ہمارے نزدیک زندگی کی گری پڑی جزئیات کو پلکوں سے اُٹھا کے ہونٹوں پہ سجانے کا نام مزاح ہے۔ تفننِ طبع کے لیے سلیقے اور شعور کے ساتھ کوئی خوش گوار بات کرنے یا گھڑنے کا نام ظرافت ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ لطافت،شرافت اور ظرافت انسانی زندگی کو قابلِ قبول،قابلِ التفات بلکہ قابلِ رشک بنانے میں معاون،خوب صورت اوربنیادی اقدار ہیں۔ہماری سوچی سمجھی اور دیرینہ رائے ہے کہ زندہ دل ہونا،زندہ ہونے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ یہ مزاح محض مذاق یا مسخرہ پن نہیں بلکہ یہ ایک غیر سنجیدہ عمل ہوتے ہوئے بھی متانت، دیانت،ذہانتکا متقاضی ہوتا ہے۔ مزاح جو ایک ترکیب ہے، تبلیغ ہے، ترغیب ہے اور اگر ہتھے سے اُکھڑ جائے تو تخریب بھی ہے۔ بعینہٖ اصلاح کے نقطۂ نظر سے یا معاشرتی بے اعتدالیوں کو اعتدال پر لانے کے لیے کسی شخص یا رویے پر ادبی انداز میں چوٹ کرنے کا نام طنز ہے۔ یہاں بھی اگر معاملہ ادبی سلیقے یا فنی شعور سے چُوک جائے تو بات ہجو و ہزل یا پھکڑ و دشنام کے صحن میں جا گرتی ہے۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ مزاح اور طنز کا گہرا تعلق، محبت اور نفرت کے خاندانوں سے ہے۔ محبت کی کونپل دلوں سے بے ساختہ پھوٹتی ہے اور باطن کو تا دیر مہکائے رکھتی ہے جب کہ نفرت دماغوں میں کسی گھناؤنے منصوبے کے تحت اُگائی جاتی ہے، جو زندگیوں میں تسلسل کے ساتھ زہر گھولتی چلی جاتی ہے۔ متوازن مزاح لکھنا ایک مشکل عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کوچے میں بڑے بڑوں کے ہاتھ پاؤں پھولے دکھائی دیتے ہیں۔ بعض زعیم، جن سے مزاح کی وحی واپس لے لی جاتی ہے، وہ کسی عہدۂ جلیلیہ کے نشے میںیاظرفِ قلیلیہ کے علی الرغم، طنز کا کوڑا اُٹھا لیتے ہیں اور دوسروں کو با تقصیر کرتے کرتے خود حقیر و بے تدبیر ہوتے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی اس سلسلے میں سچے دل سے بیعت ہونے والوں کی تعداد انگلیوں پہ گنی جا سکتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اُردو طنز و مزاح سے تحقیق و تخلیق و تدریس کی تعلق داری کی بنا پر پاک و ہند میں پروان چڑھنے والے مزاح کے ذائقے مجھے موصول ہوتے رہتے ہیں۔ مزاحیہ شاعری کو فروغ دینے میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید کا کردار بہت اہم ہے۔اب تک ان کی فکاہیہ شاعری کے متعدد مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔اپنے کلام میں مزاح کے شگوفے کھلانے کے ساتھ ساتھ حالاتِ حاضرہ پہ بھی ان کی گہری نظر کے واضح آثار دیکھے جا سکتے ہیں۔انھی دنوں علامہ عبدالستار عاصم نے ڈاکٹر صاحب کے مجموعے ’’کوئے ظرافت‘‘ کا تازہ ایڈیشن ارسال کیا ہے، اس میں سے موجودہ سیاسی انحطاط کی دو تصویریں دیکھیے: شہر کے آدھے قُفل ٹکم ٹک ٹوٹے اور پھر یک دَم تگڑی اُڑ گئی ملک سے باہر، ہو گئی ماڑی اندر روایتی سیاستدانوں کی دوغلی پالیسیوں کا یہ عالم بھی ملاحظہ فرمائیے: سبق دے کر ہمیں ہر مرتبہ خود انحصاری کا چمن کے باغباں خود ہی چمن کو لُوٹ لیتے ہیں اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اُردو زبان کے عاشق پوری دنیا میں موجود ہیں۔ ان میں بہت سے ایسے ہیں جو ناول، افسانہ، شاعری اور طنز و مزاح کی صورت اس زبان کی زرخیزی میں اضافے کا سبب ہیں۔اُردو مزاح کے ایسے ہی ایک شیدائی مرزا یٰسین بیگ ہیں،جو طویل عرصے سے کینیڈا میں مقیم ہیں۔ زندگی کے مستقل ترین اور زمانے کے تازہ رُجحانات پر اُن کا قلم خوب رواں ہوتا ہے۔ وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ مزاح میں فرقے بازی نہیں ’فقرے بازی‘ چلتی ہے۔ اب تک ان کی مزاحیہ تحریروں کے دو مجموعے ’’دیسی لائف اِن کینیڈا‘‘ اور ’’پارچے‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ مرزا صاحب لفظی مزاح کے عاشق ہیں، اسی شوق میںانھوں نے خلیل جبران کی پیروڈی میں شریر کردار کھڑا کر رکھا ہے۔ ان کے مزاح کی چند مثالیں دیکھیے: ’’ہم گیتوں کے ذریعے خواتین کی صحیح عمر معلوم کر سکتے ہیں۔ اگر کسی کو علی ظفر اور عاطف اسلم پسند ہو تو اس کی عمر بیس سال، کوئی سونو نِگم کو پسند کرتا ہے تو تیس کے ہندسے میں ہوگا، مہدی حسن اور لتا کو پسند کرنے والے چالیس سے ساٹھ سال تک کے ہو سکتے ہیں اور جو کندن لال سہگل کو پسند کرتے ہوں، ہم ان کی عیادت کرنا پسند کرتے ہیں۔‘‘ ’’عقدِ ثانی کے لیے نقدِ ثانی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ ’’اس عمر میں بادام اور مادام دونوں سے جی بھر گیا ہے۔‘‘ ’’جراب پسینے کو اس طرح چُوس لیتے ہیں، جیسے ہمارے سیاستدان غریبوں کا خون۔‘‘ ’’با پردہ بیوی وہ ہوتی ہے، جو شوہر کا دیگر تمام عورتوں سے پردہ کرائے۔‘‘ ہمیں کراچی سے سید ابو ظفر زین مرحوم کی ’’وسیلۂ ظفر‘‘ بھی موصول ہوئی ہے، جسے انور احمد علوی اور شوکت جمال نے مرتب کیا ہے۔ ابو ظفر کا تمام عمر یہی ماٹو رہا کہ ’ہم دنیا میں ہنسنے ہنسانے کے لیے آئے ہیں‘ وہ مزاح کے لیے عوامی زبان اور کرداروں کا سہارا لیتے ہیں، ان کا ایک خوبصورت جملہ دیکھیے: ’’مسکراہٹوں کی دکان کھول لو، تمھارا ہر مال بِک جائے گا۔‘‘ بڑے شہروں کی آسودگی و آلودگی سے دُور بیٹھے امجد محمود چشتی ادب کے ایسے ہی ایک قاری اور مزاح کے لکھاری ہیں جو گوشہ نشینی میں توشہ آفرینی کا فریضہ نہایت دیانت سے ادا کیے جا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ان کے متوازن مزاح اور لطیف طنز کے حامل دو مجموعوں نے مجھے چونکایا تھا، جن میں ہمارے تعلیمی اور معاشرتی نظام کی مضحکہ خیزیوں کو سلیقے سے موضوع بنایا گیا تھا۔ اب وہ ’’اُردو بے ادبی کی تاریخ‘‘ کا شریر آئینہ اٹھائے حاضرِ مجلس ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ اہلِ قلم طبقہ کہ جن کو بالعموم امن پسند اور نستعلیق گردانا جاتا ہے، ان قلمی مجاہدوں کی زندگیاں پھڈے بازی، گروہ بندی، مفاد پرستی، عناد سرشتی، جنجال خوئی اور ابتذال گوئی سے بھی آلودہ چلی آئی ہے۔ امجد محمود چشتی کا کمال یہ ہے کہ اس نے اُردو ادب کی ابتدا یعنی دکنی دور ہیسے وجہی و فراقی سے چھِڑ جانے والے مناقشوں سے لے کے موجودہ سوشلیائی ادبی کشاکش تک کا حال نہایت لطیف انداز میں بیان کر دیا ہے۔ انھوں نے اُردو ادب کے سخن گسترانہ مطلعے سے لے کے زبان و اِملا کے قہر آلود مقطعے تک کا نہایت باریک بینی اور حاضر دماغی سے تعاقب کیا ہے۔ حروفِ تہجی کا معاملہ ہو یا اِملا کے بدلتے اسالیب، اقربا پروری سے لتھڑی ادبی گروہ بندیاں ہوں یا خود ساختہ دبستانوں کے مقاصد و مفاسد، اِن سب پہ اُن کی گہری نظر ہے۔ انھوں نے ادب کی تاریخ کو گھونٹ گھونٹ پیا ہے۔ وہ زبان کے ثقیل و سہیل لہجوں سے بھی بہ خوبی وقف ہیں۔ اصل کمال یہ کہ انھوں نے ان سب بکھیڑوں کو اپنے شُستہ و شگفتہ اسلوب میں طشت از بام کر دیا ہے۔ سچ پوچھیں تو اُردو ادب کو نئے نئے ڈھنگ سے بے رنگ کرنے کے اس فیشنی دور میں یہ تحقیقی آداب ہی کا نہیں ادبی ثواب کا کام بھی ہے۔ کیونکہ ادب کے ہر حسّاس قاری کی مانند ہماری بھی نپی تُلی رائے ہمیشہ سے یہی ہے کہ: اوجِ آدمیت کی ایک ہی تو صورت ہے ظرف کو ظرافت کی آج بھی ضرورت ہے