ہر روز کی نئی خبر محض خبر نہیں ہوتی‘ ایک پیغام ہوتی ہے یا تنبیہ اور کبھی دل کی آسودگی کا سامان یا کبھی دھمکی‘ بس ہم گزرتے جائیں۔ دھیان دیں یا نہ دیں خبر تو اپنے اثرات کو کو مہم جوئی کے انداز میں پھیلانے کا کام جاری رکھتی ہے۔ قوم کا ہر فرداپنی جگہ بیدار رہے۔ دشمن کی چال سے ہوشیار رہے۔ پھر اپنی اجتماعی قومی ترقی سے بیگانہ نہ رہے تو ہر پاکستانی کا ملی فریضہ ہے۔ لیکن اس فریضے سے غفلت کا ہم سب شکار ہیں۔ایک اہم خبر جو روز ہمیں پیغام دیتی ہے۔ بیدار کرتی ہے احساس کو جھنجھوڑتی ہے۔ وہ خبر یہ ہے کہ بھارت کے فراعنہ صفت نیتائوں نے اپنی انسان دشمن بدکرداری کو عام کر دیا ہے۔ مہینے گزر گئے، کشمیر میں ایک رقص ظلم اس طرح سے جاری ہے کہ مسلمانوں کو اتنا دہشت زدہ کر دیا جائے کہ وہ متفق اللسان ہو کر پکار اٹھیں کہ وہ اسلام اور اپنی دین پرستی کاقلادہ اتار کر پھینک رہے ہیں اور اب ہماری زندگی کا آرام سکون ہندو مت کی پیروی ہی ممکن ہے۔ اب ہمیں کوئی مسلمان نہ سمجھے۔ ہماری مساجد کو مندروں میں تبدیل کر دیا جائے اور ہمارے مذہبی ثقافتی آثار کو منہدم کر دیا جائے۔بدبخت ہے اور نحوست کا مارا ہے وہ شخص جس کے بارے میں ہم یا ہمارے پاکستانی زعماء یہ احساس برقرار رکھتے ہیں کہ وہ شاید کبھی نرم دلی پر آمادہ ہو جائے گا۔کشمیر کا معاملہ دینی حساسیت کا اتنا بڑا مظہر ہے۔ جتنا بڑا مودی فرعون کا مسلم مار منصوبہ ہے۔ کشمیر میں ظلم کو قانون کا لبادہ اوڑھا کر اس نے یہودی گٹھ جوڑ کے ساتھ انسانی حقوق کو جس بری طرح سے تاراج کیا ہے وہ تاریخ کے بدترین مظالم میں سے ایک جبرمسلسل اور تشدد کی تازہ ترین مثال ہے۔ انسانی عزت‘ انسانی جان‘ انسانی مال اور انسانیت سے متعلق جملہ حقوق کو جس درندگی سے پامال کیا گیا ہے اور ابھی تک ہو رہا ہے۔ وہ مودی فرعون اور بھارت کے مسلم دشمن نیتائوں اور حیوان صفت تعصب مارے ہندوئوں کی وہ ذلیل ترین ذہنیت ہے۔ جس میں مسلمان جانوروں سے بدتر مخلوق ہیں۔ ہندو اپنے دھرم کے علاوہ کسی بھی دھرم یا مذہب کو قبول نہیں کرتے ان کی ظاہری رواداری اور سیکولر ازم کے نعرے محض اپنی کھال کو بچانے کے حربے ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے تحریک پاکستان کے دوران قیام پاکستان کے وقت ہجرت کے موقع پر ہندو لیڈروں کی بدنیتی‘ مسلم دشمنی اور مسلمانوں سے نفرت کو مزید بڑھانے کے لئے ان کی حرکات واضح ہیں۔ وہ اپنی اس دھرمی ہٹ کو کبھی بھی نہیں بھلاتے اور حسب عادت کسی نہ کسی انداز میں اسے اپنی ثقافت کے تحفظ کا نام دے کر انسانیت سوزی کا کھیل کھیلتے رہتے ہیں ہر سال دو سال بعد مسلم کشی کے بہانے تراشتے ہیں اور پھر بہت سادہ لوحی سے مانس ہتھیا پر اتر آتے ہیں۔ تقسیم ہند سے لے کر اب تک کی تاریخ میں بھارت میں بے شمار ایسے اجتماعی شرپسندانہ فسادات نظر آتے ہیں جن میں ہزاروں افرد ایک پرتشدد واقعہ کے نتیجے میں بے گھر نظر آئیں گے۔ ہزاروں مسلمانوں کو بے روزگار کر دیا جاتا ہے اور نذر آتش کرنے کا سلسلہ تو ان کے نزدیک کار طفلاں شمار ہوتا ہے۔ مسلمان خواتین کی آبروریزی اور ان پر غیر انسانی تشدد بھی بھارت کے مسلم کش فسادات کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔ مسلمان صنعتی علاقوں کو بطور خاص جارحیت کا ہدف بنایا جاتا ہے۔ خوشحال مسلمانوں کی معاشی حیثیت کو زبوں حالی کی سطح تک پہنچانے کے لئے ان پر غیر مساویانہ قوانین کا اطلاق کیا جاتا ہے اور جبری ٹیکسز کی مدات بھی بڑھائی جاتی ہیںاور ان مسلمان تاجر حضرات اور صنعت کاروں کو قلاش کرنے کے سو سو حربے آزمائے جاتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً گائو کشی کا بہانہ بنا کر یا تو موقع پر مسلمانوں کو شہید کر دیا جاتا ہے یا پھر جھوٹے مقدمات میںملوث کر کے ان کی زندگی اجیرن کی جاتی ہے۔مسلمان اکثریتی علاقوں میں شہری حقوق کی درجہ بندی ہوتی ہے۔ اگر کسی موقع پر مسلمانوں کے سیاسی یا مذہبی نمائندے اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے ہیں حالات کو پرامن رکھنے کے لئے ان سے جھوٹے وعدے وعید کئے جاتے ہیں لیکن برسر اقتدار آنے کے بعد وہ پوری قوت سے مسلمانوں کو کچلنے کے لئے قانونی اقدامات سے گریز نہیں کرتے۔مسلمان قوم کو ملیچھ‘ ناپاک اور دھرم بھرشٹ کرنے والا گروہ قرار دینے کے لئے ہندو جنونی تنظیموں کی مدد کرنا وہاں کے مقتدر طبقات کا معاشرتی مشغلہ ہے۔موجودہ بھارتی حکومت ہندو تنگ نظری، مسلمان دشمنی اور شدید دھرمی تعصب کی نمائندہ حکومت ہے اس حکومت کے مسلسل جارحانہ اقدامات نے مسلم دشمنی کو بہت فروغ دیا ہے۔اب جو جدید ترین مسلم کش قانون کہ مسلمانوں کی بھارتی شہریت کو بلند ترین خطرات سے دوچار کیا ہے۔ وہ پوری دنیا کے لئے چشم کشائی کا موقع ہے اور مسلم دنیا کے لئے ایک بہت بڑی روح فرسا دھمکی ہے۔ مسلم امہ کے حکمران خواب خرگوش میں مدہوش اورحالات سے بالکل بے گانہ بنے ہوئے ہیں لیکن فطرت اپنی جگہ کروٹیں بدل رہی ہے۔ اندرون بھارت میں ایک انسانی بیداری کی لکیر دوڑ گئی ہے۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلسل احتجاج اور پھر اس احتجاج کے ساتھ ہندو مظلوم عوام کی یکجہتی تاریخ مرتب کر رہی ہے کہ ظلم کو شکست دینے کے لئے اندر ہی سے مزاحمتیں قوتیں برآمد ہوتی ہیں اور یہ مزاحمتی قوتیں بالآخر اپنے منطقی انجام کو کامیابی سے ہمکنار دیکھیں گی۔ بھارت میں جبری ہندو ازم کی ترویج کی سرپرستی وہاں کی حکومت کر رہی ہے۔ ہندوئوں کی جابرانہ حکومتوں کے انسانی ذلت پر مبنی اقدامات نے تو قدیم تاریخ میں مسلمان فاتحین کو دعوت دی تھی اور اسلام کے مبنی برصداقت اور انسانیت آشنا فطری پیغام نے صوفیا کرام کی دعوت امن سے اہل ہند کو نعمت اسلام سے سرفراز فرمایا تھا۔ عدل و مساوات اور طبقاتی یکسانیت کے صوفیانہ پیغام نے ہندوستان کی پتھریلی ذہنیت کو محبت کے آب زلال میں بدل دیا تھا۔ انگریزوں کی پشت پناہی کی قوت نے پھر سے ہندوئوں کی غیر فطری فکر کو عام کیا اور بھارت کے معاشرے میں جبری ہندومت کے فروغ کے لئے ان کے سیاسی اور معاشرتی دبائو نے مسلمانوں کو ایک علیحدہ مملکت بنانے پر مجبور کر دیا تھا۔ اقبالؒ اور قائد اعظمؒ کی فراست و قیادت کے نتیجے میں ظلم نے شکست کھائی اور اب بھی بھارت کا جور و جبر نصف النہار پر ہے اور بھارت میں جبرو و جور کے خلاف عوامی مہم جاری ہے۔ ان حالات میں نئے راستے کھلیں گے اور فرعون صفت بھارت کے نیتا اپنے ذلت آمیز انجام کو دیکھیں گے اور پھر نئی دنیا کا خبر سے معمور ایک نیا منظر نامہ برآمد ہو گا۔ کشمیر بنے گا پاکستان اور بھارت کا ہر مظلوم خطہ بنے گا پاکستان۔