خبر گرم ہے کہ زرداری صاحب بہت جلد، شاید چند دنوں میں گرفتار ہونے والے ہیں۔ ادھر زرداری صاحب بہت پراعتماد، بڑے بے فکر لگ رہے ہیں۔ اس گمان میں ہیں کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔ یہ گمان نادانی پر مبنی ہے، اس لیے کہ نئے پاکستان میں ’’ثبوت‘‘ غیر ضروری شے ہے۔ نوازشریف کے خلاف جو ہورہا ہے اسے دیکھ لیں۔ نیب نے یہ کہہ کر سزا سنائی کہ کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں ملا اور یاد رہنا چاہیے کہ نیا پاکستان بنے کوئی دوچار مہینے نہیں ہوئے۔ پورا ڈیڑھ سال ہو گیا۔ نیا پاکستان اسی دن بن گیا تھا جب ہزمجسٹیز’’اوپن‘‘ سروس، اپنے اعتزاز احسن نے جب یہ الہامی قانون جاری فرمایا تھا کہ بار ثبوت شریف خاندان پر ہے ۔یہ میگنا کارٹا زرداری صاحب پر بھی نافذ ہو سکتا ہے۔ مثلاً ان سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ فالودے، ٹھیلے والوں کے اکائونٹس سے اربوں روپے جو برآمد ہورہے ہیں، ثابت کرو یہ تمہارے نہیں ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ضمنی طور پر عرض ہے کہ اس اعتزازی الہامی قانون سے استفادہ عام کیا جائے تو ریاست کا کتنا بے بہا بھلا ہو جائے۔ یہ جو چوری ڈکیتی قتل اغوا کے مقدمات میں برس ہا برس بیت جاتے ہیں اور معاملے پھر بھی فیصل نہیں ہوتے، سب دنوں میں حل ہو جائیں۔ اب تو یہ ہے کہ کبھی گواہ نہیں ملتے تو کبھی ثبوت ضائع ہو جاتے ہیں۔ گواہ مل جائیں تو اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ وہ منحرف نہیں ہو جائیں گے۔ اسی چکر میں مدعی کی عمر تمام ہو جاتی ہے۔ اگر یہ اعتزازی قانون نافذ کردیا جائے یعنی چور سے کہا جائے، چھ ماہ میں ثابت کرو، تم چور نہیں ہو، ڈاکو سے کہا جائے اپنا ڈاکو نہ ہونا ثابت کرو، قاتل سے کہا جائے ثابت کرو قتل تم نے نہیں کیا، کسی بھی مسلمان کو پکڑ کر کہو، ثابت کرو تم مسلمان ہو، کافر نہیں ہو تو یقین کیجئے، سو فیصد مجرم چھ ماہ میں انجام کو پہنچ جائیں۔کیا پتہ ایسا ہو ہی جائے، فی الحال تجرباتی ماڈل پر کام نظر تو آ رہا ہے۔ ٭٭٭٭٭ زرداری کی گرفتاری یقینی سی نظر آ رہی ہے لیکن ضروری نہیں کہ یقینی ہی ہو اور وجہ اس کی خود صاحبقراں ’’ڈھلمل یقینی‘‘ ہے۔ نوازشریف کے بارے میں تو پوری طرح یکسو ہیں کہ نہیں چھوڑنا بلکہ انہیں کیا، ان کے پورے ٹبر کو عمر بھر کے لیے اندر رکھنا ہے۔ فواد چودھری نے ہفتہ بھر پہلے ایسے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ نوازشریف سو فیصد اندر ہوں گے۔لیکن زرداری صاحب کے معاملے میں ارادے رات کچھ اور، دن کچھ اور ہوتے ہیں۔ رات کو فیصلہ کرکے سوتے ہیں کہ کل ہر حالت میں اندر کردینا ہے۔ صبح سوچتے ہیں، کل کلاں پھر کسی سنجرانی ماڈل کی ضرورت پڑ گئی تو… ع ارادے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں بس اسی بات نے زرداری صاحب کو ابھی تک بچائے رکھا ہے۔ ٭٭٭٭٭ تحریک انصاف نے کہا ہے کہ سندھ میں غنڈہ راج ہے۔ پیپلزپارٹی والے ناراض ہیں کہ ہمیں غنڈہ کیوں کہا۔ سندھ کابینہ میں دوچار اعظم سواتی، دو چار محمودالرشید، دو چار واڈوا، دوچار چوہان، آفریدی وغیرہ ’’شرفا‘‘ ہوتے تو شاید یہ طعنہ نہ سننا پڑتا۔ ٭٭٭٭٭ خان صاحب کے دورہ چین کا حاصل وصول کیا رہا، کسی کو کچھ خاص سمجھ میں نہیں آرہا۔ البتہ آتے ہی انہوں نے جو بیان دیا ہے، اس سے آئندہ کی پیش بینی جھلکتی ہے۔فرمایا ہے، جب تک کرپشن اور منی لانڈرنگ ختم نہیں ہوتی، بیرونی سرمایہ کاری نہیں آ سکتی۔ اس نرتکی کی یاد آ گئی جس نے نو من تیل کی شرط لگائی تھی۔ خان صاحب نے خوب پیش بندی کی، سال چھ مہینے بعد کوئی پوچھے کہ جناب آپ کے دور میں سرمایہ کاری تو آئی ہی نہیں تو جھٹ سے کہہ دیں گے کہ میں نے تو پہلے ہی کرپشن اور منی لانڈرنگ والی بات کردی تھی۔ یہ کہنا تو شاید گستاخی ہو گا کہ بیرونی اداروں میں جا کر آپ پاکستان کی جو تصویر ’’پینٹ‘‘ کرتے ہیں، اس کے بعد کون سرمایہ کار آئے گا۔ ٭٭٭٭٭ منی لانڈرنگ والی بات اپنی جگہ معمہ ہے۔ ماضی میں خان صاحب اور ان کے ساتھی باقاعدگی سے روز بتایا کرتے تھے کہ ہر روز پتہ نہیں کتنے ارب روپے کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔ اب حکومت کے وزیر خزانہ کا فرمانا یہ ہے کہ منی لانڈرنگ کا کوئی ثبوت ہے نہ اندازہ۔ یعنی وہ بھینس ہی غائب جس سے دودھ کا ’’تلائو‘‘ بھرنا تھا۔اور منی لانڈرنگ ہی کی بھینس تو غائب نہیں ہوئی، بیرون ملک پڑے ہوئے دو سو ارب ڈالر مالیت کی وہ بھینس بھی تو لاپتہ ہے جس نے خان صاحب کے حلف اٹھانے کے اگلے روز ہی وطن واپس آ جانا تھا۔ سوئس بینکوں والی بھینس بھی کھو گئی اور وہ بھی جس کا ذکر خان صاحب نے یوں کیاتھا کہ برسراقتدار آتے ہی آٹھ ہزار ارب کا ٹیکس اکٹھا کرکے دکھائوں گا۔ یعنی ایک بھینس کیا، پورا طویلہ ہی غائب ہوگیا، کون رسہ گیر یہ ساری بھینسیں لے گیا؟ ٭٭٭٭٭ ادھر سٹاک مارکیٹ کے ’’ذرائع‘‘ نے خبر دی ہے، شاید جھوٹی ہی دی ہے کہ جتنا سرمایہ ان دو مہینوں میں مفرور ہوا ہے، اتنا پچھلے پانچ برس میں نہیں ہوا۔ داد دینے والے اس کی داد بھی تو دیں۔ ٭٭٭٭٭ مولانا سمیع الحق شہید کے صاحبزادے مولانا حامد الحق نے کہا ہے کہ ان کے والد کے قتل کی کڑیاں افغانستان سے ملتی ہیں۔آپ تو سرحد پار چلے گئے جبکہ کڑیاں ادھر ہی لگتی ہیں۔ افغانستان میں کڑیاں ڈھونڈنے کا مطلب ہے آپ قاتل پکڑوانے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتے۔ خیر، دلچسپی رکھیں گے تو بھی کیا کرلیں گے۔ لیاقت علی خان سے لے کر بے نظیر تک کسی کے قاتل ملے جو آپ کے والد کے مل جائیں گے۔ مولانا کو طالبان اپنا باپ کہتے تھے مگر روحانی معنوں میں۔ افغان جہاد یا مذاکرات وغیرہ کے معاملات میں ان کا کچھ اثر نہیں تھا۔ مفتی شامزئی ان سے بڑھ کر تھے، طالبان نے ان کی نہیں سنی، ان کی کیا سنتے۔ افغانستان میں خونریزی جاری ہے، قدرت کو یہی منظور ہے۔ طالبان کا اس وقت 33 فیصد ملک پر قبضہ ہے ۔مزید بیس فیصد رقبہ ان کے اثر والا ہے یعنی اس میں وہ جب چاہیں ہٹ اینڈ رن Hit and Runکرسکتے ہیں۔ افغان حکومت کے پاس لگ بھگ پچاس فیصد رقبہ ہے۔ یعنی ففٹی ففٹی کی صورت میں۔ دونوں فریق اسی ففٹی ففٹی کو فارمولا کیوں نہیں بنالیتے۔ جان تو چھوٹے کسی صورت۔