عالمی ذرائع ابلاغ جو پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کا حصہ ہیں ان کا دکھ سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن پاکستان کے اندر بھی ایک طبقہ ایسا ہے جو بظاہر بڑا لبرل ،غیرجانبدار اور وسیع الظرف بننے کا ڈرامہ رچاتاہے لیکن اگر کہیں پاکستانی عوام کی خوشی کا کوئی پہلو نظر آئے تو ان کے دل میں درد اور سینے میں جلن ہونے لگتی ہے۔ آج کل یہی نام نہاد لبرل دانشور اس بات پر ’’پِس‘‘ گھول رہے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی پر پاکستانی عوام خوشی اور جوش وخروش کا اظہار کیوں کررہے ہیں؟ کیا ہمیں پاکستان کے دشمن انڈیا اور دفاع کو کمزور کرنے کے خواہشمند امریکا سے مغربی سرحدوں کے محفوظ ہوجانے پر سوگ منانا اور سینہ کوبی کرنی چاہیے؟ جب روس نے افغانستان پر قبضہ کیا تو ہمارا ازلی دشمن بھارت اس کا ساجھے دار تھا،روس کے ساتھ پاکستان کی تقسیم کے لیے بھارت ہر خطرہ مول لینے کو تیار تھا،اگر امریکا ، اسرائیل اور یورپ کے ایماء پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے کی نیت سے افغانستان کے راستے ہماری سرحدوں پر پڑاؤ ڈال دے اور بھارت بھی اس کا حصہ دار ہو تو کیا ہمیں اپنے دشمنوں کی تحسین کرنا چاہیے؟ امریکا کے افغانستان میں اترتے ہی انڈیا نے پاکستان کی مغربی سرحدوں کے ساتھ سفارتی قونصل خانوں کے نام پر ’’را‘‘ کے ایجنٹوں کی پوری فوج لاکھڑی کی اور مقامی دہشت گردوں کی وسیع پیمانے پر بھرتی کرکے پاکستان میں دہشت گردی کا طوفان کھڑا کردیا تو کیا ہمیں بھارت کے اس تھپڑ پر اپنا دوسرا گال پیش کردینا چاہیے تھا؟ اب جبکہ امریکا کو افغانستان میں ذلت آمیز شکست ہوئی ہے اور طالبان بیس سال کی جدوجہد کے بعد فتحیاب ہوئے ہیں، اس صورتحال میں ہمارے لیے اس سے زیادہ خوشی اور اطمینان کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ پاکستان کے بدخواہ ، بدترین انجام سے دوچار ہوئے ہیں، امریکا ،بھارت نے پاکستان کے خلاف افغانستان کو مورچہ بنانے کے لیے بے تحاشہ دولت خرچ کی تھی، اب وہ دامن جھاڑ کے خالی ہاتھ اور شکت کی ذلت چہرے پر سجائے بھاگ رہے ہیں ، آنے والے وقتوں میں پاکستان، چین ، روس ، ایران اور وسط ایشیا ، ترکی تک ، دفاعی اور تجارتی رشتوں کے مضبوط بندھن میں ہوںگے، پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش میں بھارت خود عالمی برادری میں دھتکارے ہوئے ’’پلے ‘‘ کی طرح دکھائی دیتا ہے، امریکا جو وسط ایشیا اور ایران وپاکستان پر چڑھائی کے لیے آیا تھا اور جس نے کئی عشروں سے مشرق وسطی میں پنجے گاڑ رکھے تھے ،اب مشرق وسطی سے بھی دھتکار دیا جائے گا، امریکا کی دم پر سوار بھارت کے ساتھ جو افغانستان میں ہوا ، سو ہوا مگر امریکا کا اپنا دم خم، رعب دبدبہ ، دولت مند ی کا بھرم ، ناقابل شکست ہونے کا احساس بھاپ بن کے اڑ گیا، اور مشرق وسطی میں دندناتا ہوا امریکی بغل بچہ اسرائیل ، ہرچند کہیں کہ ہے ، نہیںہے ۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کی مغربی سرحدوں سے بھارتی ریشہ دوانیاں یقینا ختم ہوجائیں گی۔ اس سے قبل جب 1996ء سے 2001ء تک افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی تب پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں یہی پانچ سال تھے جب ہمیں افغانستان کی طرف سے اطمینان نصیب ہوا۔