متحدہ مجلس عمل کے قائدین نے طیب اردوان کو ترکی کا صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دی ہے کیا متحدہ مجلس عمل کے رہنما غور فرمائیں گے کہ ترکی کی اسلامی پارٹی کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ بظاہر طیب اردوان کی پارٹی کا نام جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ہے اور ان کے صدارتی مد مقابل محرم انس کی کی پارٹی کا نام پیپلز پارٹی ہے مگر ساری دنیا کی نظریں ترکی پر اسی لیے لگی ہوئی تھیں کہ یہ صدارتی الیکشن ترکی کی اسلامی اور سیکولر پارٹی کے درمیان ہے ایک معرکہ شمار کیا جا رہا تھا مغرب تو باقاعدہ لبرلز اور سیکولرز کی جیت کی امید لگائے بیٹھا تھا اور وہاں کی دینی مخالف قوتیں اس انتظار میں تھیں کہ ادھر لبرلز کی کامیابی کا اعلان ہو اور ادھر وہ جمہوریت پسند اسلام کے خلاف توپوں کے دہانے کھول دیں۔پاکستان میں 25جولائی کے انتخاب کے لیے انتخابی مہم کا آغاز ہو چکا ہے اتوار کے روز عمران خان نے میانوالی سے اور متحدہ مجلس عمل نے پشاور سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا اس موقع پر مولانا فضل الرحمن اور سینیٹر سراج الحق ترکی کے انتخابی معرکے میں طیب اردوان کی کامیابی پر بہت فرحاں و شاداں نظر آئے اور انہوں نے طیب اردوان کو مبارکباد بھی دی بلکہ سینیٹر سراج الحق نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ جیسے 24جون کو ترکی کی اسلامی پارٹی کا کامیابی نصیب ہوئی اسی طرح 25جولائی کو پاکستان کی اسلامی پارٹیوں کو کامیابی ملے گی۔اللہ کرے ایسا ہی ہو مگر کیا اس کے لیے متحدہ مجلس عمل بالخصوص جماعت اسلامی پاکستان نے ترکی کے اسلامی ماڈل پر کبھی غور کیا اور غورو فکر کے بعد اس ماڈل کو اپنی سیاسی پالیسی کے طور پر اپنایا ہے؟ جماعت اسلامی کے سیاسی و فکری حوالے سے ترکی کی اسلام پسند سیاسی جماعتوں سے ترک مفکر اسلام نجم الدین اربکان کے زمانے سے گہرے روابط ہیں۔ ترکوں کی یہ اسلامی لیڈر شپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی فکر اور ان کے لٹریچر سے بہت متاثر تھی۔ 1970ء میں پاکستانی سیاست کی قیادت کرنے والی جماعت اسلامی 70ء کے انتخابات کے بعد مسلسل پسپائی اختیار کرتے ہوئے سیاسی طور پر ڈھلوان کے سفر پر گامزن تھی۔ جماعت اسلامی کو 2002ء کے انتخابات میں سنبھلنے اور ایک بار پھر پاکستانی سیاست میں قائدانہ کردار ادا کرنے کا موقع ملا تھا اس اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل ایوان میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت تھی اور مولانا فضل الرحمن قائد حزب اختلاف تھے۔ اتنی بڑی کامیابی کے بعد یکایک 2008ء کے انتخابات کا مرحوم قاضی حسین احمد نے بائیکاٹ کر دیا اس بائیکاٹ سے اپنے پرائے سب بے حد حیران و پریشان ہو گئے جماعت اسلامی کے پاس اس بائیکاٹ کا کوئی جواز نہ تھا۔ اس موقع پر ہم نے بصد ادب اپنے کالم میں عرض کیا’’نو بائیکاٹ‘‘ اور بائیکاٹ کے جملہ نقصانات پیش کیے۔اور یہ بھی لکھا کہ آپ انتخاب میں حصہ لیں نہ لیں کل جب انتخابی نتائج میں دینی جماعتوں کی چند سیٹیں آئیں گی تو ساری دنیا میں یہ خبر آئے گی کہ پاکستان میں اسلامی پارٹیوں کو کامیابی نہیں ملی۔ اس ہم تاریخی موڑ پر جماعت اسلامی کے ممتاز دانشور پروفیسر خورشید احمد بھی انتخابی ٹریک سے ہٹنے پر جماعت اسلامی کو نہ روک سکے اس بائیکاٹ کا جماعت اسلامی کو ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ ہم نجومی ہیں نہ ہی ہمیں اپنی پیش گوئیوں کے صداقت پر کبھی اصرار ہوا ہے مگر ویسا ہی ہوا جیسا عرض کیا تھا۔ سارے عالمی میڈیا پر یہ خبر جلی سرخیوں کے ساتھ چلی کہ ’’پاکستان میں اسلامی پارٹیوں کو شکست فاش‘‘ جماعت اسلامی ساری مسلم دنیا کی اسلامی پارٹیوں کے لیے ایک ’’مدراسلامی جماعت ‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے جماعت اسلامی ایک طے شدہ سیاسی منصوبے اور پروگرام پر کاربند رہنے کی بجائے ہر چند سال بعد کسی نئے مہم جوئی پر نکل کھڑی ہوئی نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ ان کی پچھلی پالیسی کے مطابق جماعت کے ووٹر پیچھے رہ جاتے ہیں اور کسی اور کے ہاتھ لگ جاتے ہیں اور جماعت کہیں دور نکل جاتی ہے۔