اپوزیشن کے کچھ بھولے ناتھ دو خبروں سے بہت خوش ہیں۔ ایک تو یہ کہ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نااہل ہو گئے۔ ان کے حلقے میں سنا ہے ‘62,61ہزار ووٹ جعلی پڑے تھے(شکر ہے ‘ 62‘63ہزار نہیں پڑے تھے) دوسرے یہ کہ الیکشن کمشن میں فارن فنڈنگ کیس کھل گیا ہے۔ اس کیس میں بہت سے راز ہیں۔ ایسے کہ سامنے آئے تو بھونچال کی سی فضا بن جائے گی۔ آنکھیں پھٹی کی پھٹی اور منہ کھلے کے کھلے رہ جائیں گے۔ چنانچہ بھولے ناتھ اپنی کشت امید ہری ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ کسی پر امید کو ناامید کرنا اچھی بات نہیں لیکن سچ یہ ہے کہ دونوں معاملات ٹھس ہو جائیں گے۔ قاسم سوری کی نااہلی عارضی ہے اور فارن فنڈنگ کیس لیاقت علی خاں کے مقدمہ قتل اور حمود الرحمن کمشن کی رپورٹ کی طرح آر آئی پی(ریسٹ ان پیس) ہو کر رہ جائے گا۔ اس لئے کہ بچانے والا’’امید‘‘ کرنے والوں سے طاقتور ہے۔ ٭٭٭٭٭ قاسم سوری کے معاملے کو لے لیجیے‘ وہ اکیلے تو نہیں تھے جو اس طرح کی کاریگری سے جیتے۔ ان کا رزلٹ ویسے رات آٹھ نو بجے تک واضح ہو گیا چنانچہ وہ اس رات حلقہ چھوڑ کر اپنے گھر چلے گئے اور شام غم میں گم ہونے کی تیاری کر رہے تھے کہ اچانک فون آیا(وٹس ایپ بھی آ سکتا تھا) کہ میاں کہاں ہو‘ آپ کو 60ہزار ووٹو ں سے جتوا دیا غم کی نفیری خوشی کی شہنائی میں بدل گئی۔ ان کی کامیابی گریٹ وکٹری پلان کا حصہ تھی۔ اگر اسی طرح نااہلی کا حلف چل نکلا تو پی ٹی آئی اپنے ستر بہتر سپوتوں سے محروم ہو جائے گی۔ یہ تو کسی کو کسی صورت وارا نہیں کھاتا۔ چنانچہ قاسم سوری کہیں نہیں گئے۔ بس تعطیلات گزار رہے ہیں۔ نعیم بخاری ان کے وکیل ہیں۔ بخاری صاحب کو کون نہیں جانتا۔ کون ہے جو انہیں ’’نا‘‘ کر سکے۔ ٭٭٭٭٭ تقریر پر تعریفی جوار تھم گیا۔ اب بھاٹا شروع ہے۔ ایک انصاف پسند واقف کار قدرے حیران نظر آئے کہ ابھی تو تعریفی سپاس ناموں کا مزا آنا شروع ہوا تھا کہ ہوا الٹی چلنے لگی۔ عرض کیا کہ ہر جوار کو بھاٹا ہے اور خاص طور سے جو جوار فرمائش پر لایا جائے اس کی شیلف لائن اتنی بھی بہت ہے۔ بہرحال مایوسی قدرتی ہے۔ پلان تو دورہ امریکہ سے پہلے یہ بن گیا تھا کہ کس کس قسم کے ڈونگرے کتنی کتنی مقدار میں برسانے ہیں۔ اتنی باریک بینی سے ڈونگرا پلان لکھا گیا تھا کہ داد دینی پڑتی ہے۔ یہ تک طے تھا کہ ’’تاریخ میں پہلی بار‘‘ کا ڈونگرہ اس کثرت سے برسایا جائے گا کہ لوگوں کو سچ مچ پچھلی تاریخ بھول جائے یا وہ یہ سمجھ لیں کہ تاریخ کی شروعات ابھی سال بھر پہلے ہی تو ہوئی ہے۔ ٭٭٭٭٭ یہ مدّ تو جزر میں بدل رہا ہے اور اسلام آباد کی فضائوں میں دھرنے کا خوف سرما کی دھند کی طرح چھا رہا ہے۔ ایک تجزیہ نگار نے فرمایا کہ کچھ بھی ہو مولانا 15ہزارسے زیادہ لوگ اسلام آباد نہیں لا سکیں گے۔ ایسا ہے تو پھر خوف کی کوئی وجہ بنتی ہی نہیں ہے۔ آخر اتنے لوگ تو پانچ سال پہلے خاں صاحب اور مولوی صاحب بھی لے ہی آئے تھے۔ مولوی صاحب کے ساتھ آٹھ دس ہزار تھے۔ خاں صاحب کے پانچ سات ہزار وہ پندرہ ہزار کچھ نہ کر سکے حالانکہ رجال غیب ان کے ساتھ تو تھے‘ تو مولانا کے پندرہ کیا کر لیں گے جبکہ رجال کی تھپکی سے بھی سراسر محروم ہیں۔ لیکن ایک اور صاحب نے یہ اطلاع دے کر فضا گھمبیر بنا دی کہ چالیس ہزار کے لگ بھگ لوگ تو مولانا کو پنڈی اسلام آباد ہی سے مل جائیں گے، ٭٭٭٭٭ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دھرنا ہو گا ہی نہیں۔ مسلم لیگ ن نے ایک مہینہ آگے کی تاریخ دے کر دراصل مہذب لفظوں میں انکار کر دیا ہے اور مولانا بھی اتنے سادہ نہیں کہ مسلم لیگ نون کی اس ناں کو سمجھ نہ سکیں۔ پیپلز پارٹی پہلے ہی انکار کرچکی ہے۔ اس کا موقف ہے کہ ہم دھرنوں کے مخالف ہیں۔ ساتھ نہیں دے سکتے۔ اگرچہ بلاول بھٹو نے کل ہی یہ بھی کہا کہ مراد علی شاہ کو گرفتار کیا تو ایسا دھرنا دیں گے کہ مولانا کے دھرنے کو لوگ بھول جائیں گے۔ لیکن مولانا نے ابھی دھرنا دیا ہی نہیں۔ بھولنے کے لئے کسی اور دھرنے کی مثال دینا چاہیے تھی۔ ان دو جماعتوں کے ’’انکار‘‘ کی بنا پر خیال کیا جا رہا ہے کہ مولانا دھرنا ملتوی کر دیں گے یا پھر پکڑ لئے جائیں گے۔ ایسا لگتا تو نہیں ہے۔ ٭٭٭٭٭ مریم نواز شریف نے اپنی ضمانت کی درخواست یہ کہتے ہوئے دائر کر دی ہے کہ اتنے مہینے ہو گئے‘ نیب ابھی تک کرپشن کا ایک ثبوت بھی نہیں بتا سکا۔ ضمانت ہوتی ہے یا نہیں اس پر کوئی رائے نہیں دی جا سکتی۔ ویسے آسمانی قوتیں ان کا بھرم کسی صورت معافی کرتی نظر نہیں آتی۔ لیکن اس سے قطع نظر‘ مریم سے جو تفتیش ہوتی رہی‘ کی کچھ جھلکیاں باہر آئیں جو بہت مزے کی تھیں۔ تفتیش دو سوالات کے گرد گھومتی رہی۔ پہلا سوال، آپ سیاست میں آئی ہی کیوں؟ دوسرا سوال‘ آپ سیاست چھوڑ کیوں نہیں دیتیں؟ ان سوالات سے نیب کی احتساب پالیسی سرسے پائوں تک صاف نظر آ جاتی ہے‘ اس کے سوا اور کیا کہیے۔ ٭٭٭٭٭ تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیر علی زیدی کو شکوہ ہے کہ کراچی کے لوگوں نے انہیں ’’کچرا کنگ‘‘ کا خطاب دے دیا ہے۔ انہیں تو خوش ہونا چاہیے۔ کسی اور بے چارے کو تو کچرا سیٹھ کا خطاب بھی نہیں ملا‘آپ کو تو جناب براہ راست کنگ کے منصب پر جا بٹھایا یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