طالبان نے اپنے دور حکومت میں عوام سے سب اسلحہ لے کر امن قائم کیا اور اس کے علاوہ منشیات کا سرے سے خاتمہ کردیا، امریکا اور مغربی ممالک طالبان کے ان مثبت کاموں کی بجائے چھوٹی موٹی باتوں کو پھیلا کر ان کے خلاف پراپیگنڈہ کرتے رہے۔ طالبان کی کامیابیوں پر پاکستان کے سارے دشمنوں کی صفوں میں شورِ ماتم بپا ہے تو کیا وہ ہمارے لیے خوشگوار نہیں ہے ؟ سنٹرل ایشیا میں ہمارے برادر اسلامی ممالک ایک صدی سے زیادہ عرصہ تک روس کی غلامی میں اپنا نام ، مقام ، عقیدہ تک بھلا بیٹھے تھے۔ پھر افغان مجاہدین کی قربانی اور پاکستان کی مدد کے باعث انہیں غلامی سے نجات ملی تو تاجکستان نے احسان فراموشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے دشمن بھارت کو اپنے ملک میں فوجی اڈے فراہم کردیئے جہاں اس کے جنگی جہاز ،فوج اور ہیلی کاپٹر اس راستے میں حائل ہوگئے جو پاکستان کو وسطی ایشیائی بھائیوں سے ملا سکتا تھا بلکہ یہ ملک چین اور پاکستان کے خلاف جاسوسی نیٹ ورک کا حصہ بن گیا۔ افغانستان میں طالبان کی مقبولیت اور کامیابیوں کا اندازہ کرکے تاجکستان کے صدر پاکستان کے دورے پر پہنچے اور دوستی کا دم بھرنے لگے، یقینا اگلے چند مہینوں میں وہ بھی انڈیا کو دیس نکالا دینے پر مجبور ہوں گے، اس طرح چین ، پاکستان افغانستان کے ساتھ پورے وسطی ایشیا کی مسلم ریاستیں اور ان کے ذریعے ترکی بھی پاکستان چین کی شاہراہِ ریشم کے قدیم راستے سے ’’سی پیک‘‘ کے ساتھ جڑ جائے گا اور یہ زمینی راستہ بلقانی ریاستوں ، مشرقی یورپ سے مغربی یورپ تک ریل اور سڑک کے ساتھ مل کر گوادر کی بندرگاہ اور زمینی رستوں کو پررونق اور اقتصادی خوشحالی کا سبب بنے گا جو تجارتی شراکت داری ، امن اور خوشحالی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ امریکا کے افغانستان سے انخلاء کے بعد کیا کوئی نئی خانہ جنگی شروع ہوگی، میرے تجزیے کے مطابق ایسا نہیں ہوگا۔موجودہ طالبان کے زیادہ تر لوگ نئی نسل کے ہیں اور وہ بڑی حکمت اور سمجھ داری سے سارے معاملے کو حل کررہے ہیں، یہ لوگ افغانستان کے مفاد کے علاوہ پاکستان کو کسی خطرے میں نہیں ڈالیں گے،اخباری اور پرنٹ میڈیا کے مطابق طالبان کا کہنا ہے کہ وہ کابل پر قبضے سے پہلے ان افغانیوں سے بات کرنے کو تیار ہیں جو امریکا کے پٹھوں نہیں تھے۔ سننے میں یہ آیا ہے کہ افغانستا ن کے بہت سارے فوجی، طالبان کے آگے ہتھیار ڈال رہے ہیں، طالبان نے کھلے دل سے ان کو معاف کردیا ہے لیکن طالبان کا کہنا ہے کہ وہ فضائیہ کے ان ہوا بازوں کو معاف نہیں کریں گے جو امریکا کا ساتھ دیتے ہوئے طالبان پر بمباری کرتے رہے ہیں۔طالبان نے فضائیہ کے ہوابازوں کو ان کے گھروں میں قتل کر نا شروع کردیا ہے ۔ گزشتہ دنوں سات ہوا باز قتل کیے جاچکے ہیں۔یہ طالبان کے خلاف لڑنے والوں کے لیے ایسا پیغام ہے جسے شاید ہی کوئی نظر انداز کرسکے گا۔ امریکا کو افغانستان کے ہمسایے، خاص طور پر پاکستان اور ایران کے غم میں دبلا ہونے کی ضرورت نہیں ، ہم نے گزشتہ چالیس برس سے ساٹھ لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کی ہے ،آج بھی ان میں سے تیس لاکھ مہمانوں کو سنبھال رکھا ہے ، اگر پانچ سات لاکھ مزید آگئے تو ہم خوشی سے یہ بھی برداشت کرلیں گے لیکن یقینا پوری دنیا صدیوں افغانوں کی شکر گزار رہے گی جنہوں نے لگ بھگ دوسو (200) ملکوں کو امریکا کے جنگی جنون اور خون آشامی سے نجات دلائی ، یہ جنونی اور پاگل عفریت آئندہ کبھی اتنا طاقتور نہیں ہوگا کہ دنیا کے لیے خطرہ بن سکے۔