عالم طوفِ حرم سب سے نرالا ہے میاں ایک منظر ہے کہ بس دیکھنے والا ہے میاں رنگ سارے ہیں یہاں جذب ہوئے جاتے ہیں اور گردش میں جہاں بھر کا اجالا ہے میاں لیجئے ہم مدینہ سے کوچ کر آئے کہ وہاں 40 نمازیں پوری کرنا ہوتی ہیں۔ ہم نے مسجد نبوی میں 41 نمازیں پڑھیں اور نہا دھو کر احرام باندھا، میقات سے عمرہ کی نیت کی۔ تقریباً 5 گھنٹوں میں مکہ پہنچے۔ پاکستانیوں کا عزیزیہ میں قیام ہے۔ تھکاوٹ کے باوجود ہم نے سامان اپنے کمروں میں رکھا اور طواف و سعی کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ پاکستان کی وزارت حج کی طرف سے بسیں ہر وقت چلتی ہیں جو بیس منٹ کی مسافت پر ایک سٹاپ کدائی پہنچاتی ہیں وہاں سے سعودی حکومت کی بسیں حجاج کو حرم لے جاتی ہیں۔ میں نے اور بیگم صاحبہ نے خانہ کعبہ کے استقبال اور حجر اسود کے استلام کے بعد خانہ کعبہ کے سات چکر لگائے۔ رش کا عالم مت پوچھئے کہ آپ کم چلتے ہیں اور ہجوم آپ کو دھکیلتے ہوئے لیا جاتا ہے۔ ایک عجیب صورت حال ہوتی ہے۔ مخلوق خدا اپنے خلق سے جڑتی نظر آتی ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں اپنے مالک کی شان کبریائی بیان کرتا ہے اور اپنی جھولی پھیلا کر اس کی رحمت طلب کرتا ہے۔ کتنی زبانیں، کتنے انداز اور کتنے قرینے۔ ظہوری یاد آئے کہ انہوں نے کہا تھا ’’اکوّ پیا سندا ہے لکھاں دیاں بولیاں‘‘۔ کیسی وارفتگی اور کیسی سرشاری نظر آتی ہے۔ حجر اسود کو چومنے کا شوق اور بے اختیاری: والہانہ کوئی پتھر کو کہاں چومتا ہے اس محبت میں محمدؐ کا حوالہ ہے میاں میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ ننھے بچے کو گود میں لئے طواف کر رہا ہے۔ میں نے بچے کو رشک سے دیکھا کہ زمین پر پائوں نہیں رکھے اور طواف کی سعادت۔ ان میں ویل چیئر پر بیٹھے ہوئے بزرگ اور ان کے سعادت مند بیٹے کتنے اچھے لگتے ہیں۔ بعض ممالک کے لوگ گروپس کی صورت میں وظائف اور دعائیں کرتے ہیں تو ایک عجیب منظر پیش کرتے ہیں۔ ملتزم سے چمٹے ہوئے لوگ آنسوئوں اور آہوں سے اظہار مدعا کر رہے ہوتے ہیں۔ خانہ کعبہ کے رکن یمانی کو چھوتے ہوئے دیواروں سے گال مس کرتے ہوئے، محبت کے اظہار کا کوئی طے شدہ طریقہ نہیں۔ ’’جیسی جس کے گمان میں آئی‘‘ بعض دفعہ تو آپ پر خود بخود کچھ منکشف ہونے لگتا ہے۔ میں نے حضورٖؐ،کے حضور جب اپنے دوستوں کے نام لے لے کر دعائیں مانگیں تو دوستوں کے نام بھی ذہن میں ابھر آئے۔ میں ان کے لئے بھی بے اختیار دعائیں کرنے لگا۔ میں مدینہ میں جو کی روٹی کھاتا تو گلزار بخاری کو یاد کرتا: چند کھجوریں جو کی روٹی، ایک پیالہ پانی کا یوں تو چٹائی پر بیٹھا ہے منصب ہے سلطانی کا میں بات کر رہا تھا طواف اور سعی کی۔ سعی جو صفا سے مروا اور مروا سے صفا کی طرف جانا ہے اللہ کے شعائر میں سے ہے۔ سات چکر ہیں جو اصل میں ایک سمت کو ہی چکر تصور کیا گیا ہے۔ جب سبز لائٹس آتی ہیں تو وہاں بھاگ کر آگے بڑھنے کا حکم ہے۔ یہ سب اللہ کی پسند اور ناپسند کی بات ہے۔ جہاں اللہ دوڑنے کو کہتا ہے ہم دوڑ پڑتے ہیں۔ سعی سے پہلے ہم نے طواف کے بعد دو رکعت نفل پڑھے اور آب زم زم پیا۔ رات کے دو تین بجے ہم واپس عزیزیہ پہنچے تو اعلان ہو چکا تھا کہ جمعہ کے لئے بسیں صبح ساڑھے آٹھ تک چلیں گی۔ شاید اس لئے کہ خانہ کعبہ پر بے انتہا رش بڑھ جاتا ہے اور غالباً دس یا گیارہ بجے باہر کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ ہم صبح 9 بجے حرم کے اندر تھے اور پھر ایک بجے تک آپ اپنی جگہ سے ادھر اُدھر نہیں ہو سکتے۔ یہ بڑی طویل بیٹھک تھی، نوافل پڑھے۔ ہجوم کا اندازہ تو اس وقت ہوتا ہے جب لوگ اپنی اپنی سمت وہاں سے باہر نکلتے ہیں، یقین جانئے کہ ایسے لگتا ہے جیسے سمندر سے دریا نکل رہے ہیں۔ جیسے کے لوگوں کا سیل بے کراں ہے۔ یہ سب کیا ہے کس نے انہیں بے نام سی زنجیر سے باندھا ہوا ہے۔ رات ہم نے سعی کے بعد ’’حلق‘‘ یعنی ٹنڈ بھی کروائی کہ واجب ہے۔ یقیناً اللہ جانتا ہے کہ بندے کی انا کیسے مرتی ہے، وگرنہ کوئی ہمیں لاکھ روپے بھی دے تو کون ٹنڈ کرواتا ہے۔ وہاں نائیوں کی دکانیں بھری ہوئی تھیں اور وہ استرا چلاتے جا رہے تھے۔ اس کے بعد ہم احرام کی پابندیوں سے آزاد ہو گئے۔ اب ہم اپنی مصروفیات ڈھونڈیں گے کہ ایک ماہ سے زیادہ وقت ہمیں مکہ میں گزارنا ہے۔ کسی نے بتایا تھا کہ مغرب کے بعد مکی صاحب سوال جواب کی محفل کرتے ہیں۔ بس اسی قسم کی کوئی اور نشست میسر آ جائے۔ ایک مسئلہ تو ہمارے ساتھ یہاں یہ ہے کہ باہر شدید گرمی ہے اور ہوٹل میں سردی رہتی ہے۔ جسم سرد گرم رہتا ہے۔ ٹھنڈا پانی گلہ پکڑتا ہے گرم پیا نہیں جاتا۔ اچھے دوست ضرور مل گئے ہیں۔ ویسے حاجی یہاں تقریباً بیبے بچوں کی طرح رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کا خیال بھی کرتے ہیں۔ کاش یہ سپرٹ واپس آنے کے بعد بھی رہے۔ کھانے کا معاملہ تقریباً ویسا ہی ہے جیسے پاکستان میں ہے یہاں تمام کھانوں کا ایک سا ہی ذائقہ ہے۔ ساتھ مگر دہی، لسی یا سیب بھی ایک عدد مل جاتا ہے۔ حاجی اتنی زیادہ تعداد میں ہیں کہ ایک کمرے میں چار یا پانچ بیڈ لگائے گئے ہیں۔ لاکھوں کے مجمع میں کچھ مسائل فطری طور پر پیش آتے ہیں، اس لئے انہیں صبر سے برداشت کرنا ہی اچھا ہے۔ اصل میں یہ راستہ ہی ایسا ہے کہ جہاں ایثار کرنا پڑتا ہے، دوسرے کا احترام کرنا ہوتا ہے اور برداشت کا مظاہرہ بھی۔ میں نے ایک خاتون سے سنا کہ اس نے کسی بات پر جواب دینے کی بجائے کہا کہ میں احرام کی حالت میں ہوں۔: کیا بتائوں کے بندگی کیا ہے میں نے خود اپنا احترام کیا ریحان کھوکھر صاحب نے جو بتایا تھا وہ ہو بہو ایسے ہی نکلا کہ گائیڈ کرنے کے لئے پاکستان کے فلیگ والی وردی پہنے وزارت مذہبی امور کے لوگ وہاں موجود ہوتے ہیں۔ ویسے بھی پاکستانی حجاج اتنی تعداد میں ہیں کہ ہر دوسرا تیسرا بندہ وہاں اردو بولتا نظر آتا ہے۔ وہاں کے خادمین الگ ہیں جو ہم سے بات کرتے ہیں تو اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ کچھ حاجیوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوا اس کا تدارک آئندہ ریحان کھوکھر صاحب کو کرنا چاہئے۔ مثلاً 16 جولائی کی فلائٹ کے حجاج کو روادہ میں ٹھہرایا گیا تو 1000 کی گنجائش کے مقابل 3500 لوگوں کو ٹھہرایا گیا۔ لفٹوں میں لمبی لمبی لائنیں لگی تھیں۔ عورتیں چیختی رہیں۔ یہ شکایت نہیں، مقصد یہ کہ مدینہ کے سپانسر سے پوچھا جائے۔ یہ ایک جگہ ہوا۔ باقی معاملات ستائش کے قابل ہیں۔ ہمارے ساتھ قاری امجد ہیں جو حافظ بھی ہیں اور عالم دین بھی، ان کی خوش الحانی سے نمازیں سج گئیں اور صبح کا درس بھی وہ دیتے ہیں۔ آتے جاتے لفٹ کی شناسائی الگ ہے۔ آخر میں یعقوب پرواز کا ایک شعر: جس طرح ملتے ہیں لب نام محمدؐ کے سبب کاش ہم مل جائیں سب نام محمدؐ کے سبب