معزز قارئین!۔ پرسوں( 20 محرم الحرام اور 30 ستمبر ) کو، جناب رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و سلم کے مؤذن ، حبشی نژاد حضرت بلالؓ کا یومِ وصال منایا گیا۔ حضرت بلالؓ ، آنحضرتؐ کے صِرف مؤذن ہی نہیں ، بلکہ خازن، عصا بردار اور ذاتی خادم بھی تھے ۔پیغمبر انقلابؐ کے ساتھ تمام غزوات میں شریک حضرت بلالؓ کا مرتبہ عاشقِ رسولؐ کا تھا۔ ’’شاعرِ مشرق ‘‘ علاّمہ اقبالؒ نے عاشقِ رسول ؐ کی حیثیت سے اپنی ایک فارسی نظم ’’ دُعا‘‘ میں رسول ِ مقبول ؐ سے عرض کِیا کہ … از مُقّدر ، شِکوہ ہا ، دَاریم ما! نرخِ تو ، بالائو ، نا داریم ما ! …O… از تہی دَستاں ، رُخِ زیبا ، مپوش! عشقِ سلمان ؓ و بلالؓ ، ارزاں فروش! یعنی۔ ’’ اے محبوبِ ربّ اُلعالمین! ہمیں اپنے مقّدر سے شکوہ ہے کہ آپؐ کی قیمت بہت بالا ہے لیکن ہم نادارؔ ، مُفلس ہیں ۔ آپ ؐ ہم سے اپنا خوبصورت چہرہ نہ چھپائیں! ‘‘۔ معزز قارئین!۔ حضرت بلالؓ مکّہ مکرمہ کے ایک کافر امیّہ بن خلف کے غُلام تھے ، جب ابن خلف کو علم ہُوا کہ حضرت بلالؓ نے اسلام قبول کرلِیا ہے ، تو اُس نے مسلمان بلالِ حبشیؓ کو بہت اذیتیں پہنچائیں ۔ پھر حضرت ابو بکر صدیقؓ نے حضرت بلالؓ کو امیّہ ابن خلف سے خرید کر آزاد کردِیا اور حضرتِ بلالؓ ، رحمتہ للعالمین کی غُلامی قبول کر کے عاشقِ رسولؐ بن گئے ۔ یہ مرتبہ حاصل کرنے کے بعد اکثر جلیل اُلقدر صحابہ حضرت بلالؓ کو ’’ سیّدنا بلالؓ ! ‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے ۔ پیغمبرِ انسانیت ؐ کے وصال کے بعد حضرت بلالؓ نے مؤذن کا منصب چھوڑ دِیا تھا ۔ سیّد اُلنساء حضرت فاطمۃ اُلزہرا ؓ نے حضرت بلالؓ سے اذان کی فرمائش کہلا بھیجی تو، آپؓ نے اذان کہی تو ، سیّد اُلنساء بے ہوش ہوگئی تھیں ۔ حضرت بلالؓ سے عشق کی بنا پر علاّمہ اقبالؒ نے بلالؓ ؔکے عنوان سے اردو میں دو نظمیں لکھیں ۔ پہلی نظم میں کہا کہ … چمک اُٹھا جو ستارہ ، ترے مُقدّر کا! حبشؔ سے تجھ کو اُٹھا کر، حجاز میں لایا! …O… ہُوئی، اُسی سے ، ترے غم کدے کی ،آبادی! تری غُلامی کے صدقے ، ہزار آزادی! علاّمہ اقبالؒ نے بلالؔ کے عنوان سے اپنی دوسری نظم میں کالے اور گورے لوگوں میں دوستی، میل جول اور غریبوں کو امیروں کے ہم پلّا کرنے والی ’’ نوائے جگر گداز‘‘ کے بارے میں کہا کہ … ہوتا ہے جس سے ، اَسود ،و احمر میں اختلاط! کرتی ہے جو ، غریب کو ہم پہلوئے امِیر! …O… اقبالؒ ؔکِس کے عشق کو ، یہ فیضِ عام ہے؟ رُومی ؔ، فنا ہُوا، حبشی ؔکو دَوام ہے! معزز قارئین!۔ یہ عاشقِ رسول ؐ علاّمہ اقبالؒ کے عشق کی انتہا ہے کہ آپ ؒ نے اپنے رُوحانی پیر و مُرشد مولانا جلال اُلدّین رومیؒ کو فنا ؔ اور حضرتِ بلال حبشی کو دوام ؔ کے مقام پر فائز کردِیا؟ ۔ 1911ء میں علاّمہ اقبالؒ نے اپنی شہرۂ آفاق نظم ’’شِکوہ‘‘ میں اللہ تعالیٰ سے ، حضرت بلالِ حبشیؓ کی عظمت بیان کرتے ہُوئے ، اُس دَور کے ’’اِسلامیانِ ہند‘‘ کے معمولات و مشغولات کو بیان کرتے ہُوئے عرض کِیا کہ … تجھ کو چھوڑا کہ رسول ؐعربی کو چھوڑا؟ بُت گری پیشہ کِیا ، بُت شکنی کو چھوڑا! …O… عشق کو ، عشق کی آشقتہ سری ، کو چھوڑا؟ رسمِ سلمانؓ کو اویس قرنی ؓ کوچھوڑا؟ …O… آگ تکبیر کی ، سینوں میں ، دبی رکھتے ہیں! زندگی ، مثل ِ بلالِ حبشی ؓ رکھتے ہیں! معزز قارئین!۔ علاّمہ اقبالؒ ’’مصّور ِ پاکستان ‘‘نے اپنی سیاسی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہُوئے، بیرسٹر محمد علی جناحؒ کو لندن سے ہندوستان بلوایا ۔ پھر وہ ’’ آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کی قیادت کرتے ہُوئے ۔قائداعظم محمد علی جناحؒ کہلائے اِس لئے کہ ’’ آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے کارکن ’’آگ تکبیر کی ، سینوں میں ، دبی رکھتے اور ’’ زندگی مثلِ بلال حبشی ؓ رکھتے تھے‘‘ ۔ قائداعظم ؒ کی قیادت میں پاکستان قائم ہوگیا۔ 1913ء میں علاّمہ اقبالؒ نے اپنی نظم ’’ جواب شکوہ‘‘ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’’ اسلامیانِ ہند‘‘کو جوابی پیغام دِیا۔ دو شعر یوں ہیں… واعظِ قوم کی وہ پُختہ خیالی نہ رہی! برق طبعی نہ رہی، شُعلہ مقالی نہ رہی! …O… رہی گئی رسمِ اذاں ، رُوحِ بلالی ؓؔنہ رہی! فلسفہ رہ گیا ، تلقین غزالی نہ رہی! معزز قارئین!۔ تحریکِ پاکستان کے دَوران بھی یہی ماحول تھا جب، ہندوئوں کی متعصب سیاسی جماعت کانگریس کے ہمنوائوں (کانگریسی مولویوں ) نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی ۔ آج اُن کی باقیات ؔ اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چل رہی ہیں لیکن، ’’عاشقانِ رسولؐ ‘‘ تو ڈٹے ہُوئے ہیں ۔ مَیں نے ایک ادنیٰ غلام رسولؐ کی حیثیت سے دسمبر 2007ء میں پنجابی زبان میں نعت لکھی تھی ، جِس میں حضرت بلال حبشیؓ کو بھی یاد کِیا گیا تھا ۔ تین بند پیش خدمت ہیں… سَرچشمہ ، حُسن و جمال ، دا! کِسے ڈِٹھّا نہ ، اوسؐ دے نال دا! ربّ گھلّیا ، نبیؐ ، کمال دا! مَیں غُلام ، اوسؐ دی ، آل ؑ دا! …O… بُوہا ؔعِلم دا ، تے مہاؔبلی! اوہداؐ جانِشین ، علی ؑ وَؔلی! جیہڑا ، ڈِگدیاں نُوں، سنبھال دا! مَیں غُلام ، اوسؐ دی ، آل ؑ دا! …O… اوہدے ؐناویں ، میری زندگی! اوہدؐا عِشق ، میری بندگی! پِھراں لبھّدا رَستہ بلالؓ ؔدا! مَیں غُلام ، اوسؐ دی ، آل ؑ دا! معزز قارئین!۔ سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات سیّد انور گیلانی سے میرا 1973ء سے تعلق اور 1992 سے دوستی ہے۔ (ہندوستان کے بادشاہ فیروز شاہ تغلق کے دَور میںنامور ولی اللہ ) سیّد شاہ نجم اُلدّین بلخی ؒ ، سید انور محمود کے نانا اور پیرو مرشد تھے ۔ سیّد صاحب کا روحانی سلسلہ ، صوبہ بہار کے شہر پٹنہ سے کچھ دَور موضع بہار شریفؔ کے ’’ فیض عالم‘‘ سیّد مخدوم شاہ شرف اُلدّین سے ہے۔ بادشاہ نے اپنے ایک درباری کو ایک بہت بڑی جاگیر کے کاغذات دے کر حضرت مخدوم شاہ صاحب ؒکی خدمت میں بھجوایا تو، آپ ؒ خُود دربار میں تشریف لے گئے اور بادشاہ سے کہا کہ ’’ درویشوں کو جاگیروں کی ضرورت نہیں ہوتی!‘‘۔ سیّد انور محمود اور بیگم نیئر محمود نے میرے دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کی شادی میں شرکت کی۔ 1999ء میں میرے بڑے بیٹے ذوالفقار علی چوہان کی شادی پر دونوں میاں بیوی باراتی کی حیثیت سے ہمارے ساتھ گئے۔16 اگست 2009ء کو سیّد انور محمود اور بیگم نیئر محمود کے بیٹے سیّد بلال محمود کی شادی ، بیگم و ائیر کموڈور مسعود اختر کی بیٹی امبر سے ہُوئی۔ اُسے سے پہلے بھابھی نیئر محمود نے مجھ سے سیّد بلال کا سہرا لکھنے کی فرمائش کی تھی۔ مَیں نے پنجابی زبان میں سہرا لِکھا ، اُسے فریم کرایا اور اپنے بیٹے شہباز علی چوہان اور بہو عنبرین کو ساتھ لے کر سیّد انور محمود کے گھر گیا ، اُس وقت واشنگٹن میں "Settle" سیّد انور محمود کی بیٹی مدیحہ ؔاور داماد کاشف بھی موجود تھے ۔ بھابھی نیئر محمود کی فرمائش پر مَیں نے ،وہ سہرا پڑھا تو ، دونوں میاں بیوی آبدیدہ ہوگئے۔ بھابھی نیئر محمود نے میرے سر پر وار کر پانچ ہزار روپے میرا صدقہ دِیا۔ سہرے کے دو بند پیش خدمت ہیں … مَیں منگتا علی ؓ لجّ بال دا، جی! مَیتھے سایہ ، نبیؐ دِی آل دا، جی! ول ّ آئوندا، نئیں قِیل و قال دا ، جی ! سہرا لِکھاں مَیں ، سیّد بلالؔ دا ، جی! …O… بلخی ؔؒسیّداں تے ، گِیلا نِیاںؔ ؒدا! وارث، وَلیاں ؔؒ، قُطباں ؔؒ، نُورانیاںؒ ؔدا! نیئر ،اؔنور محمودؔ، دے لعل دا ، جی! سہرا لِکھاں مَیں ، سیّد بلال ؔدا ، جی! پرسوں (20 محرم اُلحرام ،30 ستمبر کو ) مَیں نے زندگی میں پہلی مرتبہ ٹیلی فون پر ، برادرم سیّد انور محمود سے پوچھا کہ ’’ بھائی!۔ آپ نجیب اُلطرفین سیّد ہیں ، پھر آپ نے اپنے بیٹے کا نام بلال ؔ کیوں رکھا تو، اُنہوں نے کہا کہ ’’ بھائی اثر چوہان! میری بیگم تو، اُس کام نام سرمد ؔ رکھنا چاہتی تھیں لیکن، میری بہنوں کی فرمائش پر اِس کا نام بلالؔ رکھا گیا ‘ ‘۔ معزز قارئین!۔ مَیں کالم کے آغازمیں لکھ چکا ہُوں کہ ’’عاشقِ رسولؐ ہونے کے ناتے اکثر جلیل اُلقدر صحابہ حضرت بلال ؓ کو ’’ سیّدنا بلالؓ ! ‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے!‘‘ ۔