قوم کی توجہات تقسیم ہو کر رہ گئی ہیں۔ کسی بھی طرز کا انداز یکسانیت کہیں واضح نظر نہیں آتا اور بڑی مصیبت یہ ہے کہ لوٹ مار اور قوم فروشی کے پرانے ماہرین اب بزرگ سیاستدانوں میں شمار کئے جاتے ہیں اور ان کے طرز خرام سے تیز رفتار قزاقی آنکھوں والے اب تازہ خون کے جذبات پر خوان مفادات سجانے کا ارادہ کر رہے ہیں۔ قوم تو نظریات اور شعور و جذبات کی مربوط کہانی کا نام ہے۔ قوم کے نعرے کا علم مقہور و مجبور عوام ہر سردوگرم حالات میں اٹھائے رکھتے ہیں۔ عوام تو اکثریت میں ہیں اور راہزن اور قزاق بہت ہی سادہ اقلیت میں ہونے کے باوجود عوام کی گردنوں میں سواری کا فن جانتے ہیں اور وہ بہت شور شرابے کے باوجود اپنی نسل کو بھی یہ فریبی فنکاری سکھا کر عوام کی گردن کو جھکائے رکھتے ہیں۔ الیکشن ہورہے ہیں۔ قوم کے روپے کو چوری کرنے والے قومی خزانے کے نادہندگان، پاکیزگی اور صالحیت کی خود ساختہ قبا میں پوری دل جمعی اور بے خوفی سے کاغذات نامزدگی جمع کر ارہے ہیں۔ یہ ملک غالب اکثریتی مسلمانوں کی ایمانی خواہشوں کا مرکز امید ہے اور اس ملک میں غربت کی لکیر سے نیچے ایک اکثریت ہے، جن کے ووٹوں سے اقتدار کے گھوڑے پر زین کسی جاتی ہے۔ ان کے لیے نہ اب کچھ ہے اور نہ ان کے لیے جولائی 2018ء کے بعد کچھ نظر آ رہا ہے۔ اصل مسئلہ اسلامی پاکستان کا ہے اور دوسرا مسئلہ معاشی پاکستان کا ہے۔ نہ نئے پاکستان کا ہے اور نہ ترقی یافتہ پاکستان کا ہے۔ دُھول باز، ڈھول باز اور دَھول باز، اپنی غلیظ نیتوں کے ساتھ پاکستان کا لفظ جب بھی زبانوں پر لاتے ہیں تو منافقت کا جوہر ان کی بلائیں لیتا ہے اور آسمانی بلائیں ان پشتیابانان منافقت کا ہاتھ تھام کر چلتی ہیں اور یہ ٹکسالی دھڑے دار اپنے تھڑے سجائے آنکھیں موندے آخرت کے حساب سے بے نیاز عوام کو ہانکنے اور اپنے مفادات کی قتل گاہ میں لے جانے کا شوق پروان چڑھائے رہتے ہیں۔ اب الیکشن سے پہلے امیدواران اور نامیدان کا مقابلہ ہے۔ ملک کے مسائل کیا ہیں؟ اور عوام کی ضرورتیں کیا ہیں؟ یہ دونوں الیکشن باز گروہ اس سے بالکل بے خبر ہیں۔ ملک کی زمین کا خون اور پسینہ بھی ان کے کاروبار اور ناجائز دھندے کا حصہ ہے۔ نامنصفانہ تقسیم دولت اور وسائل کے بل بوتے پر یہ بزعم خود قانونی ثروت مند کہلاتے ہیں۔ پاکستان کیا ہے؟ اور کس کے لیے ہے؟ شوق سیاست کے رسیا رندوں کو اس سے کچھ غرض نہیں ہے۔ روپیہ چلتا ہے۔ ہر بڑی پارٹی میں روپیہ اپنی پوری قدروقیمت سے امیدواروں کو مقدر کا بنیادی فیصلہ فراہم کر رہا ہے۔ پارٹی فنڈز کی مضبوطی کے نام پر جو کچھ ہوا ہے۔ ہورہا ہے یہ ایک منہ بولتی حقیقت ہے۔ اب وہ لوگ جو زرکثیر سے میدان انتخاب میں اتریں گے وہ خائب و خاسر ہوں گے یا نشہ فتح میں کرسیوں پر براجمان ہوں گے۔ اس قمار بازی میں کچھ غریب ہو جائیں گے اور کچھ زر اقتدار ہتھیا لیں گے۔ بدنیت اور بداخلاق کھلاڑی ہر کھیل میں ایسا ہی کرتے ہیں۔ انہیں کسی بھی قومی مسئلے سے کوئی غرض نہیں ہے۔ زمین پر لوگ بڑی عمارتوں کے پہاڑ کھڑے کر کے زرعی زمین کو مفلس کردیں یا دشمن آپ کے قطرے قطرے کو ترسا دے، ان الیکشن بازوں کے خیال و عمل میں اس کا کچھ علاج موجود نہیں ہے۔ ابھی ایک روایتی سیاستدان کا بیان سکھر سے جاری ہو کر قومی اخبارات کی زینت بنا کہ ہمارے ہوتے ہوئے کالا باغ ڈیم نہیں بن سکتا، کتنی بڑی فرعونی دھمکی ہے کہ ہم آبی وسائل کے کھلے دشمن ہیں۔ پھر اس بیان کے بعد اس بیان باز کے مخالفین اور موافقین کی زبانیں تالو سے لگ گئی ہیں۔ گویا ترقی یافتہ پاکستان یا نئے پاکستان میں آبی وسائل کی شہ رگ کالا باغ ڈیم کی کوئی گنجائش نہیں۔ کسی درد مند کے پہلو میں درد کا کوئی عنصر ہو تو اسے پوچھنا چاہیے کہ مسٹر بیان باز تمہارے ہوتے ہوئے تو ہر شر انگیزی ہی پنپ سکتی ہے اور تمہارا ہونا تو خیر سے ہر شر کو تقویت ہی دے سکتا ہے اور کوئی یہ بھی پوچھ لے کہ تم اور تمہاری شناخت کے زاویے کون کون سے ہیں۔ پھر تعجب زا بات کہ پنجاب کے ایک جامد سیاسی مدعی مشیخیت کا بیان نہ جانے کس ترنگ میں وارد ہوا کہ ہمیں کالا باغ ڈیم پر بات نہیں کرنی چاہیے اور کالا باغ ڈیم پر بات کرنے والے سیاسی استحکام میں خرابی پیدا کر رہے ہیں۔ یہ بے چارے کسی کی سیاسی عنایت پر اپنی سیاسی گاڑی کے پرزوں کو درست کرتے رہتے ہیں اور نیم سیاسی انداز میں بھرپور سیاست کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ نہ پیروں میں یہ قابل شمار ہیں اور نہ علماء کی صف میں ان کی کوئی نشست گاہ ہے اور عملی سیاست میں تو اغیار کی بیساکھی ان کی رگوں کا دوڑتا لہو ہے۔ بس بیان داغنا اور اپنے کردار کو داغدار کرنا ان کا سیاسی مقدر ہے۔ الیکشن میں کچھ وہ لوگ بھی سرگرم ہیں جو بڑی زور دار پارٹی کے نفس ناطقہ ہیں اور کسی اندھے کنویں سے برآمد سیاسی وجود ہیں۔ ڈور کسی اور جہان سے ان کی ہلتی ہے، اشتعال دلانے کے وہ ماہر ہیں اور ضمیر کے خالی پنجرے کی نغمہ گری کرتے ہیں۔ بہت اہم بات یہ ہے کہ پاکستان اور پورے عالم اسلام میں دین سے محبت اور جذباتی رویے غالب اکثریتی عوام کا بنیادی مزاج ہے اور وہ کسی بھی لمحے توہین دین کسی طرح بھی برداشت نہیں کرتے اور وہ کسی ایسی شخصیت کو بھی برداشت نہیں کرتے جو دین اور صاحب دین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی توہین کرنے والے کی سرپرستی کرے۔ وہ ایسے افراد، جماعت اور ادارے کو بھی برداشت نہیں کرتے جہاں سے گستاخان رسول کی پنیری کو آب قوت میسر آتا ہو۔ شکر خدا کا کہ ناموس رسالت علی صاحبہ الصلوٰۃ والتسلیمات کو پاکستان کی قانونی دستاویزات میں جگہ ملی ہوئی ہے۔ عوام اور مسلمانوں کا یہ استحقاق ہے کہ وہ اس قانون کی حفاظت کریں اور اس قانون کو روبہ عمل دیکھیں، لیکن اقتدار کے نشہ باز منہ زور گھوڑے قانون کو لاقانونیت کے تندور میں جھونکنے کے لیے کوئی موقع بھی فراموش نہیں کرتے۔ ایک سابق گورنر نے ایک شاتمہ رسول کی عدالتی سزا کو اپنے غیر مفوضہ اختیار کی لاٹھی سے ہانکا تھا۔ مجرمہ کو معصوم عن الخطاء کی سند بے جا عطا کرنے کی کوشش کی تھی۔ ناموس رسالت ﷺ کے قانون کو کوسا تھا۔ قانون کو عمل میں بدلنے والے خاموش تھے۔ سیاسی بازیگر زبانوں کو تالو سے لگائے ہوئے تھے۔ کسی نے بھی دین اور صاحب دین ﷺ کی ناموس کے بارے میں نہ سوچا اور یہ خاموش اشتعال گری تھی۔ دنیا کا کوئی بھی مہذب معاشرہ اور مدون قانون اشتعال انگیزی کو مذمت کی لوح پر تحریر کرتا ہے اورمذہبی اشتعال کو تو انسانی معاشروں کے امن کے لیے زہر قاتل قرار دیتا ہے۔ پھر یہ خاموش اشتعال جذبات کے بھڑکائو کا عملی سبب بنا۔ قانون اور عمل چپ سادھ جائے تو پھر جذبات کے سیلاب کو کون روک سکتا ہے۔ ممتاز قادری شہید کا جرم کیا تھا؟ ایک حکومت جو دشمنان وطن کے بارے میں حسن سلوک کے خود ساختہ فلسفے پر عمل پیرا تھی اور دشمنان دین کو اپنا بھائی کہنے میں سیاسی مصلحت پر کار بند تھی اس حکومت نے کروڑوں غالب اکثریتی مسلمانوں کے جذبات کی توہین کی اور قانون شکنی کے مرتکب گورنر سے در گزر کی پالیسی اپنا کر اشتعال کو دلوں تک اتار دیا تھا۔ آج کے تازہ ایک عاقبت نااندیش سیاسی ترجمان نے ممتاز قادری شہید کو دہشت گرد قرار دیا ہے۔ وہ شخص چاہتا ہے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کی چھتری کے نیچے بیٹھ کر ناموس رسالت ﷺ کے نازک ترین مسئلے کو اشتعال کی نذر کرے۔ وہ شخص اور اس کی پارٹی اگر کسی بیرونی ایجنڈے پر مستقبل کو روشن دیکھ رہی ہے تو سمجھ لے کہ وہ روشنی نہیں ہے بلکہ ان کے مستقبل کی دوزخ کا وہ الائو ہے جو ابھی سے دہک رہا ہے۔ عمران خان آج بھی قوم کے سامنے جوابدہ ہیں کہ ان کی پارٹی کے ذمہ دار نے یہ بیان کس کے ایماء پر دیا ہے۔ یہ بیان اس کا ذاتی مذہب ہے یا پارٹی کی پالیسی کا آئینہ ہے اور کل قبر وحشر میں بھی بارگاہ خداوندی میں یہ سوال ان کے لیے تازہ رہے گا۔ مخدوم شاہ محمود قریشی جن کی عزت، دولت اور سیاست ایک بڑی عظیم الشان صوفیانہ درگاہ سے وابستہ ہے۔ وہ زیادہ ذمہ دار ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے پارٹی میں ایسا فرد موجود ہے۔ جو ہرشخص پر دہشت گردی کا بے سبب الزام دھرتا چلا جا رہا ہے۔ یہ سطور ایک تازہ تجربے کی روشنی میں تحریر کی جا رہی ہیں کہ جب گزشتہ حکومت نے اپنے فرعونی مزاج سے ختم نبوت کے قانون کو چھیڑنے کی کوشش کی تھی اور اس نے صالحین کو بھی اپنا خفیہ ہمنوا بنا کر اپنی بدنیتی کو کسی غیر کے اشارے پر عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی تھی۔ پھر زبانی احتجاج پر ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا تھا۔ عوام حالات سے ٹکرانے پر آمادہ ہو گئے تھے۔ انہوں نے اپنی سادہ زندگی اور اپنے جان و مال کو موت کے سپرد کرنے کا عزم صمیم کرلیا تھا۔ حکومت پر برف جمی ہوئی تھی۔ بالآخر جانوں کے نذرانے پیش ہوئے اور حالات کا رخ حکومت کو محسوس ہوا۔ ایک وزیر کو بہرحال مستعفی ہونا پڑا اور حکومت کو خاک چاٹنا پڑی۔ باقی حساب کچھ الیکشن میں چکا دیا جائے گا اور نااہل بددیانت قانون شکن حکومت اور اس کے کارندوں کو قبر و حشر میں پورا پورا حساب دینا ہوگا۔ ممتاز قادری شہید کو دہشت گرد قرار دینے والا شخص اشتعال کی فضا پیدا کر رہا ہے۔ وہ سب سے بڑا ذہنی دہشت گرد ہے جو مذہبی اور عوامی حلقوں میں ایسا اشتعال پیدا کرنا چاہتا ہے جس سے قومی یکجہتی کو بحران کا سامنا کرنا پڑے۔ کسی بھی جماعت میں ایسے ذہنی دہشت گرد ملک و قوم اور دین کے دشمن ہیں۔ ایسے شریر ادہان اور بے لگام زبان درازوں سے خلاصی حاصل کرنا ہی بہتر ہے۔ ورنہ ان کی زبان دشنام تک بڑھے گی اور کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے گی۔ یہ خلاف قانون ہے۔ خلاف اخلاق ہے اور خلاف انسانیت ہے۔ جناب عمران خان اپنے کسی مذہبی و روحانی گائیڈ سے استفادہ ضرور کریں۔