1993ء سے لے کر 2002ء تک یہی ہوتا رہا اور پھر 2008ء سے لے کر اب تک جماعت سنبھل نہیں پائی اور 2002ء والی کامیابی کو ایک بار پھر حاصل کرنے کے لیے امیر جماعت متحدہ مجلس عمل کے ساتھ تگ و دو کر رہے ہیں اگر جماعت اسلامی 2008ء کا بائیکاٹ نہ کرتی اور 2002ء کو ملنے والی سیاسی پرواز کا عمل جاری رکھتی تو اس وقت جماعت بہت آگے نکل چکی ہوتی۔ 2002ء کی انتخابی کامیابی کے بعد متحدہ مجلس عمل کو صوبہ خیبر پختونخواہ میں پورے پانچ برس اقتدار ملا تھا اس دوران متحدہ مجلس عمل اس صوبے کو ایک مثالی صوبہ بنا سکتی تھی آج متحدہ مجلس عمل تعلیم صحت اور معیشت میں زبردست تبدیلیاں لانے کی نوید سنا رہی ہے اگرچہ ان کے پانچ سالوں میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت پر کرپشن کا کوئی بڑا الزام لگا اور نہ کوئی بڑا سکینڈل بنا مگر متحدہ مجلس عمل اسے کوئی مثالی صوبہ بنانے میں بھی کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکی مجلس عمل کی حکومت یکساں نظام تعلیم نہ نافذ کر سکی‘ہسپتالوں کی حالت زار سدھار نہ سکی۔ پولیس کے کلچر میں کوئی تبدیلی نہ لا سکی صوبے کے سیاحتی شمالی علاقہ جات میں جنگلات کو فروغ نہ دے سکی اور نہ ہی وہاں ٹورسٹس کے لیے کوئی شاندار سہولتیں بہم پہنچا سکی۔ ہم نے جناب قاضی حسین احمد کے ذریعے مجلس عمل کی حکومت کو اوورسیز پاکستانیوں کی سرمایہ کاری کا ایک شاندار عملی منصوبہ ارسال کیا تھا مگر اس پر کوئی عملدرآمد نہ ہوا۔ گزشتہ پانچ برس کے دوران جماعت اسلامی صوبہ خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کی شریک سفر رہی اور جماعت کے وزراء کی نیک نامی پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکا ۔ طیب اردوان کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ اردوان کی کامیابی کا راز دو لفظی ہے۔ خدمت عوام اور ترکی کا بلدیاتی نظام۔ طیب اردوان کی سیاسی قسمت کا ستارہ ان کی استنبول کارپوریشن کی میئر شپ کے زمانے میں چمکا۔ 1994ء سے 1998ء تک وہ میئر استنبول رہے اس وقت وہ رفاہ پارٹی یعنی ترکی جماعت اسلامی کی طرف سے میئر منتخب ہوئے تھے۔ طیب اردوان استنبول کارپوریشن تاریخ کے سب سے زیادہ ہر دلعزیز میئر تھے۔ انہوں نے لگن اور جانفشانی سے کام کیا اور استنبول کے شہریوں کو وہ وہ سہولتیں باہم پہنچائیں جن کا اس سے پہلے تصور بھی محال تھا۔ ہم نے اسی زمانے استنبول کی کارپوریشن کے مرکزی دفتر کو وزٹ کیا تھا اور کارپوریشن کے چیف ایڈمنسٹریٹرنے نہایت محبت اور اپنائیت کے ساتھ ہمارا استقبال کیا تھا اور کارپوریشن کی خدمات پر تفصیلی بریفنگ دی تھی۔ 2002ء سے طیب اردوان ایک نئے سیاسی سفر پر نکل کھڑے ہوئے اس سفر پر گامزن ہونے سے پہلے انہوں نے رفاہ پارٹی سے اپنی راہیں جدا کر لیں مگر اسلام کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ پہلے سے مضبوط تر ہو گئی اس سابقہ کمٹمنٹ میں کوئی کمی نہ آئی۔ البتہ انہوں نے استنبول والے خدمات عوام ماڈل کو سارے ترکی میں متعارف کروایا۔2002ء سے لے کر اب تک وہ کبھی صدر کبھی وزیر اعظم منتخب ہوتے چلے آ رہے ہیں اسی دوران عوام کے ان کے ساتھ رابطے مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے گئے۔2018ء میں جب ایک فوجی انقلاب لانے یک سازش کی گئی تو ترک عوام اپنے محبوب رہنما کی کال پر ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔ اس وقت طیب اردوان نہ صرف ترک عوام کے محبوب رہنما ہیں بلکہ اسلامی دنیا کے مسلمانوں کے لیے بھی ایک رول ماڈل ہیں۔ معاملہ فلسطین کا ہو یا کشمیر کا مصر کا ہو یا میانمار کا وہ حدیث نبوی کے مطابق ہر مسلمان کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھتے ہیں ۔اور تمام عالمی مصلحتیں ارو رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے مسلمانوں کی مدد کو جا پہنچتے ہیں اسی لیے آج وہ مسلمانوں کی دلوں میں دھڑکن بن چکے ہیں تبھی تو متحدہ مجلس عمل کے مولانا فضل الرحمن اور سینیٹر سراج الحق ان کے ایک بار پھر صدر منتخب ہونے پر بہت مسرور تھے مگر سوال یہ ہے کہ کیا متحدہ مجلس عمل کے رہنما غور فرمائیں گے کہ ترکی کی اسلامی پارٹی کی کامیابی کا راز کیا ہے اور یہ راز پا لینے کے بعد کیا وہ کامیابی کا مقبول ترک ماڈل اختیار کریں گے؟ اس سوال کا جواب متحدہ مجلس عمل کے قائدین و مفکرین کے ذمے ہے۔