طالبان نے بین الافغان مذاکرات کے لئے اپنی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دیدی ہے۔کمیٹی میں ملا عبدالغنی برادر‘ مولوی شیر محمد عباس‘ عبدالسلام حنفی‘ مولوی شہاب الدین دلاور اور انس حقانی سمیت دیگر اہم شخصیات شامل کی گئی ہیں۔افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اور سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں وہی ٹیم شرکت کرے گی جس نے امریکہ سے بات کی۔ طالبان نے اس تاثر کو بھی قطعی طور پر مسترد کیا کہ وہ معاہدے کی پاسداری نہیں کر رہے۔ طویل جنگ اور تشدد کے بعد گزشتہ ہفتے طالبان اور امریکہ کے مابین امن معاہدہ طے پایا تھا۔ اس امن معاہدے میں طالبان نے امریکہ کی اس شرط کو تسلیم کیا کہ امریکی انخلا کے بعد وہ افغانستان کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ امریکہ طالبان سے تقاضا کرتا رہا ہے کہ وہ افغانستان کی اشرف غنی حکومت اور اور دیگر سیاسی‘ سماجی اور لڑاکا تنظیموں سے مذاکرات کریں۔ طالبان نے دو سال سے جاری امن مذاکرات کے ہر مرحلے پر امریکہ کا مطالبہ مسترد کیا اور واشگاف الفاظ میں کہا کہ وہ صرف امریکہ سے بات کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کی طرف سے یہ موقف بہت بعد میں سامنے آیا کہ امریکہ سے حتمی معاہدے کے بعد طالبان افغان حکومت سے بات کر سکتے ہیں۔دوحا میں امن معاہدے کے مسودے میں یہ بات شامل کی گئی کہ امریکی انخلا کا آغاز ہوتے ہی طالبان کابل حکومت سے بات چیت کا آغاز کر دیں گے۔ دوسری طرف کابل حکومت سمجھتی ہے کہ طالبان انہیں افغانستان کی جائز اور قانونی حکومت تسلیم نہیں کرتے۔ صدر اشرف غنی کو اس صورت حال میں ہمہ پہلو مسائل کا سامنا ہے۔ ایک طرف ان کے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ ان کی حکومت تسلیم نہیں کر رہے‘ دوسری طرف پاکستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک نے انہیں صدارتی انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد کا روائتی پیغام تک بھیجنے کی زحمت نہیں کی۔ صدر ٹرمپ الگ سے بیان جاری کر چکے ہیں کہ امریکی انخلا کے بعد اگر طالبان افغانستان پر قبضہ کر لیتے ہیں تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ امریکہ طالبان معاہدے میں ایک شق شامل تھی کہ معاہدے کے فوراً بعد افغان حکومت 10ہزار قیدی طالبان میں سے پانچ ہزار کو رہا کردے گی۔ معاہدے کے بعد ایسی قوتیں سرگرم ہوئیں جو طالبان امریکہ امن معاہدے کو اپنے مفادات کے لئے خطرہ تصور کرتی ہیں۔ ان طاقتوں نے افغان صدر اشرف غنی کو آمادہ کیا کہ وہ امن معاہدہ سبوتاژ کر دیں۔ ان ہی قوتوں کے کہنے پر صدر اشرف غنی نے 5ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کیا جس کے بعد طالبان نے پورے افغانستان میں افغان اہلکاروں پر حملے شروع کر دیے۔ یہ صورت حال اس وقت مزید بگڑتی محسوس ہوئی جب امریکی فضائیہ نے بعض علاقوں میں طالبان کے مراکز کو نشانہ بنایا۔ نئے تصادم کی طرف بڑھتی اس صورت حال نے امن معاہدے کے لئے خطرات پیدا کر دیے۔ افغان طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان برق رفتار سفارت کاری نے معاملہ خراب ہونے سے بچا لیا اور صدر اشرف غنی کو طالبان قیدیوں کی رہائی پر آمادگی ظاہر کرنا پڑی۔ اس فیصلے کے بعد دونوں طرف سے مذاکرات کے لئے تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔گزشتہ چالیس برس میں یہ دوسرا موقع ہے جب سپر پاور امریکہ نے افغانستان سے انخلا کیا۔ سوویت انہدام کے بعد امریکہ نے افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ سیاسی اور انتظامی تربیت سے محروم افغان جنگجو گروپوں نے صدیوں سے آزمودہ طریقے کے مطابق ایک دوسرے سے جنگ شروع کر دی۔ اس خانہ جنگی میں اس وقت تک لاکھوں افغان ہلاک ہو چکے تھے جب ملا عمر کی قیادت میں طالبان نے پیشقدمی کی۔ طالبان نے قندہار کو مرکز بنایا اور پھر پورے ملک پر اپنا کنٹرول قائم کر لیا۔ ایران اور بعض دیگر ہمسایوں نے شمالی اتحاد کی مدد کی لیکن طالبان نے کسی کو ٹکنے نہ دیا۔ طالبان کا دور اقتدار نسبتاً پرامن تھا۔ نائن الیون اور اس کے نتیجے میں اسامہ بن لادن کا معاملہ نہ آتا تو امریکہ اور دنیا کے دوسرے ممالک کو طالبان سے کوئی تعارض نہ تھا۔ اس وقت افغانستان کو ایسے بڑے مسائل کا سامنا ہے جن سے عہدہ برا ہونے کے لئے تمام افغان قوتوں کو ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے کی ضرورت ہے۔ طویل جنگ نے ملک کا ترقیاتی ڈھانچہ تباہ کر دیا ہے، اس کو تعمیر نو کی ضرورت ہے۔ افغان سرزمین پاکستان کے مفادات کے خلاف استعمال ہوتی رہی ہے۔ اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے اور ان طاقتوں کو افغانستان کے سکیورٹی نظام سے نکالنا ہو گا جو پاک افغان تعلقات خراب کرنا چاہتی ہیں۔ افغانستان میں زراعت اور صنعت کا شعبہ ابھی پسماندہ ہے ملک چلانے کے لئے عالمی برادری کی مدد درکار ہو گی۔ یہ مدد اس وقت تک نہیں مل سکتی جب تک افغانستان کے تمام گروپ اور جماعتیں اتفاق رائے سے سیاسی نظام وضع نہیں کرتیں۔ یہ بھی امر پیش نظر رہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو انخلا پر مجبور کرنے کا کریڈٹ صرف افغان طالبان کے سر ہے یا پھر پاکستان کے کردار کو سراہا جا سکتا ہے جس نے بار بار عالمی برادری کو باور کرایا کہ افغان تنازع کا حل جنگ نہیں بلکہ مذاکرات سے ممکن ہے‘ ان چیلنجز سے نمٹنے سے قبل افغان حکومت کو ذمہ دارانہ طرز عمل اختیار کرنا ہو گا۔ طالبان نے مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل کر کے دکھا دیا ہے کہ وہ انٹرا افغان مذاکرات کے لئے سنجیدگی سے تیاری کر چکے ہیں۔ افغان حکومت کو طالبان کے اس مفاہمانہ طرز عمل کے جواب میں مثبت اقدامات میں دیر نہیں کرنا چاہیے۔ افغانوں نے عشروں سے دکھ دیکھے ہیں۔ طالبان اور کابل حکومت اگر باقی گروپوں کو مذاکرات میں شامل کر کے افغانستان کو بدامنی سے نکالنے کا انتظام کر لیتے ہیں تو پریشان حال افغان قوم کی خوشیاں پلٹ آنے کی امید کی جا سکتی ہے۔