وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے کراچی میں پی آئی اے کے مسافر طیارے کو پیش آنے والے حادثے کی رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق طیارے کے دونوں پائلٹ بدحواسی کا شکار تھے اور ایئر ٹریفک کنٹرولر نے بھی ہنگامی حالات میں ان کی رہنمائی نہیں کی۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جہاز تکنیکی طور پر بالکل درست تھا۔پائلٹ اور معاون پائلٹ کے دماغ پر کورونا سوار تھا۔ پائلٹ اور اس کا خاندان دونوں کورونا سے متاثرہونے پر اس معاملے پر باتیں کرتے رہے۔ ابتدائی رپورٹ میں کہنا ہے کہ لینڈنگ کے وقت بلندی زیادہ تھی‘ پائلٹ نے کنٹرولر کی ہدایات نظر انداز کیں تاہم انجن سے آگ نکلنے پر ایئر ٹریفک کنٹرولر نے پائلٹ کو نہیں بتایا۔ وزیر ہوا بازی نے کراچی میں حالیہ فضائی حادثے کے اسباب کے علاوہ ملک میں بڑھتے ہوئے ہوائی حادثات کے پس پردہ حقائق سے بھی آگاہ کیا۔ یہ حقائق بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ایسے 262پائلٹ کام کر رہے ہیں جن کے لائسنس اور ڈگریاں جعلی ہیں۔ قومی ادارے میں سیاسی بنیادوں پر غیر ضروری افراد کو بڑی تعداد میں بھرتی کیا جاتا رہا۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ پائلٹس نے بے ضابطگیوں کا اعتراف بھی کیا ہے۔ پی آئی اے انیس سو نوے کے عشرے تک دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شمار ہوتی رہی ہے۔بے نظیر بھٹو پہلی بار اقتدار میں آئیں تو کئی نکالے گئے ملازمین کو بحال کرنے کے ساتھ بہت سارے نئے افراد بھرتی کر لئے گئے۔ ان کے بعد میاں نواز شریف کی حکومت میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا۔ دونوں جماعتوں نے پی آئی اے کی بربادی کا عمل تیز کرنے کے لئے اپنی حامی یونینز کی سرپرستی کی۔ یہ یونین عہدیدار ان جماعتوں کی قومی سیاست میں سرگرم رہے ، جب ان کی جماعت اپوزیشن میں ہوتی تو یہ پی آئی اے کی ترقی میں روڑے اٹکاتے تاکہ ادارے میں خرابیوں کا الزام حکومت کے سر آئے۔ اس روش نے قومی ایئر لائن میں خرابیوں کی حوصلہ افزائی کی‘بدانتظامی کی سرپرستی کی گئی اور اقربا پروری کو استحکام ملا۔ آج بھی دونوں جماعتوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے پی آئی اے سے مراعات حاصل کرتے رہے۔ سیاسی بھرتیوں نے ادارے پر اس کی سکت سے زیادہ مالی دبائو ڈالا اور آخر کار ایک منافع بخش قومی ادارہ خسارے کی دلدل میں دھنس گیا۔ اس طرح کا سلسلہ سٹیل ملز کے ساتھ رہا ،وہاں پر بھی دونوں سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے کارکنان کو بھرتی کروایا بعد ازاں یونین بنا کر وہاں بھی بھرپور سیاست کی گئی ،بڑے بڑے عہدوں پر تعینات لوگ دفتر میں نوکر ی کرنے ہی نہیں آتے تھے اور گھروں میں بیٹھ کر ہی تنخواہ وصول کرتے تھے ۔جس کے باعث سٹیل ملز تباہی کے دھانے پر پہنچی ،ایسا ہی پی آئی اے کے ساتھ کیا گیا ،اب بھی وہاں جعلی ڈگریوں پر پائلٹ تعینات ہیں ،یونین کی پشت پناہی کے باعث وہ جہاز بھی اڑاتے ہیں ،جو مسافروں کے ساتھ زیادتی ہے ۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں اصلاح احوال کی کوشش کی گئی لیکن دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے بھرتی کئے گئے افراد نے یونین کی طاقت سے رکاوٹیں کھڑی کیں۔ ایک تکنیکی نوعیت کی خدمات فراہم کرنے والے ادارے میں ایسا ماحول پیدا کر دیا گیا کہ لوگ بدعنوان اور کام چور افراد کو جمہوریت کی جدوجہد کرنے والا ہیرو سمجھنے لگے۔ کئی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن گزشتہ پچیس تیس برسوں میں پی آئی اے کے ذریعے غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد کی کوششیں نہ کی گئیں۔میاں نواز شریف کی گزشتہ حکومت میں آئے روز جہازوں سے منشیات برآمد ہوتیں۔ ایئر ہوسٹس اور پائلٹ قیمتی اشیاء کی سمگلنگ میں ملوث رہے۔ جان بوجھ کر پروازوں میں تاخیر کی جاتی تاکہ لوگ قومی ایئر لائن سے متنفر ہوں۔ ایسی بہت سی خرابیاں ہنوز موجود ہیں تاہم منشیات سمگلنگ کے واقعات کچھ مدت سے رک گئے ہیں۔گو موجودہ حکومت نے جہازوں میں تاخیر کے سلسلے پر بھی کافی حد تک قابو پا لیا ہے لیکن پی آئی اے قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے ۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پی آئی اے کے طیاروں کو گزشتہ برسوں میں اندرونی ملک جس قدر حادثات پیش آئے خطے کے دیگر ممالک میں ایسے حادثات کی مجموعی تعداد بھی اس سے کم ہے۔ ہر حادثے کے بعد حکومتیں تحقیقات کا اعلان کرتی رہیں۔ چند ہفتے مرنے والوں کے لواحقین کو وعدوں سے بہلایا جاتا اور پھر خاموشی اختیار کر لی جاتی۔ شاید یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ہوائی حادثے کی مفصل تحقیقات کروائی گئیں۔ اگرچہ تفصیلی رپورٹ آنے میں ابھی کچھ وقت مزید لگ سکتا ہے لیکن ابتدائی رپورٹ نے جن حقائق سے پردہ اٹھایا ہے وہ کم تشویشناک نہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے اتنے بڑے ادارے میں کوئی کام قاعدے اور ضابطے کے تحت نہیں ہو رہا۔ جعلی ڈگریوں کے ذریعے اہل افراد کا حق مارنے والے ایک ہی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ طبقہ بددیانت ہے۔ جائز ناجائز ذرائع سے جمع دولت کے بل بوتے پر بغیر امتحان دیئے بغیر ضروری تربیت کے ڈگریاں اور لائسنس بنوا لیتا ہے پھر سیاسی طاقت کے زور پر اعلیٰ ملازمتوں پر قابض ہو جاتا ہے۔ طیارہ حادثہ کی رپورٹ میں جن غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ان کا سدباب ضروری ہے تاکہ مزید انسانی جانیں ضائع نہ ہو سکیں لیکن پی آئی اے کو بچانے کے لئے ضروری ہے کہ ادارے میں انتظامی سطح پر سخت فیصلے کئے جائیں، جو لوگ اصلاحات کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کریں ان کے کوائف کی پڑتال کی جائے اور اس سلسلے میں کسی طرح کی مصلحت کو قبول نہ کیا جائے۔حکومت اگر پی آئی اے کو پائوں پر کھڑا کرنا چاہتی ہے تو اسے بلاتفریق اور بغیر کسی سیاسی دبائوکے سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