سندھ اور بلوچستان میں طوفانی بارشوں کے باعث مختلف واقعات میں اٹھارہ افراد جاں بحق ہو گئے ،متعدد لاپتہ اور کئی ایک کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔درجنوں گھر اور کھیت تباہ ہو چکے ہیں، مویشی منہ زور پانی میں بہہ گئے اور سڑکیں ٹوٹنے سے نقل و حمل کا عمل متاثر ہوا ہے۔ بارشیں ہر سال آتی ہیں لیکن ہم ان سے رونما ہونے والی تباہی روک پائے ہیں نہ اس پانی کو ذخیرہ کر کے آبی قلت کے شکار علاقوں کو سہولت فراہم کرسکے۔ حالیہ بارشوں سے اگرچہ کراچی جیسا بڑا شہر بھی متاثر ہوا لیکن کھلے علاقوں میں اس طرح کی صورت حالپیدا ہونا انتظامی ناکامی کے سوا کچھ نہیں ۔سندھ کے ضلع دادو میں کیر تھر کے پہاڑی سلسلوں میں بارشوں سے ندی نالے بپھر گئے ہیں۔تحصیل جوہی کے علاقے کاچھو کے پہاڑی علاقوں میں ندی نالوں میں طغیانی آگئی جب کہ کئی دیہات متاثر اور متعدد زیر آب آگئے ہیں۔ سیلاب میں پھنسے افراد کو بچانے کے لیے پاک فوج اور رینجرز کے دستے علاقے میں پہنچ گئے ہیں، سیلاب میں پھنسے متعدد افراد کو نکال لیا گیا ہے جب کہ دیگر کو نکالنے کا کام جاری ہے۔ سیلاب سے دادو کے 12 دیہات متاثر ہوئے ہیں، حالیہ بارشوں اور طوفان کے باعث نئے گج ڈیم کے حفاظتی پشتے کو نقصان پہنچا اورڈیمکے حفاظتی بند میں شگاف پڑنے سے قریبی علاقے زیرآب ہیں۔آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی انجینئرز ، آرمی میڈیکل ٹیمیں اور پاک فوج کے جوان موٹر بوٹس کے ساتھ متاثرہ علاقوں میں پہنچ گئے ہیں۔ حیدرآباد، تھرپارکر، مٹھی، بدین، نوکوٹ، ٹنڈو محمد خان سمیت سندھ کے مختلف حصوں میں کہیں ہلکی اور کہیں تیز بارشوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے۔پنجاب کے شہروں رحیم یار خان، چکوال میں تیز بارش ہوئی جب کہ کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلوں میں بارش کے بعد ندی نالوں میں طغیانی ہے۔ صوبوں کے مابین دریائی پانی کو تقسیم کرنے والے ادارے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی ارسا کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آبی ذخائر نہ بننے کی وجہ سے سالانہ 21 ارب ڈالر مالیت کا پانی سمندر میں شامل ہو جاتا ہے ۔پانی ذخیرہ کرنے کا بندوبست نہ ہونے وجہ سے پاکستان سالانہ 29 ملین ایکٹر فٹ پانی سمندر گرتا ہے جبکہ دینا بھر میں اوسطً یہ شرح 8.6 ملین ایکٹر فٹ ہے۔ارسا کے حکام نے بتایا کہ پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 30 دن کی ہے۔ دنیا بھر میں دستیاب پانی کا 40 فیصد ذخیرہ کیا جاتا ہے پاکستان میں دستیاب پانی کا محض 10 فیصد ذخیرہ کرتا ہے۔ ارسا کیمطابق ہر سال ضائع ہونے والے اس پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے منگلا ڈیم جتنے تین بڑے ڈیم درکار ہیں۔ایک طرف جہاں پاکستان اربوں ڈالر مالیت کا پانی سمندر میں پھینک رہا ہے وہیں دوسری جانب آبی ذخائر نہ ہونے کے سبب پاکستان کو پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب بارشیں یا تو بہت کم ہوتی ہیں یا پھر بہت زیادہ بارشوں سے طوفان آ جاتے ہیں۔