افغانستان میں طالبان نے 19صوبوں پر قبضہ کر کے مزید علاقوں کی طرف پیشقدمی شروع کر دی ہے۔طالبان کی پیشقدمی نے افغان فورسز کی تربیت ،اشرف غنی حکومت کی اہلیت اور افغانستان میں طالبان مخالف قوتوں کے حوالے سے عالمی اندازے غلط ثابت کر دیئے ہیں۔طالبان کی حالیہ کامیابیوں نے امریکہ اور اس کے زیر اثر عالمی ذرائع ابلاغ میں سنسنی پھیلا رکھی ہے۔وہ ممالک جن کے شہری نیٹو افواج میں شامل ہو کر افغانستان میں خدمات انجام دیتے رہے ہیں اب سوال اٹھا رہے ہیں کہ 20برسوں میں افغانستان میں کوئی ایسا قابل بھروسہ سیاسی نظام اور سکیورٹی فورس کیوں تیار نہ کی جا سکی جو انخلا کے بعد افغانستان کو تعمیر نو کی طرف لے کر جاتی۔ افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی اور بڑے شہروں پر ان کے قبضے کے دعوؤں کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ مسلح افواج کی تنظیم نو ان کی اولین ترجیح ہے۔اپنے ویڈیو پیغام میں اشرف غنی کا کہنا تھا کہ اندرون و بیرون ملک وسیع مشاورت شروع کر دی گئی ہے جس کے نتائج جلد عوام کے ساتھ بانٹے جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ افغانستان عدم استحکام سے دوچار ہے اور ان کی کوشش ہوگی کہ ملک کو مزید عدم استحکام، تشدد اور لوگوں کو بے گھر ہونے سے بچایا جائے۔اشرف غنی نے کہا کہ وہ اس بات کی اجازت نہیں دیں گیکہ افغان شہریوں پر جنگ مسلط کی جائے جس سے ان کی جانیں ضائع ہوں۔ انھوں نے مزید کہا کہ 20 سال میں جو کچھ حاصل ہوا اسے کیسے گنوا دیا جائے ۔افغان صدر کے استعفے کی افواہوں کے برعکس انھوں نے اس ویڈیو پیغام میں ایسی کوئی بات نہیں کی مگر پیغام کے دوران ان کے چہرے پر تناؤ دیکھا جاسکتا تھا۔ اشرف غنی جانتے ہیں کہ اس موقع پر افغان تنازع کیسے حل کیا جا سکتا ہے مگر وہ اقتدار کی قربانی دینے کو تیار نہیں۔ اشرف غنی حکومت کو افغان عوام کی تائید و حمایت حاصل نہیں ۔یہ امریکہ کی ضرورت تھی اور امریکہ کے رخصت ہونے کے بعد اپنا جواز کھو بیٹھی ہے ۔طالبان کہہ چکے ہیں کہ اشرف غنی اقتدار چھوڑ دیں تو ملک میں امن قائم ہو سکتا ہے۔ طالبان نے اپنی پیشقدمی کی رفتار تمام اندازوں سے کہیں تیز رکھی ہے۔ وہ جس برق رفتاری سے علاقوں پر علاقے اپنے قابو میں کر رہے ہیں اس سے بظاہر کئی لوگ حیرت کے شکار ہو گئے ہیں۔ افغان صوبوں کے دارالحکومت ایک کے بعد ایک طالبان کے کنٹرول میں جا رہے ہیں۔اس وقت نہتے طالبان جنگجو مکمل طور پر طاقتور نظر آ رہے ہیں،انہیں افغان فوج سے چھینا اسلحہ مل رہا ہے، تیز رفتار گاڑیاں،جہاز،آلات اور جدید سامان نے ان کی صلاحیت بڑھا دی ہے۔ ان حالات میں افغان حکومت کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ امریکی انٹیلیجنس کی لیک ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ کے اندازے کے مطابق دارالحکومت کابل آئندہ چند دنوں میں طالبانکے حملے کا نشانہ بن سکتا ہے اور کابل حکومت گِر سکتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان کے لئے کابل پر قبضہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہا تاہم طالبان دنیا کو بات چیت کے ذریعے جتلانا چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امن برقرار رکھنے کی طاقت صرف ان کے پاس ہے اور طالبان کی شرائط تسلیم کر کے افغانستان میں بڑھتی بد امنی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ افغانستان میں امن کی بحالی کے حوالے سے دوحہ میں ایک اجلاس کے موقع پرافغان قومی مصالحتی کمیشن کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ملک کی صورتحال پر فوری اجلاس کا مطالبہ کیا ہے۔افغانستان میں غیر ملکی شہریوں اور سفارتی عملے کی باحفاظت واپسی کے لیے امریکہ اور برطانیہ کے بعد اب کینیڈا نے بھی خصوصی فوجی دستے تعینات کرنے کا عندیہ دیا ہے۔افغان سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے لوگوں کا دفاع کریں گے۔ افغان نائب صدر امراللہ صالح نے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں لوگوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں گے۔امریکہ، برطانیہ، ازبکستان، چین اور برطانیہ سمیت دیگر ممالک نے دوحہ میں افغان امن عمل پر اجلاس کے موقع پر ایک مشترکہ قراردار منظور کی جس میں سیاسی مفاہمت اور سیز فائر کا مطالبہ کیا گیا تھا۔عالمی برادری نے کہا تھا کہ وہ افغانستان میں کسی ایسی حکومت کو منظور نہیں کریں گے جو طاقت کے زور پر آئی ہو۔اسلامی ممالک کی تنظیماو آئی سی نے بھی افغانستان میں پْرتشدد واقعات میں کمی اور مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے۔ او آئی سی نے کہا کہ اسے افغانستان کی صورتحال پر تشویش ہے اور یہ کہ تمام فریقین کو تشدد میں کمی اور جنگ بندی پر اتفاق کرنا چاہیے۔ افغانستان کی بابت طالبان کا موقف بڑا واضح رہا ہے۔جس وقت امریکہ انخلا کے متعلق طالبان سے مذاکرات کر رہا تھا تو طالبان سے کہا گیا کہ وہ موجودہ افغان حکومت کو برقرار رکھیں گے تو اس پر طالبان نمائندوں کا جواب بڑا منطقی تھا کہ افغانستان میں کیسا نظام حکومت ہو اس کے تعین کا اختیار افغان عوام کو ہے۔بیرونی طاقتوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ترتیب دیا گیا سیاسی نظام افغانی عوام کی پسند نہیں۔ افغانستان کی صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے اب تک طالبان نے اپنے مخالفین کو معاف کرنے کا جو طرز عمل ظاہر کیا ہے وہ ان کی سوچ میں تبدیلی کا مظہر ہے‘مسلکی ہم آہنگی کے لئے محرم کے جلوس نکالنے کی اجازت دی گئی ہے۔ہمسایہ ممالک کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی ایجنڈے پر طالبان مشاورت کرتے رہے ہیں۔بہتر ہو گا کہ موجودہ افغان حکومت استعفیٰ دے کر جنگ سے تباہ حال افغانستان کو مزید خونریزی سے بچائے۔
طالبان کی برق رفتار کامیابیاں
اتوار 15 اگست 2021ء
افغانستان میں طالبان نے 19صوبوں پر قبضہ کر کے مزید علاقوں کی طرف پیشقدمی شروع کر دی ہے۔طالبان کی پیشقدمی نے افغان فورسز کی تربیت ،اشرف غنی حکومت کی اہلیت اور افغانستان میں طالبان مخالف قوتوں کے حوالے سے عالمی اندازے غلط ثابت کر دیئے ہیں۔طالبان کی حالیہ کامیابیوں نے امریکہ اور اس کے زیر اثر عالمی ذرائع ابلاغ میں سنسنی پھیلا رکھی ہے۔وہ ممالک جن کے شہری نیٹو افواج میں شامل ہو کر افغانستان میں خدمات انجام دیتے رہے ہیں اب سوال اٹھا رہے ہیں کہ 20برسوں میں افغانستان میں کوئی ایسا قابل بھروسہ سیاسی نظام اور سکیورٹی فورس کیوں تیار نہ کی جا سکی جو انخلا کے بعد افغانستان کو تعمیر نو کی طرف لے کر جاتی۔ افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی اور بڑے شہروں پر ان کے قبضے کے دعوؤں کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ مسلح افواج کی تنظیم نو ان کی اولین ترجیح ہے۔اپنے ویڈیو پیغام میں اشرف غنی کا کہنا تھا کہ اندرون و بیرون ملک وسیع مشاورت شروع کر دی گئی ہے جس کے نتائج جلد عوام کے ساتھ بانٹے جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ افغانستان عدم استحکام سے دوچار ہے اور ان کی کوشش ہوگی کہ ملک کو مزید عدم استحکام، تشدد اور لوگوں کو بے گھر ہونے سے بچایا جائے۔اشرف غنی نے کہا کہ وہ اس بات کی اجازت نہیں دیں گیکہ افغان شہریوں پر جنگ مسلط کی جائے جس سے ان کی جانیں ضائع ہوں۔ انھوں نے مزید کہا کہ 20 سال میں جو کچھ حاصل ہوا اسے کیسے گنوا دیا جائے ۔افغان صدر کے استعفے کی افواہوں کے برعکس انھوں نے اس ویڈیو پیغام میں ایسی کوئی بات نہیں کی مگر پیغام کے دوران ان کے چہرے پر تناؤ دیکھا جاسکتا تھا۔ اشرف غنی جانتے ہیں کہ اس موقع پر افغان تنازع کیسے حل کیا جا سکتا ہے مگر وہ اقتدار کی قربانی دینے کو تیار نہیں۔ اشرف غنی حکومت کو افغان عوام کی تائید و حمایت حاصل نہیں ۔یہ امریکہ کی ضرورت تھی اور امریکہ کے رخصت ہونے کے بعد اپنا جواز کھو بیٹھی ہے ۔طالبان کہہ چکے ہیں کہ اشرف غنی اقتدار چھوڑ دیں تو ملک میں امن قائم ہو سکتا ہے۔ طالبان نے اپنی پیشقدمی کی رفتار تمام اندازوں سے کہیں تیز رکھی ہے۔ وہ جس برق رفتاری سے علاقوں پر علاقے اپنے قابو میں کر رہے ہیں اس سے بظاہر کئی لوگ حیرت کے شکار ہو گئے ہیں۔ افغان صوبوں کے دارالحکومت ایک کے بعد ایک طالبان کے کنٹرول میں جا رہے ہیں۔اس وقت نہتے طالبان جنگجو مکمل طور پر طاقتور نظر آ رہے ہیں،انہیں افغان فوج سے چھینا اسلحہ مل رہا ہے، تیز رفتار گاڑیاں،جہاز،آلات اور جدید سامان نے ان کی صلاحیت بڑھا دی ہے۔ ان حالات میں افغان حکومت کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ امریکی انٹیلیجنس کی لیک ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ کے اندازے کے مطابق دارالحکومت کابل آئندہ چند دنوں میں طالبانکے حملے کا نشانہ بن سکتا ہے اور کابل حکومت گِر سکتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان کے لئے کابل پر قبضہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہا تاہم طالبان دنیا کو بات چیت کے ذریعے جتلانا چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امن برقرار رکھنے کی طاقت صرف ان کے پاس ہے اور طالبان کی شرائط تسلیم کر کے افغانستان میں بڑھتی بد امنی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ افغانستان میں امن کی بحالی کے حوالے سے دوحہ میں ایک اجلاس کے موقع پرافغان قومی مصالحتی کمیشن کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ملک کی صورتحال پر فوری اجلاس کا مطالبہ کیا ہے۔افغانستان میں غیر ملکی شہریوں اور سفارتی عملے کی باحفاظت واپسی کے لیے امریکہ اور برطانیہ کے بعد اب کینیڈا نے بھی خصوصی فوجی دستے تعینات کرنے کا عندیہ دیا ہے۔افغان سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے لوگوں کا دفاع کریں گے۔ افغان نائب صدر امراللہ صالح نے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں لوگوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں گے۔امریکہ، برطانیہ، ازبکستان، چین اور برطانیہ سمیت دیگر ممالک نے دوحہ میں افغان امن عمل پر اجلاس کے موقع پر ایک مشترکہ قراردار منظور کی جس میں سیاسی مفاہمت اور سیز فائر کا مطالبہ کیا گیا تھا۔عالمی برادری نے کہا تھا کہ وہ افغانستان میں کسی ایسی حکومت کو منظور نہیں کریں گے جو طاقت کے زور پر آئی ہو۔اسلامی ممالک کی تنظیماو آئی سی نے بھی افغانستان میں پْرتشدد واقعات میں کمی اور مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے۔ او آئی سی نے کہا کہ اسے افغانستان کی صورتحال پر تشویش ہے اور یہ کہ تمام فریقین کو تشدد میں کمی اور جنگ بندی پر اتفاق کرنا چاہیے۔ افغانستان کی بابت طالبان کا موقف بڑا واضح رہا ہے۔جس وقت امریکہ انخلا کے متعلق طالبان سے مذاکرات کر رہا تھا تو طالبان سے کہا گیا کہ وہ موجودہ افغان حکومت کو برقرار رکھیں گے تو اس پر طالبان نمائندوں کا جواب بڑا منطقی تھا کہ افغانستان میں کیسا نظام حکومت ہو اس کے تعین کا اختیار افغان عوام کو ہے۔بیرونی طاقتوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ترتیب دیا گیا سیاسی نظام افغانی عوام کی پسند نہیں۔ افغانستان کی صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے اب تک طالبان نے اپنے مخالفین کو معاف کرنے کا جو طرز عمل ظاہر کیا ہے وہ ان کی سوچ میں تبدیلی کا مظہر ہے‘مسلکی ہم آہنگی کے لئے محرم کے جلوس نکالنے کی اجازت دی گئی ہے۔ہمسایہ ممالک کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی ایجنڈے پر طالبان مشاورت کرتے رہے ہیں۔بہتر ہو گا کہ موجودہ افغان حکومت استعفیٰ دے کر جنگ سے تباہ حال افغانستان کو مزید خونریزی سے بچائے۔
آج کے کالم
یہ کالم روزنامہ ٩٢نیوز میں اتوار 15 اگست 2021ء کو شایع کیا گیا
آج کا اخبار
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
منگل 19 دسمبر 2023ء
-
پیر 06 نومبر 2023ء
-
اتوار 05 نومبر 2023ء
اہم خبریں