جب طالبان نے کابل شہر اور پچانوے فیصد افغانستان پر اپنا کنٹرول مکمل کیا تو پھر باقی افغانستان پر انکی گذشتہ دو سالہ صاف و شفاف حکومت کی شہرت کی وجہ سے یہ خطرہ لاحق ہوگیا کہ افغانستان بحیثیت ایک قومی ریاست دنیا کے نقشے پر یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہوگا کہ اسلامی شریعت کے ثمرات ،کسقدر قابل عمل ہیں۔ ایران میں اسلامی انقلاب نے اردگرد کی شیعہ آبادی میں ایک ’’انقلابی‘‘ روح پہلے سے ہی پھونک رکھی تھی اور لبنان سے لے کر عراق، بحرین اور یمن کی شیعہ آبادی کے دل سے ان ممالک پرجنگِ عظیم اوّل کے بعد عالمی طاقتوں نے اپنے جن چہیتے، کاسہ لیس اور اُمت کے غداروں کو اقتدار کی مسندوں پر بٹھایا ہوا تھا، ایسے تمام بادشاہوں کا خوف بہت حد تک نکل چکا تھا۔ اسی طرح اگراس خطے میں سُنّی مسلمانوں کے لیے ایک ماڈل ریاست وجود میں آجاتی تو یہ اتنا بڑا خطرہ تھا، جس کا ادراک پوری مغربی دنیا، اسرائیل اور خصوصاً بھارت کو فوری طور پر ہوگیا۔ وہ منافق اور دوغلی مغربی دنیا جو دنیا کے ہر آمر، ڈکٹیٹر اور فوجی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حکومت کو فوراً تسلیم کرلیتی تھی، اس نے طالبان کی ’’اسلامی شرعی حکومت‘‘کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ دوسری جانب بھارت نے طالبان کے خلاف شمالی اتحاد کے ذریعے لڑنے کا منصوبہ بنایا ۔ اس پورے منصوبے کو مشہور بھارتی دانشور اور صحافی و نچیتن سودرشن نے یکم ستمبر 2019ء کو ’’دی ہندو‘‘ اخبار میں چھپنے والے اپنے مضمون میں طشت ازبام کیا ہے۔ اس مضمون کو لکھنے کا بنیادی مقصد تو یہ تھا کہ بھارت کو کبھی بھی افغانستان کی سرزمین پر اپنے سپاہی بھیجنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ افغان قوم ہندوؤں سے اسقدر نفرت کرتی ہے کہ وہ سب کچھ بھول کر انہی کو مارنے کے درپے ہوجائیں گے۔ سودرشن بتاتا ہے کہ طالبان کے کابل میں اقتدار میں آنے کے ایک ہفتے بعد 26ستمبر 1996ء کو تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں بھارتی سفیر، بھارت راج متھوکمار نے احمد شاہ مسعود کے گھر میں اس سے ملاقات کی ۔ اس ملاقات میں اشرف غنی کا انٹیلجنس چیف امراللہ صالح بھی تھا جو اسوقت نجیب اللہ کی حکومت کا تاجکستان میں نمائندہ تھا۔یہ ملاقات عین اس دن ہوئی جب کابل میں بھارتی سفارت خانے کا عملہ کابل سے فرار ہوا تھا اور نجیب اللہ کو سرعام پھانسی دی گئی تھی۔احمد شاہ مسعود انگریزی نہیں جانتا تھا،اس لیے مترجم کے فرائض امراللہ صالح نے ادا کیے۔ بھارتی سفیر سفارت خانے کے ڈپٹی سربراہ ڈاکٹر ایس اے قریشی کو بھی لے گیا جو مسلمان تھا اور فارسی پر عبور رکھتا تھا۔ پہلی ہی میٹنگ میں احمد شاہ مسعود نے اپنی مشہور عام ٹوپی سر سے اتار کر میز پر رکھی، پھر اپنے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا کہ اگر اسے افغانستان میں اتنی جگہ بھی مل جائے تو وہ طالبان سے جنگ کرتا رہے گا اور اس جنگ کیلئے اسے بھارت کی مدد چاہیے۔ اس نے اپنی ’’خواہشات‘‘ کی ایک طویل لسٹ بھارت کے سفیر کو پکڑا دی جو متھو کمار نے بھارت بھیج دی۔بھارتی حکومت نے یہ سوال پوچھا کہ اس کے بدلے ہمیں کیا ملے گا۔ متھو کمار نے جواب دیا، احمد شاہ مسعود اگر طالبان سے لڑے گا تو وہ دراصل پاکستان ہی سے لڑے گا اور بالآخر یہ ہماری ہی جنگ ہوگی۔ جنگ شروع ہوئی تو احمد شاہ مسعود کے مطالبات کی فہرست وقفوں وقفوں سے طویل ہوتی گئی۔ بھارت ان میں سے چند چیزیں بھیج دیتا اور باقی کو مؤخر کر دیتا۔اس صورتحال سے بے چین ہو کر سفیر نے اپنی حکومت کو لکھا کہ ہم نے احمد شاہ مسعود کو مائع آکسیجن میں پھینک دیا ہے۔مائع اسے زندہ نہیں رہنے دے گی اور آکسیجن اسے مرنے نہیں دے گی۔اس خط کے بعد بھارت نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ،احمد شاہ مسعود کو کلاشن کوف رائفلیں، چھوٹے ہتھیار، مارٹر، اسلحہ و گولہ بارود، یونیفارم، سردیوں کے کپڑے، خشک ڈبوں والی خوراک اور دوائیاں تک سب کچھ مہیا کرنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ لندن میں مقیم اس کے بھائی ولی مسعود کو خود بھی سرمایہ فراہم کیا اور ایسے تمام ممالک سے اسے سرمایہ لے کربھی دیا جو طالبان حکومت کے خلاف تھے۔ تمام فوجی و دیگر سامان بھارت سے تاجکستان کے شہر دوشنبے میں آتاجہاں کسٹم حکام کو اسے چیک کرنے کی بالکل اجازت نہیں تھی، پھر وہاں سے یہ سامان بارڈر کے پار شمالی اتحاد کو پہنچا دیا جاتا۔ دلّی سرکار نے شمالی اتحاد کے لیے دس M18ہیلی کاپٹر بھی فراہم کیئے جو شمالی اتحاد کے زخمیوں کو فوری علاج کے لیے دوشنبے لاتے تھے، جہاں پر بھارت نے علاج کیلئے پچھتر لاکھ ڈالر کی لاگت سے فارفور کے فوجی اڈے پر ایک جدید ہسپتال قائم کردیا تھا۔ بھارت یہ سب پاکستان دشمنی میں کرتا تھا مگر تاجکستان اپنے ملک میں نظامِ شریعت کی تحریک کو روکنے کے لیے ایسا کررہا تھا۔کیونکہ اسے خوف تھا کہ طالبان کے اقتدار سے انہیں اخلاقی حوصلہ ملے گا۔ اس بھارت تاجکستان گٹھ جوڑ کو مضبوط کرنے کے لیے تاجک صدر امام علی رحمانوف22 جنوری 1999ء کو ویت نام سے واپسی پر بھارت رکا اور اس نے اٹل بہاری واجپائی سے ملاقات کی۔ بھارت نے طالبان کے خلاف جنگ کے لیے تاجکستان کے شہر ’’ایمنی‘‘ میں وہ ائیر بیس مانگ لیا جو سوویت یونین نے افغان جنگ کے دوران بنایا تھااور جہاںہمیشہ 25 روسی جنگی جہاز تیار کھڑے رہتے تھے۔ ایئر بیس فوراً بھارت کے حوالے کر دیاگیا۔ بھارت نے اس کے رن وے کو لمبا کیا اور اس پر اپنا جھنڈا بھی لہرا دیا۔ یہی وہ ایئر بیس ہے جہاں گیارہ ستمبر 2001ء کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر واقعہ سے صرف دو دن قبل احمد شاہ مسعود کی لاش لائی گئی تھی اور اس کے چند ہفتوں بعد ہی امریکہ افغانستان میں داخل ہوا تھا۔ امریکی افواج کا افغانستان میں داخلہ اسی فارفور کے اڈے اور ایمنی ائیر بیس پر موجود شمالی اتحاد کے سپاہیوں کے کندھے پر سوار ہوکرہی ہوا تھا۔ آج بیس سالہ جنگ کے بعد امریکہ اور عالمی طاقتوں کی شکست کے بعد یہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پر صرف اور صرف ایک ہی قوت تھی اور ہے جسے ’’طالبان‘‘ کہتے ہیں۔طالبان کی یہ قوت جلد یا بدیر افغانستان پر حکمران ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کا زخم خوردہ بھارت اپنے پرانے حلیف تاجکستان کے ساتھ مل کر اکٹھی حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ تاجکستان کا خیال ہے کہ وہاں پر موجود کالعدم حزب نہضتِ اسلامی کے لوگوں کو طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد ایک نیا ولولہ ملے گا، جبکہ بھارت کی شمالی اتحاد کو لاکھوں ڈالر کی خفیہ عسکری امداد ضائع ہونے کا قلق اور دکھ ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت نے افغانستان مین تین ارب ڈالر سے جو ترقیاتی کام کیے تھے وہ ساری سرمایہ کاری ضائع ہوگئی ہے۔ افغانستان میں بھارت دوستی اور پاکستان دشمنی کا جو پودا لگایا گیا تھا، اسے طالبان کی فتح نے جڑ سے اکھاڑ دیا ہے۔ دوستی و محبت کا یہ عالم تھا کہ افغانستان کی پارلیمنٹ کی عمارت جو بھارت نے بنائی تھی،اس میں 25دسمبر 2015ء کو افتتاحی تقریب میں نریندر مودی نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے آپ کو ہم سے دوستی سے روکے رکھا اور آج ہم پاکستان کو شکست دے کر آپ سے دوستی کی روایت کو زندہ کر رہے ہیں۔ اسی دن مودی اور اشرف غنی نے واجپائی کے نام پر اٹل بلاک کا افتتاح بھی کیا۔ بھارت اور تاجکستان گذشتہ ایک سال سے منصوبہ سازی کر رہے تھے کہ اگر امریکی افواج چلی گئیں تو تاجکستان کے پرانے آزمائے ہوئے راستے اور طریقے کو کیسے استعمال کرنا ہے۔ لیکن مومن کی فراست رکھنے والے طالبان نے سب سے پہلے اپنی اور تاجکستان کی سرحد کو ہی محفوظ کیا۔ یہاں یہ مرحلہ اسقدر سکون سے طے ہوا کہ 6جون کو چین افغانستان اور تاجکستان کی مشترکہ سرحد والے ضلع ’’واخان‘‘ میں صرف چار طالبان سپاہی دوموٹرسائیکلوں پر پہنچے اور انہوں نے ضلع کو اپنے قبضے میں لے کر اپنا جھنڈا وہاں لہرا دیا۔ آج وہ پانچ فیصد افغانستان جوکبھی 1996ء سے 2001ء تک طالبان حکومت کے خلاف بڑا میدانِ جنگ تھا،سب سے پہلے وہی طالبان کے کنٹرول میں آچکا ہے۔ ایسے حالات میں بھارت اور تاجکستان کا خوفزدہونا لازم تھا۔(جاری )