ایک چیز جو اللہ کی زمین پر بڑی مستقل مزاجی سے جاری و ساری ہے وہ ظلم ہے۔ خیر کے مقابلے میں شر کی قوتیں زیادہ پائیدار اور مستقل مزاجی سے کارفرما رہتی ہیں۔ خالص اور مستحکم امن‘ دنیا میں کم کم اور نایاب ہے۔ بلکہ خالص امن شاید دنیا کے کسی بھی معاشرے میں موجود نہ ہو۔ ابھی امریکہ میں جس طرح ایک کالے کا گلا گھونٹ کر اس کو سر راہ مار دیا گیا‘ اس سے یہ یقین اور بھی پختہ ہوتا ہے کہ خالص امن کہیں بھی نہیں ہے۔ معاشرے کا کوئی نہ کوئی طبقہ ظلم کی چکی میں پستا رہتا ہے۔ ظلم کی بے شمار شکلیں ہیں۔ کم‘ زیادہ‘ شدید‘ سنگین۔ بے تحاشا ہولناک ناقابل بیان۔ غرض ان گنت شکلوں میں ظلم جاری و ساری ہے۔ انسانوں کا اپنے جیسے انسانوں پر ظلم‘ طاقت ور کا کمزور پر ظلم اور اہل اختیار کا بے بس محکوموں پر ظلم۔ ظلم اتنا خود رو‘ ایسا طاقتور ہے کہ بظاہر خوشحال‘ خوش باش اور پرامن منظروں میں بھی کہیں کہیں پوشیدہ شکل میں اپنی کارروائیاں جاری رکھتا ہے۔ معاشرے سے لے کر گھروں تک خاندانوں میں باہمی رشتوں کے بیچ‘ جب حقوق کچلے جاتے ہیں جب جذبوں کا قتل عام ہوتا ہے۔ روحانی‘ ذہنی اور جسمانی ایذائیں پہنچاتی جاتی ہیں۔ جب طاقتور‘ کمزور پر رشتوں پر اپنی دھونس اور دھاندلی جماتا ہے۔ جب دلیل کے درمیان سچ ہار جاتا ہے۔ جھوٹ اور دشنام طرازی جیت جاتی ہے تو وہاں ظلم اپنا بھیانک ناچ‘ ناچ کر اپنی فتح کا اعلان کرتا ہے۔ سکون امن اور سچائی کی شکست ہو جاتی ہے۔ محکوم معاشروں میں ظلم اور جبر اپنی بدترین شکل میں موجود ہوتا ہے۔ محکوموں پر ظلم ہوتا رہتا ہے۔ دنیا تماشا دیکھتی ہے لیکن دنیا پھر بھی خاموش رہی ہے ایسے جیسے اس کی آواز کسی مصلحت نے سلب کرلی ہو۔ کبھی کوئی ہولناک ظلم‘ تصویر ہو کر سامنے آ جائے تو کچھ دیر کے لیے سہی دنیا میں کہرام ضرور مچتا ہے۔ ظلم کی وہ تصویر سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن کر وائرل ہوتی ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا کا ضمیر جاگ گیا ہے لیکن یہ سب ہماری خام خیالی ہوتی ہے۔ اس لیے کہ ہیش ٹیگ اور ٹاپ ٹرینڈ سوشل میڈیا پر اسی لیے بنتے ہیں کہ چند روز کی جھلک دکھا کر پھر کسی نئے ہیش ٹیگ اور ٹاپ ٹرینڈ کے لیے جگہ خالی کردیں۔ ظلم کی ایک ایسی ہی تصویر ان دنوں ٹاپ ٹرینڈ بن کر دنیا کے ضمیر کو جگا رہی ہے۔ تین سال کا ایک ننھا معصوم بچہ عیاد‘ اپنے نانا کے مردہ جسم پر بیٹھا‘ روتا ہوا اسے پکارتا ہے۔ یہ تصویر ظلم گزیدہ وادی مقبوضہ کشمیر کے شہر سوپور کی ہے۔ ننھا بچہ جس مردہ جسم پر بیٹھا زندگی کی رمق تلاش کر رہا ہے چند لمحے پہلے تک وہ ایک جیتا جاگتا باسٹھ سالہ کشمیری شہری بشیر احمد تھا۔ عیاد کا نانا۔ محبت سے لبریز‘ شفیق اور مہربان‘ عیاد کو گود میں اٹھانے والا‘ بہلانے والا‘ اس پر اپنی جان چھڑکنے والا لیکن ظالموں کی بستی میں محکوموں کی زندگی کی اتنی ہی بے وقعت ہوتی ہے۔ جب ظالم کا دل چاہے اسے پرانے سویٹر کی طرح ادھیر کر رکھ دے۔ اس کے دھڑکتے ہوئے دل میں گولیاں اتار دے۔ کسی جواز‘ گناہ اور عذر کے بغیر۔ اور وہ مظلوم خواہ کسی ننھے بچے کا شفیق نانا ہی کیوں نہ ہو۔ بھارتی غاصبوں نے عیاد کے نانا کو شہید کردیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے یہ ظلم ڈھایا۔ فلموں اور ٹی وی میں ماردھاڑ کے ایسے لہولہان منظروں پر لکھا آتا ہے۔ خبردار اسے بچے نہ دیکھیں لیکن حقیقی زندگی ایسے ہولناک ظلم‘ ننے بچوں کے سامنے ڈھائے جاتے ہیں تاکہ ان کے معصوم ذہنوں پر ظلم کی یہ خراشیں تمام عمر پڑی رہیں اور تمام عمر ان سے لہو رستا رہے۔ تین سال کا معصوم عیاد نانا کے بے حس و حرکت‘ لہولہان‘ جسم کے اوپر بیٹھ جاتا ہے کیونکہ اسے تو نانا کی گود کی عادت تھی۔ وہ رونا اور چلاتا ہے۔ بھارتی خون آشام ظالم اس کے سامنے ڈرائونے جنوں بھوتوں کی طرح کھڑے رہتے ہیں اور وہ روتا ہے۔ بہت روتا ہے۔ شاید خدا کو پکارتا ہے۔ شاید اس ظلم کا حساب مانگتا ہے۔ ننھے عیاد کی اس تصویر نے مجھے بہت رلایا۔ آہ! یہ دنیا ظلم اور درندگی سے بھری ہے۔ ہمارے بس میں یہی ہے کہ ہم اس ظلم پر بین کریں‘ نوحہ پڑھیں‘ ظالموں کو کوسیں اور پھر اپنی اپنی زندگیوں کے کاموں میں مصروف ہو جائیں۔ وہ طاقتیں جو ظلم کے ان ہاتھوں کو کاٹ سکتی ہیں‘ وہ جو محکوموں کو اس ظلم سے نجات دے سکتی ہیں‘ وہ ہمیشہ کی طرح سیاست‘ ڈپلومیسی اور مصلحت کو شی سے کام لیں گی۔ شاید ظلم کے اس کاروبار سے ان کے روزگار اور کاروبار وابستہ ہیں۔ عیاد کی آنکھوں کے سامنے اس کے نانا کو گولیاں مار کر زندگی سے محروم کردیا گیا۔ یہ ظلم ایک محکوم وادی میں ہوا۔ 19 جنوری 2019ء سانحہ ساہیوال‘ تین کم عمر‘ معصوم بچوں کے سامنے ریاست کے سرکاری اہلکاروں نے ان کی ماں‘ باپ اور ایک بڑی بہن کو گولیاں مار کر سفر زندگی سے محروم کردیا تھا۔ والدین اور بہن کی لہولہان لاشیں ایک آٹھ سالہ بھائی‘ دو ننھی بہنیں فیڈر ہاتھ میں پکڑے ہوئی۔ ننھی روحیں ظلم کے اس انہونے منظر پر بے طرح سہمی ہوئی تھیں‘ سسکیاں لفظوں میں دم توڑتی ہوئی‘ آنکھوں میں رنج اور حیرت کے آنسو جمے ہوئے۔ دن دیہاڑے‘ یہ ظلم سا ظلم تھا۔ مقبوضہ وادی میں تین سالہ نواسے کے سامنے نانا کو گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔محکوم اور آزاد معاشرہ میں کچھ فرق تو ہوتا۔