طبقاتی تقسیم میںدروپدی مرمو کا بھارت کی پہلی خاتون قبائلی صدر بنا دینا فریب ہے۔ صدیوںسے ذات پات ہی ہندو مذہب اور ان کی سماجی زندگی کے ہر پہلوکی بنیاد رہی ہے۔ اس پیچیدہ نظام میں ہندوبرہمن ذات کی اعلی ٰجبکہ باقی ہندوں دوسرے، تیسرے اورچوتھے درجے کا شہری ہے ۔بھارت کے ذات پات اور طبقاتی تقسیم پراستوار نظام میں دیہی آبادی کی ترتیب خاص طور پر ذات پات کی بنیاد پر ہوتی رہی ہے اور اونچی اور نچلی ذاتوں کے لوگ بالکل علیحدہ دائروں میں زندگیاں بسر کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان کے پانی کے کنوئیں علیحدہ ہیں۔ برہمن شودروں کے ساتھ نہ کھانا کھا سکتے، نہ پانی پی سکتے اورنہ ہی بچوں کی شادیاں کرتے ہیں۔ رہی بات دیگرمذاہب کے ماننے والوں کی توان کادرجہہندوئوں کی آپس میں کھینچے جانے والی برہمن اورشودرکی اس لکیرسے بھی نیچے ہے۔ بھارت میں موجود ذات پات پر مبنی نظام دنیا بھر میں سماجی سطح پر طبقاتی تقسیم کی سب سے پرانی صورت ہے۔ اس نظام کے تحت ہندوؤں کو ان کے کرما (کام) اور دھرما (ذمہ داری) کی بنیاد پر مختلف سماجی گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔تین ہزار سال پرانی کتاب مانوسمرتی میں، جسے ہندو قوانین کا سب سے اہم ماخذ سمجھا جاتا ہے، ذات پات کے نظام کو سوسائٹی میں تنظیم اور ترتیب کی بنیاد پر تسلیم کیا گیا اور اس کے حق میں دلائل دیئے گئے ہیں۔ذات پات کا نظام ہندوؤں کو برہمن، شتری، ویش اور شودر کے نام سے چارطبقوںمیں تقسیم کرتا ہے۔ہندو برہمنوں کے مطابق اس تقسیم کا ماخد تخلیق سے متعلقہ ہندو دیوتا’’ براہما ‘‘ہے۔اس طبقاتی تقسیم میں سب سے اوپر براہمن آتے ہیں جن کا کام تعلیم تربیت اور دماغی کاموں کی انجام دہی ہے۔اس کے بعد شتریوں کا درجہ آتا ہے جو پیشہ کے لحاظ سے حکمران اور سپاہ گری سے متعلق ہیں۔تیسرے نمبر پر ویش ہیں جو تجارت پیشہ ہیں ۔سب سے آخر میں شودروں کا نمبر آتا ہے۔ان ذاتوں کو مزید ثانوی ذاتوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جس کی بنیاد مخصوص پیشوں پر ہوتی ہے۔اس خاکے میںاچھوتوں یا دلتوں کا شمار ہندو ذات پات کے نظام سے باہر سمجھا جاتا ہے۔ بھارت کے وضع کردہ ذات پات کے اس نقشہ میں23 کروڑ دلتوں اور12کروڑ قبائلوں کو اکیسویں صدی میں بھی امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔تحقیق کے مطابق ہندو برہمن ذات کے مقابلے میںہندئووں کی دیگر ذاتوںکی رہائش،سہولیات ، دولت اور صحت کے لحاظ سے اوسط زندگی میں فرق پایاجاتا ہے۔ کئی باراس موضوع پرتحقیق نے یہ ثابت کردیاکہ آمدن کے تمام خانوں میں دلت اور آدیواسی لوگ اعلی ذات کے ہندو یعنی برہمنوں کے مقابلے میں کم ہی جیتے ہیں۔تحقیق کے دوران اس بات کے بھی شواہد پائے گئے ہیں کہ بھارت میں پسماندہ گروہوں سے تعلق رکھنے والوںسے سکولوں اور سرکاری اہلکاروں کی جانب سے امتیازی سلوک کے باعث ان کی جسمانی اور ذہنی صحت پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس طرح کے تجربات کو تناؤ سے چلنے والی دائمی بیماریوں کی اعلی سطح سے جوڑا گیا ہے۔ برطانوی سامراج سے آزادی پانے کے بعد بھارت کے آئین ساز ڈاکٹر امبیڈکر کا تعلق ہندئووں کی دلت ذات سے تھا انہوں نے دلتوں کے ساتھ روارکھے جانے والے بدترین سلوک پرآواز اٹھائی کہ دلتوں کو بنیادی حقوق دیے جائیں۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ مسلمانوں کی طرح دلت ذات کو بھی جداگانہ انتخابات کا حق دیا جائے تاکہ وہ اپنے نمائندے منتخب کر سکیں مگر گاندھی نے اس پر سخت احتجاج کیا، کیونکہ وہ ہندو مت میں ذات پات کے نظام کے قائل تھے اور جو جس ذات میں ہے اس کے اسی میں رہنے پر یقین رکھتے تھے۔ ڈاکٹر امبیڈکر کے اس مطالبے کی مخالفت میں انہوں نے بھوک ہڑتال کی۔تاکہ ڈاکٹر امبیڈکر اپنے مطالبے سے دست بردار ہو جائیں۔ اس پر انہوں نے ایک بار یہ بھی کہا کہ اگر گاندھی ایک بار میرے ساتھ کھانا کھا لیں تو میں یہ مطالبہ چھوڑ دوں گا۔مگر بالآخر ڈاکٹر امبیڈکر کو مجبور ہونا پڑا کہ وہ گاندھی سے مل کر کوئی راستہ نکالیں۔ چنانچہ پونا معاہدے کے تحت 1932ء میں یہ قرار پایا کہ دلت ذات کے لوگوں کے لیے ریزرویشن میں زیادہ نشستیں کر دی جائیں گی۔آخر میں ڈاکٹر امبیڈکر اس پر مایوس ہو کہا کہ ہندومت میں رہتے ہوئے دلت ذات کے لوگوں کو ان کے حقوق نہیں ملیں گے۔ اس لیے انہوں نے اپنے تین سو ساتھیوں سمیت بدھ مت کو اختیار کر لیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ ہندو دیوتاؤں کو گھر سے باہر پھینک دیں۔ڈاکٹر امبیڈکر بھارت کا دستور لکھنے والوں میں سے ہیں۔ جس میں انہوں نے کوشش کی ہے کہ تمام لوگوں کو برابر کے حقوق دیئے جائیں، ڈاکٹر امبیدکر نے جب بھارت کا آئین مرتب کیا توانہوں نے اس میں لکھاہے کہ اس دیش میںذات پات کی بنیاد پر تفریق پر پابندی ہو گی۔لیکن اس کتاب کواس وقت بالائے طاق دیا گیا جب برہمنوں کے مقابلے میں اچھوتوں اورقبائل کامعاملہ درپیش آیا ۔بھارتی آئین کے لکھے جانے کے باوجودبھارت میں ذات پات کی بنیاد پر دلت اورہندوئوںکی دیگر نچلی ذاتوں اورقبائلی ذات کے ساتھ تعصب کا برتاؤ ہوتا ہے۔ 2001ء کی مردم شماری کے فارم میں’’ ذات ‘‘کا خانہ رکھا گیا تو اس پر ہندئووں کی نچلی ذاتوں کے لیڈروں کی طرف سے سخت احتجاج کیا گیا انہوں نے مطالبہ کیاکہ یہ انگریزی دور کا ورثہ ہے جسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن بھارت میں ذات پات کی اور تعصبات کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ خونی انقلاب برپاکئے بغیر اکھیڑیں نہیں جاسکتی ۔ بھارتی دانشور ارون دتی رائے نے ڈاکٹر امبیڈکر کی کتاب’’انائیلیشن آف دی کاسٹس‘‘ ایک طویل تعارف کے ساتھ دوبارہ شائع کی ہے۔ امبیڈکر نے یہ کتاب اپنے خرچے سے شائع کرائی تھی اور پھر اس کا دوسرا ایڈیشن نہیں چھپا تھا۔ارون دتی رائے نے تعارف کا عنوان رکھا ہے’’ڈاکٹر اینڈ دی سینٹ‘‘ یعنی ڈاکٹر امبیڈکر اور گاندھی ۔ اس میں اس نے ثابت کیا ہے کہ امبیڈکر کی شخصیت سے زیادہ اہم ہے۔ لہٰذا بھارت میں ذات پات کی یہ جنگ ابھی جاری ہے۔الغرض !ذات پات اورطبقاتی تقسیم پائے جانے کی وجہ سے بھارتی معاشرہ پیچیدگی کا شکار ہے اوراس نے بھارت کی سوسائٹی کو تقسیم کر رکھا ہے ۔ ذات پات کے اس شعور نے شمالی اور جنوبی ہندوستان کے درمیان اندر ہی اندرایک وسیع خلیج اورایک بڑاتضادات موجودہے یہ خلیج پاٹی گئی اورنہ ہی پاٹی جاسکتی ہے۔توایسے میں ایک قبائلی عورت کابھارت کاصدر بنادینابے معنی ہے۔