دوحہ میں افغان طالبان اور کابل حکومت کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات ملتوی ہونے پر امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد بڑے مایوس ہوئے ہیں۔ اس مایوسی کی وجہ مذاکرات کا التوا نہیں بلکہ امریکہ کی ان کوششوں کی ناکامی ہے جو وہ کابل حکومت کو تنازع کا فریق بنانے کے لئے کر رہا ہے۔ افغان طالبان کی طرف سے کابل حکومت کی بجائے صرف امریکہ سے مذاکرات کی ضد امریکہ کے لئے آزمائش ہے۔ امریکی حکام اگر اشرف غنی حکومت کے بغیر طالبان سے انخلا کے معاملات طے کرتے ہیں تو تاریخی دستاویزات میں انہیں براہ راست ایک شکست خوردہ فوج کے طور پر لکھا جائے گا۔ امریکی تاریخ کو اس شرمندگی سے بچانے کے لئے امریکہ چاہتا ہے کہ افغانستان کے معاملے کو افغان طالبان اور کابل حکومت کے درمیان تنازع بنا کر پیش کیا جائے۔ امریکہ کا کرداراس دستاویزی تنازع میں ایسی عالمی طاقت کے طور پر رکھا جا رہا ہے جو کابل حکومت اور طالبان کے درمیان مسلح تنازع کو حل کرانے کے لئے اور افغانستان میں امن قائم کرنے میں تعاون فراہم کر رہی ہے۔ طالبان امریکی منصوبہ بندی سے واقف دکھائی دیتے ہیں۔ ان کو علم کہ امریکہ کو تاریخ میں شکست دینے کے لئے انخلا کی تفصیلات پر صرف اسی سے معاہدہ ہونا چاہیے۔ پچھلے مذاکراتی دور کے ناکام ہونے کے بعد امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے نیا پینترا استعمال کیا۔ انہوں نے امریکی سرپرستی میں دوحہ میں قائم کنفلیکٹ سنٹر کے ذریعے ایک ایسے اجلاس کا انتظام کیا جس میں طالبان‘ افغان حکومت کے نمائندوں اور افغانستان کے کچھ بااثر افراد کو شرکت کی دعوت دی۔ اسے وسیع مذاکراتی بیٹھک قرار دیا گیا۔ یہ نشست امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکراتی سلسلے کا حصہ نہیں تھی بلکہ اسے ایک عمومی نشست اور ایک دوسرے کا نکتہ نظر جاننے کا ذریعہ بنا کر پیش کیا جا رہا تھا۔ امریکہ نے چالاکی یہ کی کہ اس میں افغان حکومت کے نمائندوں اور ایسے سرداروں کو مدعو کر لیا جن کے ساتھ براہ راست بات چیت سے طالبان انکار کرتے رہے ہیں۔ طالبان کی طرف سے کچھ نرمی دکھانے پر امریکی حکام نے یہ تاثر دینا شروع کر دیا کہ یہ نشست دراصل طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات ہیں۔ یہ تاثر افغان طالبان کو کسی لحاظ سے قبول نہیں تھا اس لئے فوراً ردعمل آیا۔ طالبان نے پہلے تو دوحہ اجلاس کے شرکاء کی طویل فہرست کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ یہ کوئی شادی کی تقریب نہیں جہاں ہر کسی کو مدعو کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد اس بات چیت کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔ یہ صورت حال واقعی امریکہ اور زلمے خلیل زاد کی مایوسی کا باعث ہے جو سمجھتے تھے کہ ان کی منصوبہ بندی کے سامنے طالبان کمزور پڑ جائیں گے۔ افغان طالبان کے لئے امریکہ کچھ نئے چیلنج بھی پیدا کر رہاہے۔ یہ چیلنج پلان بی کا حصہ سمجھے جا سکتے ہیں۔ امریکہ افغانستان میں ایسے جنگی سرداروں‘ سماجی کارکنوں اور دولت مند افراد کو اکٹھا کر رہا ہے جو نئے سیاسی دھڑے اور جماعتیں بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان میں کچھ شخصیات واقعی جنگ اور تصادم کے خلاف اپنے موقف کی وجہ سے احترام کی نظر سے دیکھی جاتی ہیں۔ امریکہ ان گروہوں کے ذریعے پرامن افغانستان کی تعمیر نو اور معاشی ترقی کے ایجنڈے کو افغانستان کا سیاسی ایشو بنانا چاہتا ہے۔ اس ایجنڈے پر بات کرنے کے دوران غیر محسوس طریقے سے یہ تاثر ابھارا جائے گا کہ تعمیر نو‘ ملازمتوں‘ صنعت کاری اور کاروبار کے لئے طالبان کی نسبت یہ لوگ غیر ملکی تعاون حاصل کرنے میں زیادہ موثر ہو سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی اہمیت نمایاںبناکے امریکہ پہلے سے منقسم افغانستان میں فیصلہ سازی کے رہے سہے مراکز کومزید کمزور کرکے اپنا محتاج بنائے رکھے گا۔ اس طرح انخلاء کی منصوبہ بندی کے دوران داخلی طور پر افغانستان میں صرف طالبان اور کابل حکومت فریق نہیں ہوں گے بلکہ کچھ نئے گروپ اور جماعتیں بھی اپنے معاشی ترقی کے ایجنڈے کو لے کر فریق کا کردار نبھاتی نظر آ سکتی ہیں۔ اس صورت حال میں طالبان نے اگر سیاسی نظام کی شکل و صورت پر امریکی موقف تسلیم نہ بھی کیا تو افغان معاشرے میں ایک نئی تقسیم ابھرنے کے امکانات رد نہیں کئے جا سکتے کیونکہ کوئی نیا نعرہ تخلیق کر کے کسی قوم کی معاشی ترقی کا راستہ روکنا اور اس کا وقت ضائع کرنا امریکہ کی پرانی روش ہے جس میں بوجوہ اسے تجربہ کار تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ نے کھیل کو ایک بڑے مختلف انداز میں شروع کیا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے 243افراد کی فہرست دوحہ میں بھیجی۔ ان میں پچاس خواتین شامل تھیں۔ خواتین کی شمولیت پر اگرچہ طالبان نے رضا مندی ظاہر کی تھی مگر جونہی انہیں اندازہ ہوا کہ زلمے خلیل زاد پلان بی پر عمل پیرا ہیں انہوں نے دوحہ کی گول میز بات چیت سے لاتعلقی ظاہرکر دی ۔طالبان کی جانب سے دوحہ بات چیت سے لاتعلقی کے فوری بعد زلمے خلیل زاد کو امریکہ طلب کیا گیا جہاں انہوں نے کی گھنٹے تک پینٹا گان میں دفاعی افسران سے افغان مذاکراتی عمل پر مشاورت کی۔ امریکی حکام اس بات پر شاکی ہیں کہ افغان طالبان نے پہلے صدر اوبامہ کے انخلا پروگرام کے راستے میں مسائل کھڑے کئے اب صدر ٹرمپ کی جنوب ایشیا پالیسی صرف اس وجہ سے آگے نہیں بڑھ پا رہی کہ فوجی ناکامی کے بعد امریکہ افغانستان پر سیاسی چڑھائی کے راستے ہموار نہیں کر پا رہا۔ صدر ٹرمپ امریکہ کا یہاں سے فوجی انخلا چاہتے ہیں مگر وہ یہاں کے نظام کو عراق کی طرح مفلوج اور اپنا دست نگر رکھنے پر بضد دکھائی دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے طالبان کی تمام شرائط مان کر امریکہ جب افغانستان سے نکلتا نظر آئے تو کچھ دھڑے اور لوگ ڈالروں کی بندش پر بھوک‘ بے روزگاری اور بدحالی کا شور مچا کر طالبان کی عملداری کے لئے مسائل پیدا کریں۔ شائد امریکہ کی منصوبہ بندی میں افغانستان کے لئے آخر تک انتقام ہی کی مختلف شکلیں شامل ہیں۔