میں بابری مسجد کی ملکیت کے دیرینہ مقدمہ میں 9 نومبر کے سپریم کورٹ فیصلے پر انفرادی مسلمان اور ہندوستانی شہری دونوں حیثیت سے مطمئن نہیں ہوں! سوال یہ نہیں کہ میں یا آپ مطمئن ہیں یا نہیں؟ سوال یہ ہے کہ اس بے اطمینانی کے اثرات کیا ہوسکتے ہیں اور ہم چاہیں تو ان کو کس طرف موڑ سکتے ہیں؟ میں نے بطور پیشہ ور صحافی نوٹ کیا کہ ہندوستان کے طول و عرض سے مسلمانوں کے نمائندہ کئی نمایاں اداروں اور تنظیموں کے ماقبل اور مابعد عدالتی فیصلہ بیانات میں فرق بلکہ تضاد ہے۔ 6 دسمبر 1992ء کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد تاحال گزرا وقت خاصا طویل ہے۔ برسہا برس سے ہندو اور مسلم فریقوں کے مابین عدالتی کشاکش جاری ہے۔ حتیٰ کہ ایک مرحلے پر سپریم کورٹ نے اس پیچیدہ معاملہ کے عدالت سے باہر تصفیہ کی گنجائش فراہم کرتے ہوئے تین رکنی ثالثی پینل تشکیل دیا تھا، مگر وہ ناکام رہا۔ اس ساری مدت کے دوران مسلم نمائندہ اداروں اور تنظیموں نے بار بار یہی دہرایا کہ انھیں سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول ہوگا، چاہے وہ اْن کے حق میں آئے یا خلاف ہو! تاہم، میں 9 نومبر کے بعد سے دیکھ رہا ہوں کہ یہی ادارے اور تنظیمیں اپنے موقف میں منتشر ہوچکے ہیں۔ ہمارے اسلاف کو چیخ چیخ کر یہ کہتے ہوئے کئی دہائیاں بیت گئی ہیں کہ اپنی صفوں میں انتشار مت پیدا ہونے دو۔ اسلاف تو کیا سب کیلئے ’’قطعی بات‘‘ اللہ تعالیٰ کی ہے جس نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ اے مسلمانو! تم اتحاد و اتفاق سے رہو، تو تمہارے پیر جمے رہیں گے، ورنہ تمہاری ہوا اْکھڑ جائے گی۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر اندرون 30 یوم مرافعہ (عرضی برائے نظرثانی) داخل کرسکتے ہیں جو بلاشبہ ایک دستوری حق ہے۔ اب ہندوستان میں صورتحال یہ ہے کہ تمام مسلم نمائندہ ادارے اور تنظیمیں مرافعہ داخل کرنے اور داخل نہ کرنے کے مسئلے پر منقسم ہیں۔ کوئی بھی انفرادی، سماجی یا ملت و قوم کا معاملہ ہو، ہر شہری کو حدود کی شرط کے ساتھ اظہار خیال کرنے کی آزادی بھی دستورِ ہند نے دے رکھی ہے۔ چنانچہ میری بھی سپریم کورٹ کے فیصلہ اور اس کے مابعد حالات پر اپنی رائے ہے۔ ظاہر ہے مجھے عدالتی فیصلہ پر بے اطمینانی کا احساس ہونے کی بات کہنے کے بعد یہ بتانا ہوگا کہ آیا یہ عدالتی فیصلہ بادل ناخواستہ سہی مگر قبول بھی ہے یا نہیں؟ مرافعہ داخل کرنا چاہئے یا نہیں؟ ان سوالات کے جوابات ’ہاں‘ یا ’نا‘ میں ہونے کی وجوہات بتانا پڑے گا۔ میں اس کے ساتھ میرے اپنے، میری فیملی اور ملت کے مفاد میں چند تجاویز پیش کررہا ہوں، جسے قبول کرنا یا مسترد کردینا آپ کا اپنا حق ہے۔ میں سب سے پہلے یہ بات رکھنا چاہتا ہوں کہ 1528ء سے 1949ء تک بابری مسجد کے ساتھ کیا معاملہ ہوا، یہ وہی نسلیں جانیں اور وہی اچھے اور بْرے کی ذمہ دار بھی ہیں۔ 1949ء سے 1992ء تک جو کچھ ہوا، اس کیلئے متعلقہ نسلیں جوابدہ ہیں۔ مسلمانوں کے پاس نہ دولت کی کمی ہے، نہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بالخصوص قابل وکلاء کی قلت ہے، نہ کامیاب سیاستدانوں کی کمی ہے، اور نہ مسجد جیسی پاک و مقدس جگہ کیلئے ملت کے ہاں تقدس کے احساس کا فقدان ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ 6 دسمبر 1992ء سے ہم صرف واویلا کئے جارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں! اگر واقعی بابری مسجد ظاہری طور پرخالی جگہ پر تعمیر کی گئی تھی تو ہمیں دل چھوٹا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، ہمیں سب سے بڑے ’منصف‘ پر بھروسہ ہونا چاہئے، جو مسلمان کے ایمان کا جز ہے۔ اس کے برعکس حقیقت کچھ اور ہے تو 9 نومبر کا فیصلہ قبول کرلینے میں ہمیں کوئی عار نہیں ہونا چاہئے۔ اْف! یہ کیسی پْرامیدی ہے ظالموں سے انصاف مانگ رہے ہو؟ اعلیٰ اخلاق، حکمت اور دوراندیشی کا زندگی میں بڑا دخل ہے۔ اس کے ذریعے کٹر حریفوں کو تک بلامشقت ہمنوا بنایا جاسکتا ہے۔ افسوس کہ آج شمال سے جنوب تک مشرق سے مغرب تک مسلم قیادت میں روایتی سوچ و فکر غالب معلوم ہوتی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ وہ عوامی جذبات و احساسات کے اثر تلے فیصلے کررہے ہیں۔ حکمت اور دور اندیشی ہوا ہوگئی ہے۔ وہ اسلامی تعلیمات اور اعلیٰ اخلاق ہی تھے جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے کافر و مشرک حریف کو کشتی میں پچھاڑ دینے کے بعد تب بخش دیا تھا جب اْس نے آپؓ پر تھوکا۔ حضرت علیؓ نے اس کو اپنی گرفت سے آزاد کردیا تو وہ حیران ہوا، اور وجہ پوچھنے پر آپؓ نے فرمایا کہ تھوکنے سے قبل تجھ سے میں اسلام کیلئے لڑ رہا تھا، تھوکنے کے بعد نفس آڑے آنے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔ اس لئے میں نے تجھے بخش دیا۔ وہ کافر و مشرک فوری ایمان لے آیا۔ میں سپریم کورٹ فیصلے اور مرافعہ داخل کرنے کی ضد کرنے والے تمام مسلم اداروں اور تنظیموں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ہمارے خلفائے راشدین کی زندگیوں کی روداد اب ناقابل عمل ہوچکی ہے؟ کیا اب عملی زندگی میں ہمیں اس سے کوئی سبق نہیں لینا ہے؟ پھر بھی دستوری حق کے بہانے مرافعہ داخل کرکے حجت تمام کرنا چاہیں تو وہ اپنا شوق پورا کرسکتے ہیں۔ میری چھٹی حس کے مطابق ہوگا یہ کہ بابری مسجد شہید ہوئی، ہم کچھ نہ کرسکے؛ سپریم کورٹ میں 40 روزہ کشاکش کے بعد فیصلہ آیا، جو ہماری سمجھ میں نہ آیا؛ اب مرافعہ بھی بے فیض ثابت ہونے کے بعد ایودھیا کے متنازعہ مقام پر ہندو فریق کی کم از کم دستورِ ہند کے تحت قانونی حیثیت مزید پکی ہوجائے گی۔ آنے والی نسلیں اگر یہ معاملہ دوبارہ اٹھانا چاہیں تو اْن کیلئے لگ بھگ ناممکن ہوجائے گا۔ کوئی مسجد تو آخر مسجد ہے۔ میرے شہر حیدرآباد میں ابھی چند ماہ قبل کی بات ہے کہ ایک مسجد کی خود مسلمانوں نے دنیوی مفاد کی خاطر ہیئت بدل دی اور مسماری کا منطقی انجام نظم و نسق نے پورا کردیا۔ چند روز واویلا ہوا، ٹی آر ایس حکومت کے وزیر نے یقین دلایا کہ شہید کی گئی مسجد دوبارہ بنائیں گے۔ مجھے اس بیان پر ہنسی آئی، کیونکہ ایسا وعدہ تو 6 دسمبر 1992ء کی شام پوری قوم سے کیا گیا تھا، جو کبھی وفا ہونا نہ تھا، نہ ہوا۔ حیدرآباد میں ہی چند سال پیچھے چلے جائیں، موجودہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تعمیر کے دوران ایک مسجد شہید کردی گئی۔ اس پراجیکٹ کی منصوبہ بندی ٹی ڈی پی حکومت نے کی تھی اور 2008ء میں ایئرپورٹ کی تکمیل و کشادگی کانگریس اقتدار میں ہوئی۔ آج حیدرآباد نے ایئرپورٹ کی نذر ہونے والی شہید مسجد کو عملاً فراموش کردیا ہے۔ میں اگر ملک کے ہر شہر کا ذکر کرنے لگوں تو شاید ہی کوئی علاقہ ملے گا جہاں آزادیٔ ہند کے بعد سے کوئی مسجد شہید نہ ہوئی ہو۔ ملت صرف بابری مسجد پر کیوں آنسو بہا رہی ہے، دیگر مساجد کی خبر کیوں نہیں لی جاتی؟ کیا انھوں نے دیگر تمام شہید مساجد کی بازیابی کیلئے ایسی کوششیں کیں جیسے بابری مسجد کیلئے ہورہی ہیں۔ کیا شریعت نے اِس مسجد کو کوئی خصوصی درجہ دے رکھا ہے؟ (بشکریہ روزنامہ سیاست بھارت)