ارسا کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں 15 سے 20 فیصد کمی آئی ہے۔ پاکستان میں پانی ذخیرے کرنے کے لیے دو بڑے ڈیم تربیلا اور منگلا میں بھی مٹی بھرنے کی وجہ سے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہو رہی ہے۔ماحولیاتی اْمور کی نگرانی کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ دریاوں میں جہاں سے پانی آتا ہے وہاں درختوں کی کٹائی اور شدید بارشوں کی وجہ سے اچانک سیلاب آنے کی وجہ سے ڈیموں میں پانی کے ساتھ آنے والی مٹی کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔مٹی بھر جانے سے تربیلا میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 9.6 ملین ایکٹر فٹ سے کم ہو کر اب 6 ملین ایکٹر فٹ رہ گئی ہے۔بلوچستان اور سندھ ہی نہیں پنجاب کے بہت سے اضلاع میں بھی پینے اور کھیتی باڑی کے لئے پانی کی قلت ہے۔ستم یہ کہ یہی علاقے بارشوں کے دوران سیلاب کی زد میں آتے ہیں ۔ بلوچستان کے ساحلی ضلع شہر گوادر میں صاف پانی کا مسئلہ ایک مرتبہ پھر سنگین ہوگیا ہے۔ سال کا زیادہ حصہ خشک سالی رہنے کا فوری اثر گوادر میں گھریلو استعمال کے پانی کی قلت کے حوالے سے پڑا ہے جبکہ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے گوادر اور اس کے نواحی علاقوں میں پانی کی فراہمی کا واحد ذریعہ آکڑہ ڈیم مکمل طور پر خشکہو جاتا ہے۔اس وقت گوادر شہر اور اس کے نواحی علاقوں کو ٹینکروں کے ذریعے 160 کلومیٹر دور ضلع کیچ میں واقع میرانی ڈیم سے پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔گوادر کو پانی فراہم کرنے والے محکمہ پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ کا لہناکہ گوادر میں لوگوں کی پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے روزانہ 230 سے 240 ٹینکر میرانی ڈیم سے گوادر کے لیے پانی لاتے ہیں۔ حالیہ بارشوں کے دوران سول انتظامیہ کی ناکامی کے بعد پاک فوج سے مدد لی گئی جو حلقے قومی معاملات میں فوج کے کردار کو محدود کرنے کی بات کرتے ہیں انہیں شہری انتظامیہ کی استعداد بڑھانے کے لیے صرف دعوئوں سے نہیں عمل سے خلوص نیٹ کا اظہار کرنا ہوگا۔ برسات سے قبل نالوں اور نہروں کی صفائی کے لیے مہم مستقل بدعنوانی کا ذریعہ ثابت ہورہی ہے۔ فنڈز صفائی پر خرچ ہونے کی بجائے افراد کی جیب سے چلے جاتے ہیں۔ صوبائی سطح پر مستقل نوعیت کا ایسا انتظام ہونا چاہیے جو بارشوں اور سیلاب کی صورتحال میں اپنے آپ متحرک ہو سکے۔ بلوچستان‘ سندھ اور پنجاب کے وہ علاقے جو مستقل سیلابوں کی زد میں رہتے ہیں وہاں بارشی پانی کو ذخیرہ کرنے کے منصوبے بلاتاخیر شروع ہونے چاہئیں۔ یہ حکومت کی نالائقی ہوگی کہ وہ بھی گزشتہ حکومتوں کی طرح اگر اس مسئلے کو فراموش کر بیٹھے۔ پاکستان کے سوا دنیا میں شاید ہی کوئی ملک ہو جہاں اب بارش ہرسال مالی و جانی نقصان کا باعث بن رہی ہوں اور وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