قارئین اس بات کے شاہد ہیں کہ میں سیاسی موضوعات پر طبع آزمائی کرنے سے گریز کرتا ہوں۔ہماری سیاست پستیوں کی عمیق گہرائیوں میںاِس حد تک دھنس چکی ہے کہ اُس کے حق اورخلاف بولنے والوں میںکوئی فرق نہیں رہا۔ لگتایوں ہے ک ہماری سیاست سے اچھائی اور برائی کا تصور ہی مٹ چکا ہے ۔جب اقدار اس حد تک گر جائیں کہ دھوکہ باز عقلمند اور ایماندار بیوقوف مانا جائے تو ایسے وقت میںآدمی چاہے بائیں کھڑا ہو یا دائیں ، آگے ہویا پیچھے اس سے اُس کے مقام مرتبے اور پہچان میں کوئی فر ق نہیں پڑتا۔ اسلئے کہ شیشے کو رگڑنے سے منہ کی کالک دُھل نہیں جاتی ۔ غالباً 20یا 21دسمبر 1971کے ایک مشہور برطانوی اخبار میںشائع ہونے والی ایک تصو یر جس میںکراچی کے ڈائو میڈئیکل کالج کے طلباء کی رعا یتی نمبروں کے لئے ہڑتال دکھائی گئی تھی، کا عنوان لکھا تھا ’’یہ اُس ملک کے طلباء ہیں جن کا ملک صرف تین دن پہلے ٹوٹاہے‘‘ ہمیں تو اُس وقت بھی کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ اس کے بعد سوشلزم خطرے میں پڑا اور ضیا الحق کا اسلام نافذ ہو گیا۔ پھر اسکے بعد سے مسلسل اسلام خطرے میںہے لیکن رہے نام اللہ کا اگر ہر قسم کے خطرات سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میںکوئی چیز خوش قسمتی سے مکمل طورپر بچی رہی ہے تو وہ ہماری سیاست ہے۔ وہ سیاست جو اپنے پورے آب وتاب کے ساتھ آج بھی طمطراق سے دنیا بھر کا اِس طرح منہ چڑارہی ہے ۔حسن کاظمی کا ایک شعر پتہ نہیںکیوں یاد آگیا ہے۔ افسوس یہ نہیں ہے کہ وہ مرا نہیںہوا وہ شخص ساری عمر کسی کا نہیںہوا ہماری سیاست پگھلے ہوئے اُس لوہے کی مانند ہے جسے کسی بھی قالب میںکوئی بھی ڈھال سکتاہے ۔شرط صرف اُسے پگھلانے کی ہے۔ لوہا اگر آگ سے پگھلتا ہے تو ہماری سیاست روپے ،ڈالر اور دینار سے پگھلتی ہے اب پگھلی ہوئی سیاست کو دوستوں کے لئے استعمال کیا جائے ، دشمنوں کے لئے ، اپنوں کے لئے ،پرائیوں کے لئے بڑی آسانی سے استعمال جاسکتاہے ۔ کیوں؟ اسلئے کہ اسکی اپنی کوئی اوقات نہیںہے بھلا پگھلے ہوئے کی کیا اوقات ہوسکتی ہے ؟ ا س سے اُن کی اوقات کا بھی بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو اس پگھلی ہوئی سیاست پر بھروسہ کرتے ہیں ۔جن کا جینا مرنا اِسی سیاست کا مرہون منت ہے۔ اب اس سیاست سے نجات کا کیا طریقہ ہے ؟ جس کے سائے میں ہم پیدا ہوئے، پلے بڑے اور اب زندگی کے آخری حصے میںاسی پگھلی ہوئی سیاست کے سائے تلے باقی ماندہ سانسیں لے رہے ہیں۔ میںجب نیا نیا جنوبی کوریا میں تعینات ہوا تو مقامی زبان سے نا آشنا ہونے کے باعث سفارتخانے میںمیری مقامی سیکرٹری کسی میٹنگ وغیرہ میںجاتے ہوئے مجھے اہم عمارتوں اور دفاتر کے متعلق بتایا کرتی تھی۔ سیئول کا دریائے ہان شہر کے بیچوبیچ بہتا ہے جس کے اوپر اُس وقت تک سترہ پل تعمیر ہوچکے تھے جو آبادی کے مسلسل بڑھنے کے باعث اب بھی کم پڑرہے تھے او رتین مزید زیر تعمیر پل اپنی تکمیل کے مراحل طے کررہے تھے ایک دن مجھے ایک پل بیچ میںسے ٹوٹا ہوا نظر آیا جو دریاکے عین وسط میں گراہوا تھا میرے پوچھنے پر سیکرٹری نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے یہ پل گرگیا تھا اور کافی لوگ ہلاک ہوگئے تھے اِس پر میں نے اُسے بتایا کہ میں نے یہ خبر پاکستان میںسنی تھی اور حادثے میں پچاس سے زائد اسکول کے بچے ہلاک ہوئے تھے۔ میری اِس بات پر اُس نے ایک لمبا سا ٹھنڈا سانس بھرتے ہوئے کہا کہ کوریا کیلئے یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ ہمارے ملک کا ایک پل ٹوٹ گیا۔ وہ خاتون تو یہ بات کہہ کر چپ ہوگئی تھی لیکن میرادل کیا کہ کاش زمین پھٹے اور میں اس میں دھنس جائوں۔وہ بی بی ایک پُل کے ٹوٹ جانے پر ایک کورین شہری ہونے کے ناطے شرمندگی محسوس کررہی ہے۔ ہمارا ملک ٹوٹ گیا اور ہمیں شرم نہیںآئی۔ اپنی پگھلی ہوئی سیاست سے نجات کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم شرمندہ ہونا سیکھ جائیں ہمیں کسی با ت پر بھی شرم نہیں آتی۔ جن باتوں پر ہم دن رات دوسروں کو ر شرم کرنے پر شور مچاتے ہیں خود چوبیس گھنٹے اپنی باتوں کو پوری ڈھٹائی کے ساتھ بلاجھجک سرعام کرتے ہوئے نہیںشرماتے۔ اللہ سے التجاہے کہ وہ اسے اپنے حبیب ؐ کے صدقے میں اسے ہم پر رحم فرمائے۔ اے اللہ ہمارا ایمان ہے کہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔ ۔ ایک پتااپنی جگہ سے سرک نہیںسکتا۔ ذرے پرآفتاب کی روشنی نہیںپڑسکتی اور تیرے اذن کے بغیر کہکشائیںمحو گردش نہیںرہ سکتیں۔ ہمیں شرم کیوں نہیںآتی ؟ ہم کب تک بے شرم رہیں گے ؟ ہماری سیاست کا واحد مقصد اکرسی کا حصول ہے۔ چودھراہٹ کی کرسی کا حصول ہے، چودھراہٹ کی کرسی کا حصول صرف ایوان اقتدار تک محدود نہیںہوتا ظالم باپ، ہلاکواستاد ، چھوٹا افسر یا بڑا افسر یا پھر بظاہر معمولی لیکن انتہائی چالاک اور نڈر کلرک ، رشوت خور پٹواری ،عدالتی کارندہ ،قصائی ڈاکٹر اور جعلی پیر اور دوویش ہماری طرح طرح ہی کی کرسیوں کے گرد گھومنے والی بدمعاش اور بدبودار سیاست ہی کے رنگ رنگ مظاہر ہیں۔ غصہ ، کمینگی ،لالچ حسد کی طرح بے شرمی بھی عقل کو کھا جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بے شرم کو عقل کی کوئی با ت سمجھ میں نہیںآتی۔ ہم نے اوپر اٹھائے گئے تینوں سوالوں کے جواب دید ے ہیں ۔اس کا حل کیا ہے ؟ جب کسی بات کا کوئی حل نہ رہے تو بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہوجانا چاہے اور دعا کرنی چاہئے ۔ آئیے پاکستان کے معصوم بچوں کو کہتے ہیں کہ وہ اپنے ننھے ننھے ہاتھ اُٹھاکر اللہ سے دعا کریں،اے اللہ اے ’کن‘ سے کون ومکاںبنا دینے والے ہم پر رحم فرما!