی سبز ہلالی پرچم میں لپٹے تو اِدھرکراچی کے ایک نجی ہسپتال میں عطا اللہ مینگل نے وفات پائی ۔بلوچستان کے وزیرِاعلیٰ بنے تو پولیس کے سرکاری اسلحہ خانوں سے ہزاروںبندوقیں اپنے ذاتی لشکر میں بانٹ دی تھیں۔بغاوت اور سرکشی پر آمادہ لشکر کی سرکوبی کے لئے بھٹو صاحب نے فوج بھیجی تو سرکاری اسلحہ خانہ سے ہتھیایا گیا سرکاری اسلحہ ہی’قومی مزاحمت‘ میں کام آیا۔ پنجاب سے چندامیر زادے’پراریوں‘کے ساتھ مل کر فوج سے لڑنے کو پہاڑوں پر پہنچے تو سخت کوشوں کی تفریح طبع کا سبب بنے۔انہی میں سے ایک صاحب آج ایک مشہور تجزیہ کار ہیں اورتفریح طبع کا سامان کرتے ہیں ۔لگ بھگ پچاس سال بعدمگر اب انکی ’چڑیا‘ تنہا نہیںہے۔مغربی نشریاتی اداروں کی اردو نشریات والوں کے ساتھ مل کر ایڑی چوٹی کا زور لگا کرپاکستان کو ایک ایسا ملک ثابت کرنے کی کوشش کی جو جمہوریت ، آئین و قانون کی حکمرانی اورسویلین بالا دستی سے کوسوں دور ہے۔ جہاں عورتیں اور اقلیتیں غیر محفوظ ہیں۔ طالبا ن کے آنے کے بعد اب اس نیٹ ورک کے کارندے افغانستان میں عورتوں کے غیر محفوظ ہو جانے کا واویلا کر رہے ہیں۔کشمیری عورتوں کی عصمت و حرمت ان کے ہاں کچھ اہمیت نہیں رکھتی۔بھارت کے قیدی سید علی گیلانی کی رحلت پر ایک حرف تعزیت میں نہیں لکھا گیا۔ یہی نہیں،طالبان کے باب میں بھی یہ نیٹ ورک بھارت کا ہم زبان ہے۔ بھارت کی خواہش ہے کہ امریکہ طالبان کو تنہاچھوڑ دے۔یہ ضرورہے کہ امریکیوں کی تعلیم و تربیت کا بنیادی محور اندرونی (Domestic)معاملات ہی رہتے ہیں۔ایک سے بڑھ کر ایک تعلیمی ادارہ مگر ان کے ہاں موجود ہے۔ کیا دنیا کی بہترین امریکی یونیورسٹیوں میں قوموں کی تاریخ نہیںپڑھائی جاتی؟ ہمارے ملکوں میں مخصوص سیاسی خاندانوں، فوجی آمروں ، اشرف غنی جیسے کرداروں ، انتہا پسند لبرلز،مرکز گریز گروہوں اور بھارت جیسے ملکوں کی پرورش میںہی کب تک خطے کے اندر اپنے مفادات کی آبیاری ڈھونڈتے رہیں گے؟ کٹھ پتلی افغان حکومت گزشتہ بیس برسوں سے مغربی ممالک اور آئی ایم ایف کی امداد کے سر پر چل رہی تھی۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ بیرونی امداد منجمد ہو جانے کے بعدکابل میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی میں مشکلات ہیں۔بنک کھاتہ داروں کو بیس ہزار افغانی سے زیادہ کی ادائیگی نہیں کر رہے۔صورت حال مزید بگڑتی ہے تو مالی وسائل کے لئے انحصار سمگلنگ اور ڈرگ منی پرہی بڑھے گا۔سرکاری اداروں کو چلانے کے لئے تربیت یافتہ افرادی قوت کی ضرورت ہے مگر ایک منظم منصوبے کے تحت ہنر مند افغانیوں کو مغربی ممالک میں پناہ کے خواب دکھائے جا رہے ہیں۔ تاثر دیا جا رہا ہے کہ عام افغانی طالبان سے خوفزدہ ہے۔اس ماحول میں اب یہ ا فغان ڈاکٹرز،انجینئرز اور معیشت دانوں کی ذمہ داری ہے کہ سر سبز چراہ گاہوں کی جانب بھاگنے کی بجائے اپنے ملک کا نظم و نسق سنبھالنے کو آگے بڑھیں۔پڑھے لکھے افغانیوں کو رونا دھونا بند کر کے اب اوروں پر نہیں خوداپنے دست وبازو پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ضرورافغانستان غیر ملکی طاقتوں کا قبرستان رہاہے، لیکن نسل در نسل کیا افغانیوں کے نصیب میں بھی زندہ در گور جینا ہی لکھا ہے؟ طالبان کو یاد رکھنا ہو گا کہ علاقہ فتح کرنا ایک واقعہ ہے۔ مفتوحہ علاقوں کا نظم و نسق مگر یکسر مختلف معاملہ ہے۔ ایک ا ندازہ ہے کہ دنیا کے کئی ممالک طالبان سے معاملہ کرنے کو آمادہ ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ بھارت جہاں اشرف غنی حکومت تحلیل ہونے کے بعد ہیجان برپا ہے، وہاں بھی طالبان سے تعلقات کار قائم کرنے کی سوچ پنپ رہی ہے۔تاہم دنیا طالبان کے رویوں کو بغور دیکھ رہی ہے۔ خدشات بے شمار ہیں اور بے جا نہیں ہیں۔طالبان کو ایک ایک قدم پھونک کر رکھنا ہو گا۔آج ہی کشمیر کے مسلمانوں کی حمایت میں دیئے گئے بیان کے ساتھ ہی طالبان نے کسی ملک کے خلاف عسکری کاروائیوں کے امکانات کو رد کرتے ہوئے دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ توقع یہی ہے کہ طالبان کی وضاحت کے باوجود کشمیریوں سے متعلق ان کے حالیہ بیان کو بھارت میں خوب اچھالا جا ئے گا۔ ضرورت ہے کہ پاکستان کے اندر وہ طبقہ جو کشمیر کی آزادی کا خواب اب طالبان کی مسلح کارروائیوں کی صورت میں دیکھ رہا ہے، اپنی گفتگو میں ہوشمندی کا مظاہرہ کرے۔ اندازہ یہ بھی ہے کہ طالبان کے ماضی سے جڑے تمام تر خدشات کے باوجودان سے متعلق ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان کے اندرعمومی طور پر خیر سگالی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔تاہم طالبان کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ کسی بھی گروہ کو افغانستان کی سر زمین کسی بھی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں۔ خود کو’ پختونوں کے تحفظ ‘پر مامور کرنے والے جو کچھ سال پہلے پاکستانی سر زمین پر امریکی ڈرون حملوں کا خیر مقدم کیا کرتے تھے، اب افغانستان میں ویسے ہی حملوں کی مذمت کر رہے ہیں۔حال ہی میںبے آسرا ہو جانے والے اس گروہ کی حالت قابل دید ہے۔تاہم آنے والے دنوں میں اگر بھارت کے ایماء پراِن مرکز گریز پاکستان مخالفوں اور عسکریت پسند جتھوں کے مابین’ پاک افغان سرحد‘ سے متعلق سوچ ہم آہنگ ہو جاتی ہے توبد امنی کے ستائے اس خطے کی یہ بہت بڑی بد نصیبی ہو گی۔