ہم سب چھجو بھگت کا چوبارا ‘ ایبک کا مزار اور لاہور کا قدیم ترین پُرتگالی کلیسا دیکھنے کے بعد جہاں کبھی ’’مکتبہ جدید ‘‘ ہوا کرتا تھا اور میں بچپن میں حنیف رامے صاحب سے کتابیں خریدنے آیا کرتا تھا اور اس کے آگے جو فٹ پاتھ تھا‘ وہاں ساغر صدیقی کا ڈیرہ ہوا کرتا تھا‘ میں اور یوسف کامران اکثر ساغر کے ساتھ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر گپیں لگایا کرتے تھے‘ اس فٹ پاتھ کے پار سرکلر روڈ کو عبور کرنے کے بعد‘ گل فروشوں کے کھوکھوں سے ذرا آگے جب ہم اندرون شہر میں آوارگی کے لئے لوہاری دروازے کی جانب بڑھ رہے تھے تو شہابے کھوکھے والے سے ملاقات ہو گئی۔ ملاقات کہاں ہو گئی میں نے ذاتی طور پر اسے روک لیا کہ اِن دنوں مجھے کچھ طوطا مسائل درپیش تھے۔ دراصل چند ماہ پیشتر میرے نوجوان کوہ نورد دوست سلمان نے مجھے تحفے کے طور پر اپنے دوست الطاف کے ہاتھوں ایک طوطا بھجوایا تھا اور وہ کوئی عام سا باغوں میں ٹیں ٹیں کرنے والا طوطا من موتا نہ تھا۔ کانگو کا ’’افریقن گرے‘‘ طوطا تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اتنا دانش مند ہے کہ آسانی سے ایک انسان بھی ہو سکتا تھا لیکن اس نے انسانوں کی کرتوتیں دیکھ کر طوطا ہو جانے کو ترجیح دی۔ افریقین گرے کا دماغ ایک پانچ سالہ بچے کے برابر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اسے کھانے کو کچھ دیجئے تو اسے پہلے سونگھتا ہے کہ یہ میرے معیار کی خوراک ہے یا نہیں اور پھر اسے ایک پنجے میں پکڑ کر ایسے کھاتا ہے جیسے بچہ برگر ہاتھ میں پکڑ کر کھاتا ہے۔ میری بیگم اس سے بہت لاڈ کرتی ہے اور پارو کہہ کر مخاطب کرتی ہے اور میں حسد سے جل بُھن کے خاک ہو جاتا ہوں کہ اُس نے آج تک حرام ہے مجھے پارو کہا ہو۔ ہم سے تو طوطے ہی اچھے۔ بہر طور میں نے شہابے کھوکھے والے کو روک لیا۔ میں کیسے جانتا تھا کہ وہ شہابا ہے اور کھوکھے والا ہے۔ اس لئے کہ اس نے اپنے بازو پر ایک ہریل طوطا بٹھا رکھا تھا اور میرے پوچھنے پراپنا نام شہاب دین عرف شہابا بتایا تھا۔ میرا افریقن گرے خوراک کے بارے میں نخرے بہت کرتا تھا تو میں شہابے سے مشورہ کرنا چاہتا تھا۔ بھائی جان آپ اپنے طوطے کو کیا کھلاتے ہیں۔ براہ کرم میری راہنمائی کیجئے میں بہت پریشان ہوں۔ شہابا کہنے لگا۔’’بھا جی‘ یہ ہر شے کھا لیتا ہے‘ ہری مرچیں‘ قُلچے کے ساتھ بہت شوق سے کھاتا ہے۔ باقر خانیوں کا بھی شوقین ہے اور ظاہرہے اگر طوطا ہے تو امرودوں پر جان دیتا ہے‘‘۔ اس نے گویا میری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا’’بھائی شہابے‘ میری یہی پرابلم ہے کہ میرا طوطا امرود بالکل نہیں کھاتا۔’’شہاب دین نے نہائت سنجیدگی سے کہا’’اگر امرود نہیں کھاتا تو وہ طوطا نہیں کوئی اور پرندہ ہو گا۔ بھاجی چیک کر لیجئے‘‘ کہیں کاں شاں تو نہیں’’مجھے اس کی بدتمیزی پر غصہ تو بہت آیا کہ میرے قیمتی افریقن گرے کو کاں شاں کہہ رہا ہے لیکن میں ضبط کر گیا اور کہا’’نہیں نہیں کبھی کبھار کوّے کی مانند بولتاہے لیکن ہرگز کوّا نہیں’’تو پھر وہ امرود نہیں تو اور کیا کھاتا ہے؟‘‘ ٹینڈے اور کدو رغب سے کھاتا ہے’’شہاب دین مسکرانے لگا’’ارائیں طوطا لگتا ہے۔ ویسے میرا مٹھو میٹھا پان بھی بڑے شوق سے کھاتا ہے۔لوہاری کا حمیدا پان والا دنیا کا بہترین میٹھا پان تیار کرتا ہے۔ تھوڑے سے قوام کے ساتھ۔ وہ لے جائیے‘‘’’نہیں شہاب دین پان کھانے سے خواہ مخواہ یہ قوی خان کی مانند گاڑھی اردو بولنے لگے گا۔ میں نے اس کا شین قاف تو درست نہیں کروانا۔ کوئی اور خوراک بتائو۔ شہاب دین سوچ میں پڑ گیا اور پھر سر ہلا کر بولا’’اگر وہ امرود نہیں کھاتا تو طوطا نہیں ہے۔ اگر ہے تو بیمار ہے‘ اسے کسی ڈنگر ڈاکٹر کو دکھائیے۔ وہی بتا سکے گا کہ وہ کیا کھائے گا‘‘ ’’کیوں نسیم۔ تم بھی تو ڈاکٹر ہو؟‘‘ ’’تارڑ صاحب۔ میں دندان ساز ہوں۔ طوطے کی چونچ میں کچھ خرابی ہے تو شاید میں اس کی مرمت کر سکوں۔ آپ مجھے ڈنگر ڈاکٹر سمجھتے ہیں۔ میں تو آپ کا علاج بھی کرتا رہاہوں۔‘‘ ثابت ہو گیا کہ نسیم ایک بدتمیز دندان ساز تھا۔ لوہاری دروازے کے نہائت قدیم اور پُرکشش اور بھاری بھرکم پھاٹک کے ساتھ کسی مسخرے نے ہاتھ کر دیا ہے۔ وہ کس کا ہاتھ تھا۔ قدیم شہر کو بحال کرنے والی اتھارٹی کا یا کسی آثار قدیمہ کے اہلکار کا۔جس نے پھاٹک کا نصف حصہ نہائت عامیانہ سنہری رنگ سے پینٹ کر دیا تھا۔ جب کہ بالائی حصہ جوں کا توں اپنی قدامت کے رنگ میں تھا۔ یعنی یہ پھاٹک دو حصوں میں بٹ گیا تھا۔ تبھی اگر اس کا بیڑہ غرق کرنا ہی تھا تو پورے پھاٹک پر سنہری پینٹ تھوپ دیتے۔ صرف نصف حصے پر ہی یہ بیڑہ غرقی کیوں تھوپی گئی ہے کوئی جو اس کا جواب عنائت کر سکے۔ لوہاری گیٹ کی محراب تلے’’لاہور سارنگی سکول‘‘ کے بورڈ تلے کوئی صاحب ایک کھیس اوڑھے فراٹے لے رہے تھے۔ شائد کوئی استاد سارنگی نواز تھے جو ٹُک سارنگی بجاتے بجاتے سو گئے تھے چنانچہ سرہانے میرکے آہستہ بولو۔ اس گیٹ کے پہلو میں ایک مختصر سی دکان سے بعداز موت کے بندوبست خریدے جا سکتے تھے’’یہاں کفن دفن کا سب سامان ملتا ہے‘‘ نہائت ہی عمدہ سہولت کے ساتھ اور اس دکان کی شاخیں پورے شہر میں کھلنے سے مُردوں کا بھلا ہو جائے گا۔ بائیں جانب برصغیر کی سب سے اہم خطاطی کی بیٹھک کے آثار مٹ چکے تھے‘ وہ سائن بورڈ بھی جانے کدھر گیا جس پر ’’بیٹھک کاتباں‘‘ درج تھا‘ اس کے پہلو میں وہ جھروکا بھی معدوم ہو چکا تھا جہاں روائت ہے کہ ایک بہت بڑے غزل کے گلو کار کی والدہ مُجرا کیا کرتی تھیں۔لوہاری گیٹ کے اندر داخل ہو کر جو پہلا ’’چوک‘‘ آتا ہے یہ اب بھی’’چوک چکلہ‘‘کہلاتا ہے اگرچہ اسے شرف بہ اسلام کر کے ’’چوک بخاری‘‘ کا نام عطا کر دیا گیا ہے۔ میرے ناول ’’راکھ‘‘ کے آغاز میں جن چار چیزوں کا تذکرہ ہے جو ہر ستمبر میں بلاتی ہیں۔ ان میں دریائے سوات کا سلیٹی منظر۔ قادر آباد کی جھیلوںمیں شکار۔ دریائے راوی کے کنارے کامران کی بارہ دری کے علاوہ چوک چکلہ بھی شامل ہے۔ بائیں جانب تو حاجی نہاری والے کی آبائی دکان ہے اور دائیں طرف کے بازار میں وہ سرخ حویلی اب بھی شائد ایک کھنڈر کی صورت موجود ہو جہاں ’’راکھ‘‘ کی ایک ’’ہیروئن‘‘ جوتوں پر سریش سے ایڑھیاں جوڑ کر بڑھاپے میں رزق کماتی تھی جو اپنے زمانوں کی ایک مشہور رقاصہ ہوا کرتی تھی۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہیں لوہاری دروازے کے اندر ایک پرانی اور تنگ گلی کے آخر میں ایک ایسی عجوبہ حویلی ہوا کرتی تھی جو ’’اندھی حویلی‘‘ کے نام سے جانی جاتی تھی اور میں سُراغ لگاتا اس تک جا پہنچا۔ ایک سُرنگ نما راہداری کے اندر اس کے کچھ تاریک آثار موجود تھے۔ چند شکستہ دیواریں‘ کچھ طاقچے اور راہداری میں دو یا تین قدیم کوٹھڑیاں۔ صرف ایک کوٹھڑی کا دروازہ کُھلا تھا۔ ایک بوسیدہ پلنگ پر ایک بوڑھی عورت ہماری موجودگی سے بے خبر خلا میں تَک رہی تھی۔ کوٹھڑی تقریباً نیم تاریکی میں دفن تھی کہ وہاں کوئی روشندان نہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ سینکڑوں برس پیشتر جب یہ حویلی تعمیر کی گئی تو اس کے درجنوں کمروں اور شاہانہ بیٹھکوں میں کہیں بھی کوئی کھڑکی یا روشندان نہ تھا چنانچہ یہا ںدن کو بھی شب کی سیاہی کا سماں ہوتا تھا۔ سورج کی ایک کرن بھی اس میں سرائت نہ کرتی تھی اس لئے یہ ’’اندھی حویلی‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔(جاری ہے) آخر وہ کون تھا۔ یقینا کوئی شاہی اہلکار یا شہزادہ جو روشنی سے ڈرتا تھا جس نے ایک روپوش حویلی تعمیر کی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ایک عادی شوقین شخص ہو جو اپنے شوق اندھیروں میں پسند کرتا ہو۔ اور وہ مجھے اندھی لگتی بوڑھی عورت کون تھی جو ابھی تک اس اندھے کھنڈر میں مقیم تھی۔ ہم اندھی حویلی سے باہر آئے تو دھوپ سے ہماری آنکھیں چندھیا گئیں۔ ’’مسجد مائی موراں‘‘ کا دروازہ مقفل تھا۔ اسے ایک زمانے میں کنجری دی مسیت کہا جاتا تھا۔ بعدازاں اس کا نام بدل دیا گیا۔ موراں‘ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے حرم کا حصہ تھی اور موراں سرکار اس لئے کہلاتی تھی کہ مہاراجہ نے اس کے ساتھ بیاہ کر لیا تھا۔ موراں وہ واحد عورت ہے جس کے نام کا سکّہ مہاراجہ کی خواہش پر لاہور ٹکسالی میں ڈھالا گیا۔ واہگہ کی سرحد سے پرے ہندوستان میں اب بھی ’’کنجری دا پُل‘‘ نام کا ایک قصبہ ہے ۔ مہاراجہ نے ایک خصوصی پُل موراں کے لئے تعمیر کیا تھا۔ قریب ہی ’’نیویں مسجد‘‘ کا عجوبہ تھا اور وہ بھی ڈیڑھ بجے تک بند تھی۔ آج سویر ریگل چوک سے مُڑ کر جب ہم ہال روڈ پر آئے تو کیتھیڈرل سکول کے پھاٹک کے برابر میں صرف ایک کمرے پر مشتمل جو تقریباً ایک ہزار برس قدیم مسجد ہے وہ بھی بند تھی۔ یہ مسجد لاہور کی تین قدیم ترین مساجد میں شمار ہوتی ہے۔البتہ مسجد وزیر خان کے در کُھلے تھے اور یہاں ہم نے اس کی خوش نمائی کی پرانی مہک میں نوافل ادا کئے۔ واپسی پر اگرچہ تھکاوٹ نے مجھے شکستہ کر دیا تھا پھر بھی جیلانی پارک میں سجے ہوئے گُل دائودی کے پھولوں کو دیکھنے کے لئے اپنے آپ پر جبر کر کے چلا ہی گیا۔ سبحان اللہ گل دائودی کے دو رنگ‘ ایک عنبر اور ایک خزاں زدہ پتوں ایسا۔ شائد اس سویر صرف میرے لئے ہی تخلیق کئے گئے تھے۔ نمائش کے آغاز میں’’لاہور بانسائی سوسائٹی‘‘ کے ممبر اپنے تراشے ہوئے یہ مختصر درخت سجائے بیٹھے تھے جنہیں دیکھ کر میں مزید خوش ہو گیا۔ یہ الگ بات کہ پارک کی سرد ہوا اور تھکاوٹ کے نتیجے میں ‘ میں مبتلا ہوا شدید زکام اور کپکپاتے بخار میں اور ایک ہفتہ بستر میں پڑا رہا۔شائد مُجھے گُل دائودی کے کسی پُھول کی یا پھر اندھی حویلی کی نظر لگ گئی تھی۔ لیکن‘ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموںمیں۔